گئے دنوں کاذکر ہے جب لوگ انسان اور کُتے کا فرق سمجھا کرتے تھےاُس وقت نہ تو انسان کُتے کی موت مرا کرتے تھے نہ ہی کُتے انسان کی۔ اُس زمانےکی ایک اچھی بات یہ بھی تھی کہ انسان کو انسان سمجھنا بُرا نہیں سمجھا جاتا تھا ہاں مگر کُتوں کُتوں میں فرق سمجھنے والے حضرات بالکل اُسی طرح تعداد میں بہت زیادہ تھے جیسے آج ہیں۔خیرچھوڑئیے پرانی باتیں،ویسےبھی تاریخ میں ہمارے لئےسبق کےسوا اوررکھابھی کیا ہے اورسبق سےہمارا کیالینادیناہمیں تو بس صرف قصے کہانیاں ہی اچھی لگتےہیں۔
ایک دفعہ کاذکر ہے ایک محلے میں دو کُتے رہا کرتے تھے، آپ تو جانتے ہیں کُتا تو کُتا ہی ہوتا ہے چاہے گلی کے نُکڑ پر رہے یا عالیشان بنگلے میں، اُس کی اپنی کچھ خصلتیں ہوتی ہیں۔ نسل چاہے جو بھی ہو سبھی کتوں میں کم و بیش ایک سی عادتیں پائی جاتی ہیں؛ جیسے کہ کاٹنے والے بھونکتے نہیں اور جو بھونکتے ہیں وہ کسی کی سنتے نہیں ہاں بس ہوتے دونوں ہی لاتوں کے بھوت ہیں۔ بہرحال کتوں اور انسانوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے، کُتے بیشک ہم انسانوں کی بری عادتوں کا اثر نہیں لیتے ہوں گےمگر ہم انسانوں نے اُن کی صحبت کا پورا پورا فائدە اُٹھایاہے۔ خیر آج ہم کُتوں، اُن کے فوائد، ضوابط اور قواعد کا کابُلی یا تقابُلی کوئی سا بھی جائزہ نہیں لیں گے۔
تو ذکر تھا ایک مُحلے کا جس میں دو کُتے رہا کرتے تھے جن میں سے ایک کا نام کُتا تھا اور دوسرے کا ٹامی۔ کُتا ہونے کے ناطے دونوں کا ایک دوسرے سے اینٹ کُتے کا بیر تو تھا ہی مگر مزے کی بات یہ تھی کہ دونوں ہی ایک دوسرے کو کُتا اور خود کو اینٹ سمجھتے تھے۔ جب کبھی بھی ٹامی اپنے مالک کے ہاتھ میں اپنی زنجیر تھما کہ محلے کے دورہ پر نکلا کرتا تھا تو کُتا گلی کے کونے والی میاں صاحب کی کی دکان کے تھڑے پر چڑھ کر یہ بات جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ ناصرف ٹامی کا مالک میاں صاحب سے زیادہ امیر، طاقتور ہر دلعزیز اور محلے کا ایک بااثر شخص ہے زور زور سے بھونکا کرتا تھا۔ بلکہ ٹامی خودبھی ایک بہتر، تربیت یافتہ، صاف ستھرا اورذہنی طور پرپختہ اور قدرے سمجھدار کُتا ہے ،جس کی صرف ایک بھونک سے ہی پورا محلہ تھر تھر کانپ اُٹھتا ہے۔ اور تو اور خود میاں صاحب کے آس پڑوس والے اور دوسرے محلوں کے ہم خیال بھی ٹامی کے بارے میں زبان پر کچھ بھی الٹاسیدھا لانے سے پہلے کئی کئی ملاقاتوں کا بندوبست فرمایا کرتے تھے۔
ایک دفعہ کاذکر ہے ایک محلے میں دو کُتے رہا کرتے تھے، آپ تو جانتے ہیں کُتا تو کُتا ہی ہوتا ہے چاہے گلی کے نُکڑ پر رہے یا عالیشان بنگلے میں، اُس کی اپنی کچھ خصلتیں ہوتی ہیں۔ نسل چاہے جو بھی ہو سبھی کتوں میں کم و بیش ایک سی عادتیں پائی جاتی ہیں؛ جیسے کہ کاٹنے والے بھونکتے نہیں اور جو بھونکتے ہیں وہ کسی کی سنتے نہیں ہاں بس ہوتے دونوں ہی لاتوں کے بھوت ہیں۔ بہرحال کتوں اور انسانوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے، کُتے بیشک ہم انسانوں کی بری عادتوں کا اثر نہیں لیتے ہوں گےمگر ہم انسانوں نے اُن کی صحبت کا پورا پورا فائدە اُٹھایاہے۔ خیر آج ہم کُتوں، اُن کے فوائد، ضوابط اور قواعد کا کابُلی یا تقابُلی کوئی سا بھی جائزہ نہیں لیں گے۔
