کوک سٹوڈیو کے پروڈیوسرز ڈیفنس کے ان بچوں جیسے ہیں جو سال میں ایک مرتبہ گرمی کی چھٹیوں پر اپنے ممی پاپا کے "ویلج ” جاتے ہیں اور وہاں "کاوز” اور "ٹیوب ویلز” اور "فیلڈز” دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ یہ بچے وہاں سیلفیاں لیتے ہیں، لسی پیتے ہیں اور #ourcultureisawsome یا #proudofmyroots جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈکرتے ہیں۔ یہ اپنے گٹار پر چند ٹپےماہیے گاتے ہیں، سر پر چارے کی گٹھڑی دھر کر تصویریں لیتے ہیں اور ٹیوب ویل پر نہاتے ہیں مگرکلچر کا یہ سالانہ بخار ایک ہفتے میں ہی اتر جاتا ہے اور پھر انہیں اپنے آرام دہ کمرے یاد آجاتے ہیں۔ یہ بچے "آفٹر ہیونگ سو مچ فن” واپس لوٹ جاتے ہیں۔ کوک سٹوڈیو بھی ہر برس سالانہ لوک ثقافت کے بخار کے زیر اثرچند لوک دھنیں گٹار اور ڈرم پر بجا کر لاکھوں لائیکس، ہزاروں شیئرز اور ٹویٹر ٹرینڈ کے ہم راہ لوٹ جاتا ہے۔
اگرچہ کوک سٹوڈیو کا فلسفہ عمدہ، اہم اور ضروری ہے لیکن جس انداز میں لوک دھنوں، عارفانہ کلام اور ماضی کے معروف گیتوں کو نئے انداز میں پیش کیا جاتا ہے وہ نہ خاصا قابل اعتراض ہے۔ بہت سے اچھے گیتوں کو چھوڑ کر کوک سٹوڈیو کے حالیہ اور گزشتہ سیزن میں جس گھسے پٹے انداز میں معروف گیتوں کو نئے ڈھنگ سے پیش کرنے کی فارمولہ کوششیں کی گئی ہیں وہ اپنی جگہ کوفت کا باعث ہے۔ جہاں ایک جانب فرید ایاز اور ابومحمد نے قوالی کی دم توڑتی روایت کو مقبولیت کی ایک نئی لہر بخشی وہیں ہم نے عاطف اسلم اور کومل رضوی جیسے گلوکاروں کے ہاتھوں میرا اے چرخہ نولکھا، زاہد نے میرا حاصل ایماں نہیں دیکھا اور وش ملے جیسے گیتوں کو تباہ ہوتے بھی سنا ہے۔ یہ اور کوک سٹوڈیو کے اس جیسے گیت نہ تو ہماری لوک اور کلاسیکی موسیقی کے تقاضے پورے کرتے ہیں اور نہ ہی فیوژن کی صنف کے معیارات پر پورے اترتے ہیں۔
اگرچہ کوک سٹوڈیو کا فلسفہ عمدہ، اہم اور ضروری ہے لیکن جس انداز میں لوک دھنوں، عارفانہ کلام اور ماضی کے معروف گیتوں کو نئے انداز میں پیش کیا جاتا ہے وہ نہ خاصا قابل اعتراض ہے۔ بہت سے اچھے گیتوں کو چھوڑ کر کوک سٹوڈیو کے حالیہ اور گزشتہ سیزن میں جس گھسے پٹے انداز میں معروف گیتوں کو نئے ڈھنگ سے پیش کرنے کی فارمولہ کوششیں کی گئی ہیں وہ اپنی جگہ کوفت کا باعث ہے۔ جہاں ایک جانب فرید ایاز اور ابومحمد نے قوالی کی دم توڑتی روایت کو مقبولیت کی ایک نئی لہر بخشی وہیں ہم نے عاطف اسلم اور کومل رضوی جیسے گلوکاروں کے ہاتھوں میرا اے چرخہ نولکھا، زاہد نے میرا حاصل ایماں نہیں دیکھا اور وش ملے جیسے گیتوں کو تباہ ہوتے بھی سنا ہے۔ یہ اور کوک سٹوڈیو کے اس جیسے گیت نہ تو ہماری لوک اور کلاسیکی موسیقی کے تقاضے پورے کرتے ہیں اور نہ ہی فیوژن کی صنف کے معیارات پر پورے اترتے ہیں۔
بہت سے اچھے گیتوں کو چھوڑ کر کوک سٹوڈیو کے حالیہ اور گزشتہ سیزن میں جس گھسے پٹے انداز میں معروف گیتوں کو نئے ڈھنگ سے پیش کرنے کی فارمولہ کوششیں کی گئی ہیں وہ اپنی جگہ کوفت کا باعث ہے
