
یہ عدالت سمجھتی ہے کہ آپ اس مقدمے میں بے گناہ ہیں لہذا آپ کو باعزت بری کیا جاتا ہے””
اسے اٹھائیس اکتوبردو ہزار بارہ کو گرفتار کیا گیا اور یکم نومبر کو اسکا ٹرائل شروع ہوا اور اسی روزہی یہ مقدمہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا ۔ یہ ایک جملہ جس میں محض چند الفاظ شامل ہیں، سننے کے بعد اس کے چہرے پر طمانیت تھی، سکوت تھا اور سرشاری برکھا بن کے برس رہی تھی۔جیسے سالوں کی تپسیا کرنے کے بعد تتواگیان پا لیا ہو۔ جیسے اس نے ٹرائے فتح کرنے کے ساتھ ساتھ ہیلن کا ہاتھ بھی تھام لیا ہو۔ اس نے گرفتار ہوتے ہی ایک مضمون لکھا اور کہا:
In old Greece Justice is presented as blind, in modern Greece it is merely winking and nodding, Justice remains in thrall to politics
وہ ۱۹۶۶ء میں یونان میں پیدا ہوا۔ ۱۹۸۸ء میں اس نے اپنے لئے موزوں ترین شعبے کا انتخاب کیا اور یہ شعبہ تھا صحافت کا۔ ۲۸ اکتوبر کوجب وہ گرفتار ہوا تو شاید کچھ لمحوں کے لئے سن اٹھاسی کا وہ دن اسے منحوس ترین لگا ہو کیونکہ صحافی بننے کی لگن نے اسے سلاخوں کے پیچھے لا کھڑا کیا تھا ۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ چند لمحے انتہائی مختصر دورانیے کے لئے اس کے خیال سے ٹکرائے ہوں گے ۔۱۹۹۱ء میں اس نے ٹی وی میڈیا کا رخ کیا اور پھر پیچھے مڑ کر کبھی نہ دیکھا۔ دنیا بھر کے وار زونز میں اس نے خطرناک رپورٹنگ کی، زندگی کو کئی بار خطرات سے دو چار کیا، کئی بار گولیوں نے اسے چھو کر دیکھنا چاہا لیکن اس کی قسمت میں زندہ رہنا لکھا گیا تھا۔ بوسنیا، خلیج فارس کے جنگ زدہ علاقے، فلسطین، کردستان، البانیہ حتی کہ کوسوو جیسے خطرناک جنگی محاذوں پر بھی وہ ایک نڈر صحافی ثابت ہوا۔
اپریل ۲۰۱۲ء میں اس نے اپنا میگزین نکالا۔میگزین کا نام رکھا "ہاٹ ڈاک” ۔ ہوا یوں کہ فرانس کی وزیر خارجہ کرسٹین لگارڈ نے اپنے یونانی ہم منصب کو تقریبا تین سال پہلے ایک فہرست فراہم کی۔ موصوفہ آئی ایم ایف کی سربراہ بھی رہ چکی ہیں۔ اس لسٹ کو لگارڈ لسٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اور یہ یونانی جدید دور کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ لسٹ کہیں گم ہو گئی یا پھر یوں کہیے کہ اسے دانستہ ردی کے کاغذوں میں رکھ دیا گیا۔۔ لیکن رواں سال اکتوبر میں یہ لسٹ اس یونانی صحافی کے ہاتھ لگ گئی جس کا ذکر آج میں کر رہا ہوں۔ اس لسٹ میں دو ہزار کے قریب یونانی تاجروں، سیاستدانوں اور امرا کے نام شامل تھے اور یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ٹیکس سے بچنے کے لئے اور کالے دھن کو محفوظ بنانے کے لئے اربوں روپے سوئس اکاونٹس میں محفوظ کر رکھے تھے۔ ہاٹ ڈاک کے اس مدیر نے جب یہ دیکھا کہ اس کی دھرتی کو لوٹا جا رہا ہے تو اس نے اپنے ضمیر کی آواز اور صحافتی اصولوں پر لبیک کہتے ہوئے ‘ہاٹ ڈاک’ میں یہ لسٹ شائع کر دی۔ لسٹ شائع ہونے کی دیر تھی کہ پورا ملک ہل کہ رہ گیا۔ اس لسٹ میں کئی نامور سیاستدان بھی شامل تھے۔ سابق ڈپٹی وزیر داخلہ کا نام بھی اسی لسٹ میں شامل تھا۔۔ جس نے اکتوبر ۲۰۱۲ میں ہی خود کشی کر لی۔ ہاٹ ڈاک کے مدیر نے لکھا کہ گذشتہ چند برسوں سے یونان جس اقتصادی زوال سے گزر رہا ہے اس کی بڑی وجہ یہ دوہزار لوگ ہیں جنہوں نے خطیر ٹیکس چوری کیا ہے اور لوٹی رقم سوئس بنکوںمیں جمع کروا رکھی ہے۔ اس لسٹ کو شائع کرنے کی پاداش میں یونان کے امرا اور حکمرانوں نے اس صحافی کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا اور الزام عائد کیا کہ اس نے ذاتی معلومات کو چرایا ہے جو کہ ایک جرم ہے۔ صحافی کے وکیل نے بہ بانگ دہل کہا کہ یہ ٹرائل اب یونان کی جمہوریت کا ایک بڑا امتحان ہے۔ کیونکہ یونان میں انصاف فراہم کرنے والے ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں اور احتساب کا تصور اب خواب بنتا جا رہا ہے۔ ملکی میڈیا کی آواز بھی دبی رہی ، برملا حمایت تو دور کی بات کسی نے دبے لفظوں بھی اس صحافی کے حق میں آواز بلند نہ کی۔کیونکہ کہا جاتا ہے کہ یونان میں امرا، سیاستدان اور صحافی ایک ہی برتن میں کھاتے ہیں۔ ٹرائل شروع ہوا تو اس نڈر صحافی نے اپنے دفاع میں جو بیان دیا وہ قابل تقلید ہے۔