تو ذکر تھا ایک مُحلے کا جس میں دو کُتے رہا کرتے تھے جن میں سے ایک کا نام کُتا تھا اور دوسرے کا ٹامی۔ کُتا ہونے کے ناطے دونوں کا ایک دوسرے سے اینٹ کُتے کا بیر تو تھا ہی مگر مزے کی بات یہ تھی کہ دونوں ہی ایک دوسرے کو کُتا اور خود کو اینٹ سمجھتے تھے۔ جب کبھی بھی ٹامی اپنے مالک کے ہاتھ میں اپنی زنجیر تھما کہ محلے کے دورہ پر نکلا کرتا تھا تو کُتا گلی کے کونے والی میاں صاحب کی کی دکان کے تھڑے پر چڑھ کر یہ بات جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ ناصرف ٹامی کا مالک میاں صاحب سے زیادہ امیر، طاقتور ہر دلعزیز اور محلے کا ایک بااثر شخص ہے زور زور سے بھونکا کرتا تھا۔ بلکہ ٹامی خودبھی ایک بہتر، تربیت یافتہ، صاف ستھرا اورذہنی طور پرپختہ اور قدرے سمجھدار کُتا ہے ،جس کی صرف ایک بھونک سے ہی پورا محلہ تھر تھر کانپ اُٹھتا ہے۔ اور تو اور خود میاں صاحب کے آس پڑوس والے اور دوسرے محلوں کے ہم خیال بھی ٹامی کے بارے میں زبان پر کچھ بھی الٹاسیدھا لانے سے پہلے کئی کئی ملاقاتوں کا بندوبست فرمایا کرتے تھے۔
اِسرایئلی بربریت سے لیکرعراق اور شام میں آئی ایس آئی ایس کی بڑھتی ہوئی شدت پسند عسکری خلافت تک، طالبانی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے شہری ہوں یا معصوم ہزارہ شیعہ، بلوچستان سے لاپتہ افراد ہوں یا کراچی کے گُمنام سیاسی مقتول، متاثرین ضربِ عضب یا کشمیر سے ملنے والی مسخ شُدہ لاشیں، سب کا بس ایک ہی سوال ہے کہ ہمیں اِس حال کو پہنچانے والے کُتے ہیں یا ٹامی؟
خیر صاحب قصہ مختصر یہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں کُتے اور ٹامی کی رنجش میں اضافہ ہوتا گیا وہیں میاں صاحب کے لاڈلے آوارہ پالتو کتےکی عادتیں بھی بگڑتی گئیں۔ ٹامی کی دیکھا دیکھی کُتے نےبھی ناصرف میاں صاحب کی دکان کے تھڑے کے آس پاس سے گزرنے والے نوجوانوں،معصوم بچوں اور عورتوں پر بلاوجہ بھونکنا شروع کر دیا بلکہ محلے میں رہنے والے تقریباً ہر خاص و عام کو اپنی اس عادت سے عاجزکر دیا۔ کُتے کے اس وقت بے وقت بھونکنے سے سہمےمعصوم چہروں کی اُڑی ہوئی ہوائیوں پر اگر کبھی میاں جی کی نظر پڑ جایا کرتی تھی تو وہ دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کرتے تھے اور اپنے کُتے کی اِن حرکات پر اُنہیں جیسے پیار سا آجایا کرتا تھا کہ چلو کُتے کی بھونک ہی سہی اسی بہانے محلے میں اُن کی بڑ تو قائم ہے۔
دوسری طرف ٹامی بھی ترقی کی منزلیں طے کرنے میں پُرعزم محلے پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا خواب اپنی منحوس آنکھوں میں سجائے خالی خولی بھونکنے اور دھمکانے سے بھی آگے کُچھ اور کر گزرنے کےلئے ہمہ وقت تیار رہتا تھا۔ قدرت کا کرنا دیکھئے ایک روز محلے کےچند بچے گلی کے نکڑ پر کرکٹ کھیل رہے تھے کہ اچانک اُن کی گیند سیدھی کھڑکی کے شیشے کو توڑتی میاں صاحب کے گھر میں جا پڑی، جس سے بقول میاں صاحب اُن کے آرام میں خلل پڑا جب بچے گیند مانگنے کے لئے میاں جی کے دروازے پر پہنچے تو کُتے کی بھَوں بھنکار شروع ہوگئی، اسی دوران جب میاں جی گیند ہاتھ میں لئے آگ بگولا دروازے پر پہنچے اور اپنے پیارے آوارہ کومعصوم نہتے بچوں پر بھونکتا دیکھا تو بجائے کُتے کو روکنے کے خود بھی بچوں پر چڑھ دوڑے۔
معصوم بچوں نے جب میاں جی کو چنگھاڑتےاور کُتے کو آپے سے باہر ہوتے پایا تو بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔ بچوں کو بھاگتا دیکھ کر کُتے نے آو دیکھا نہ تاو اور چڑھ دوڑا اپنا ہی حق مانگنے والے معصوموں پر۔شکر ہے بچے اُس آوارہ کُتے کے جبڑوں کی پہنچ سے دُور نکل گئے،لیکن کچھ بچے بھاگتے بھاگتے لڑکھڑا کرگرے اورمعمولی زخمی ہوگئےخیرصاحب جان بچی سو لاکھوںپائے۔ اِس سارے واقعے پر سارا محلہ میاں جی اور اُن کے انوکھے لاڈلے، نیم آوارہ نیم پالتو کُتے کی شکایت لئے احتجاج کرنے ٹامی کے مالک کے دروازے پر جمع ہوگیا۔ ٹامی کا مالک چونکہ ایک بااثر اور قدرے امیر و طاقتور صاحب حیثیت آدمی تھا اُس نے فوری طور پر پنچایت لگا کے میاں جی کو پیش ہونے کا حُکم دیا۔ میاں جی ٹہلتے ہوئے ٹامی کےمالک کے گھر پر لگی پنچایت کے سامنے نمودار ہوے تو اُن کا دُم ہلاتا وفادار کتا بھی ٹہلتا ہوا آیا اور ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ ابھی گفتگو شروع ہی ہوئی تھی اور آوارہ کُتے پر بس فردِجُرم عائد ہی ہونے والی تھی کہ ٹامی بِنا زنجیر کے لان میں آگیا اورکُتے نے اپنے ازلی حریف ٹامی پربھونکنا شروع کر دیا۔ ماحول میں اچانک گرما گرمی دیکھ کر میاں جی نے کُتے اور ٹامی میں بیچ بچاو کی کوشش کی جس پر کُتا تو کُچھ خاموش سا ہو گیا مگر ٹامی تو ٹامی تھا ایک قدم آگے بڑھ کر میاں جی کی پنڈلی پر چک مار گیا ۔ اس کے دانت میاں جی کی شلوار کے پائینچے کو چھیدتے ہوئے اُن کی ٹانگ کی بوٹیاں تک چبا گئے۔ ہر طرف میاں جی کی آہ و بکا خوب سُنائی دے رہی تھی،اورتواور ٹامی کے مالک کے کُچھ حامی بھی لگے میاں جی کی حمایت کرنے۔ایک صاحب توجذبات میں یہاں تک کہہ گئے”حضور اپنےکتے کو لگام ڈالئے”جس پر ٹامی کا مالک چراغ پا ہو کے بولا "زبان سنبھال کے بات کرو یہ کُتا نہیں ٹامی ہے” اور یہی وە وقت تھا جہاں سے یہ مثل مشہور ہوئی کہ "تیرا کُتا، کُتا اور میرا کُتا، ٹامی”
تو صاحب آج کی دنیا بھی اُسی محلے کے موافق ہے جہاں مختلف آوارہ کُتے اپنے مالکوں کے اِشاروں پر انسانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جِن کی مثالیں ہمیں امریکہ سے لیکر عرب ممالک اور پاکستانی شہروں سے لے کر فلسطین اور غزہ تک ملتی ہیں۔ اِسرایئلی بربریت سے لیکرعراق اور شام میں آئی ایس آئی ایس کی بڑھتی ہوئی شدت پسند عسکری خلافت تک، طالبانی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے شہری ہوں یا معصوم ہزارہ شیعہ، بلوچستان سے لاپتہ افراد ہوں یا کراچی کے گُمنام سیاسی مقتول، متاثرین ضربِ عضب یا کشمیر سے ملنے والی مسخ شُدہ لاشیں، سب کا بس ایک ہی سوال ہے کہ”ہمیں اِس حال کو پہنچانے والے کُتے ہیں یا ٹامی؟”
مُجھے تو اِس سوال کا جواب معلوم نہیں آپ جانتے ہوں توناچیز کو ضرور آگاہ کیجئے گا۔
دوسری طرف ٹامی بھی ترقی کی منزلیں طے کرنے میں پُرعزم محلے پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا خواب اپنی منحوس آنکھوں میں سجائے خالی خولی بھونکنے اور دھمکانے سے بھی آگے کُچھ اور کر گزرنے کےلئے ہمہ وقت تیار رہتا تھا۔ قدرت کا کرنا دیکھئے ایک روز محلے کےچند بچے گلی کے نکڑ پر کرکٹ کھیل رہے تھے کہ اچانک اُن کی گیند سیدھی کھڑکی کے شیشے کو توڑتی میاں صاحب کے گھر میں جا پڑی، جس سے بقول میاں صاحب اُن کے آرام میں خلل پڑا جب بچے گیند مانگنے کے لئے میاں جی کے دروازے پر پہنچے تو کُتے کی بھَوں بھنکار شروع ہوگئی، اسی دوران جب میاں جی گیند ہاتھ میں لئے آگ بگولا دروازے پر پہنچے اور اپنے پیارے آوارہ کومعصوم نہتے بچوں پر بھونکتا دیکھا تو بجائے کُتے کو روکنے کے خود بھی بچوں پر چڑھ دوڑے۔