” میں نے یہ لسٹ اس لئے شائع کی، کیونکہ میں ایک صحافی ہوں، اور یہ میری اولین ذمہ داری ہے کہ میں لوگوں کو سچ سے آگاہ کروں ، یہ لسٹ دو سال سے حکومت کے پاس تھی۔ لیکن پچھلی تمام حکومتوں نے اپنے اپنے مفادات کی خاطر عوام سے جھوٹ بولا اورعوامی مفادات کو پامال کیا ، یہاں امرا کو انصاف سے بالا تر سمجھا جاتا ہے، حتی کہ یونانی میڈیا نے بھی چپ سادھ رکھی ہے، اور ان لٹیروں کو پکڑنے کی بجائے مجھے جیل میں بھیج دیا گیا ہے۔”
اس بہادر سپوت کے دفاع میں ملکی میڈیا سے تو کوئی آگے نہ بڑھا، البتہ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کے سربراوہ جم بومیلہ نے ان کے حق میں بیان دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مقدمہ دائر کروانے والوں میں سے کسی کا تعلق بھی ان دوہزار افراد سے نہ تھا جن کا نام لگارڈ لسٹ میں شامل ہے۔ درحقیقت یہ سب حکومتی ایما پر کیا گیا ، کیونکہ حکومت بلاواسطہ ایسے افراد کے مفادات کا تحفظ کرنے پر مجبور تھی۔ ٹرائل کے دوران اس صحافی نے انتہائی بے باک انداز میں اپنا بیان ریکارڈ کروایا اور کہا کہ یہ رقم اس ملک کی ہے، اس پر عائد ٹیکس پر تمام حقوق اس ملک کے عوام کے ہیں، اور یہ کسی طور پر بھی ذاتی معلومات کو چوری کرنے کا مقدمہ نہیں ہے۔ جج مالیا ولیکا پر بھی شدید دباو تھا اور اس کی ایک وجہ بین الاقوامی میڈیا پر اس معاملے کی بھر پوری کوریج بھی تھی۔ یہاں میں یہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ یونان نے ہمیشہ تاریخ رقم کی ہے، اور یونان کی تاریخ ہمیشہ سے ہی انتہائی بھرپور رہی ہے، لیکن حالیہ چند برسوں سے یہ ملک شدید مالی بحران کا شکار ہے اور اسی دوران ہاٹ ڈاک نے یہ لسٹ شائع کی۔ جج مالیا ولیکا کے ہاں اپنی مٹی کی محبت ابھی زندہ تھی، وطن سے وفاداری اور ہم وطنوں کے حقوق کی پاسداری کی رمق باقی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے انصاف کا دامن تھامتے ہوئے، تمام خطرات کو پس پشت ڈالنے کی ٹھان لی اور پھر ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے کہا:
” یہ عدالت مسٹر کوستاس ویکسیوانس کو معصوم قرار دیتے ہوئے با عزت بری کرتی ہے”
یہ وہی کوستاس ویکسیوانس ہیں، جنہیں جب اپنے حق میں بولنے کے لئے کوئی پلیٹ فارم نہ ملا تو برطانوی اخبار دی گارڈین نے ان کا مضمون شائع کیا۔اور جب انہیں گرفتار کیا گیا تو امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے ان کے حق میں اداریہ لکھا۔اور الجزیرہ ٹی وی نے ان کے ٹرائل کی بھر پور کوریج کی۔ کوستاس جب عدالت سے باہر نکلے تو ان چہرے پر ایک طمانیت تھی، ایک سرشاری تھی، جیسے انہوں نے ٹراوئے فتح کر لیا ہو اور یقننا حق اور سچ کی فتح کے بعد ایک سچے اور کھرے انسان کے تاثرات ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ ان کے ٹرائل کے بارے میں بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس پڑھتے پڑھتے بارہا میں نے کوستاس کو خراج تحسین پیش کیا اور اس خواہش کا اظہار بھی کرتا رہا کہ کاش میں اس شخص کے روبرو پیش ہو کر اسے سلام عقیدت پیش کر سکوں۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر اس تحریر کا پاکستان سے کیا تعلق ہے۔۔؟؟
یقنا کوئی تعلق نہیں۔۔۔!!!!
واقعی ضمیر اور پاکستان کا آپس میں کیا تعلق
taaluk tu tha…
aur tha hi tugh se
jo tune kabhi samjha hota,
tu taaluk jo tha….
tu tha tugh se…
if we could understand…