معصوم بچوں نے جب میاں جی کو چنگھاڑتےاور کُتے کو آپے سے باہر ہوتے پایا تو بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔ بچوں کو بھاگتا دیکھ کر کُتے نے آو دیکھا نہ تاو اور چڑھ دوڑا اپنا ہی حق مانگنے والے معصوموں پر۔شکر ہے بچے اُس آوارہ کُتے کے جبڑوں کی پہنچ سے دُور نکل گئے،لیکن کچھ بچے بھاگتے بھاگتے لڑکھڑا کرگرے اورمعمولی زخمی ہوگئےخیرصاحب جان بچی سو لاکھوںپائے۔ اِس سارے واقعے پر سارا محلہ میاں جی اور اُن کے انوکھے لاڈلے، نیم آوارہ نیم پالتو کُتے کی شکایت لئے احتجاج کرنے ٹامی کے مالک کے دروازے پر جمع ہوگیا۔ ٹامی کا مالک چونکہ ایک بااثر اور قدرے امیر و طاقتور صاحب حیثیت آدمی تھا اُس نے فوری طور پر پنچایت لگا کے میاں جی کو پیش ہونے کا حُکم دیا۔ میاں جی ٹہلتے ہوئے ٹامی کےمالک کے گھر پر لگی پنچایت کے سامنے نمودار ہوے تو اُن کا دُم ہلاتا وفادار کتا بھی ٹہلتا ہوا آیا اور ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ ابھی گفتگو شروع ہی ہوئی تھی اور آوارہ کُتے پر بس فردِجُرم عائد ہی ہونے والی تھی کہ ٹامی بِنا زنجیر کے لان میں آگیا اورکُتے نے اپنے ازلی حریف ٹامی پربھونکنا شروع کر دیا۔ ماحول میں اچانک گرما گرمی دیکھ کر میاں جی نے کُتے اور ٹامی میں بیچ بچاو کی کوشش کی جس پر کُتا تو کُچھ خاموش سا ہو گیا مگر ٹامی تو ٹامی تھا ایک قدم آگے بڑھ کر میاں جی کی پنڈلی پر چک مار گیا ۔ اس کے دانت میاں جی کی شلوار کے پائینچے کو چھیدتے ہوئے اُن کی ٹانگ کی بوٹیاں تک چبا گئے۔ ہر طرف میاں جی کی آہ و بکا خوب سُنائی دے رہی تھی،اورتواور ٹامی کے مالک کے کُچھ حامی بھی لگے میاں جی کی حمایت کرنے۔ایک صاحب توجذبات میں یہاں تک کہہ گئے”حضور اپنےکتے کو لگام ڈالئے”جس پر ٹامی کا مالک چراغ پا ہو کے بولا "زبان سنبھال کے بات کرو یہ کُتا نہیں ٹامی ہے” اور یہی وە وقت تھا جہاں سے یہ مثل مشہور ہوئی کہ "تیرا کُتا، کُتا اور میرا کُتا، ٹامی”
تو صاحب آج کی دنیا بھی اُسی محلے کے موافق ہے جہاں مختلف آوارہ کُتے اپنے مالکوں کے اِشاروں پر انسانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جِن کی مثالیں ہمیں امریکہ سے لیکر عرب ممالک اور پاکستانی شہروں سے لے کر فلسطین اور غزہ تک ملتی ہیں۔ اِسرایئلی بربریت سے لیکرعراق اور شام میں آئی ایس آئی ایس کی بڑھتی ہوئی شدت پسند عسکری خلافت تک، طالبانی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے شہری ہوں یا معصوم ہزارہ شیعہ، بلوچستان سے لاپتہ افراد ہوں یا کراچی کے گُمنام سیاسی مقتول، متاثرین ضربِ عضب یا کشمیر سے ملنے والی مسخ شُدہ لاشیں، سب کا بس ایک ہی سوال ہے کہ”ہمیں اِس حال کو پہنچانے والے کُتے ہیں یا ٹامی؟”
مُجھے تو اِس سوال کا جواب معلوم نہیں آپ جانتے ہوں توناچیز کو ضرور آگاہ کیجئے گا۔
Leave a Reply