روحیل حیات کے پروڈیوس کردہ چند گیتوں اور سٹرنگز کے بیشتر گانوں کو سن کر یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ یہ حضرات پاکستانی پاپ موسیقی کے اسرارورموز سے تو اچھی طرح واقف ہیں لیکن مشرقی موسیقی کی نزاکتوں سے بے بہرہ ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان گیتوں کا مقصد کسی بھی طرح موسیقی کے ذریعے انسان کی حس جمالیات کی تسکین یا سُرودیا کی روحانیت کی ترسیل نہیں بلکہ محض زیادہ سے زیادہ لائیکس، شیئرز اور کمنٹس ہیں۔ بیشتر گیتوں میں یہ عمومی رحجان حاوی نظر آتا ہے جس کے تحت فیوژن یا امتزاج کا مطلب بس طبلے کے ساتھ ڈرم بجانا اور انترے استھائی کے درمیان بانسری بجوانا سمجھ لیا گیا ہے۔ گو روحیل حیات اور سٹرنگز دونوں اپنی اصناف میں پاکستان کے مایہ ناز موسیقار ہیں اور وہ پاپ موسیقی کے مغربی اور پاکستانی مزاج سے بخوبی آگاہ ہیں مگر شاید ان اصحاب کو مشرقی موسیقی کا مذاق نہیں ۔ ممکن ہے کہ کاروباری تقاضے لوک دھنوں اور مشرقی موسیقی کو ان کے اصل رنگ میں پیش کرنے میں مانع ہوں لیکن کیا اس طرح اس پروگرام کا بنیادی مقصد فوت نہیں ہو جاتا جو ہماری مٹی سے پھوٹنے والے گیتوں کو نئی نسل تک پہنچانے سے متعلق ہے؟
بیشتر گیتوں میں یہ عمومی رحجان حاوی نظر آتا ہے جس کے تحت فیوژن یا امتزاج کا مطلب بس طبلے کے ساتھ ڈرم بجانا اور انترے استھائی کے درمیان بانسری بجوانا سمجھ لیا گیا ہے۔
کوک سٹوڈیو کے کاروباری اور تشہیری پہلو سے قطع نظر یہ بے حد ضروری ہے کہ نئی نسل کو ان کے ثقافتی ورثے سے روشناس کرایا جائےاور کوک سٹوڈیواس کے لیے بہترین پلیٹ فارم ثابت ہو سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ اگرچہ اس پروگرام میں بعض ایسے گیت پیش بھی کیے گئے جنہوں نے ہماری ثقافت کے مختلف رنگ اجاگر کیے لیکن زیادہ تر گیتوں میں مغربی ڈھنگ مشرقی انگ پر غالب دکھائی دیتا ہے۔ تمام تر خامیوں کے باوجود بچوں کو صابری برادران، حامد علی بیلا اور نصرت فتح علی خان کی گائی چیزیں سنتے دیکھنا اپنی جگہ ایک تسکین آمیز امر ہے۔ یہ پروگرام اس لیے بھی اہم ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستانی موسیقی کی صنعت ختم ہوچکی ہے گلوکاروں اور سازندوں کو ایک ایسا فورم دستیاب ہے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتے ہیں۔لیکن بہتر ہوگا کہ موسیقی کو محض بوتلیں بیچنے یا سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کرنے کی بجائے جمالیاتی تسکین اور فنکارانہ اظہار کے نقطہ نظر سے تخلیق کیا جائے۔
فیوژن چیز دگر است و کلاسیکی موسیقی ایک بلکل الگ چیز هے . میں نے کوک اسٹوڈیو کے عرب اور افریقی ممالک کے شوز بھی دیکھے وه اپنی موسیقی کو خالص انداز میں پیش کررهے هیں لیکن هم تو پاکستانی هیں شاه سے بڑھ کر شاه کے وفادار شاید اسی لئے اس شو کو کامیابی تو ملتی هے لیکن ایک مخصوص طبقه فکر میں اور عوامی مقبولیت انهی گیتوں کو ملتی هے جو اپنے جڑوں سے پیوست هوتے هیں
یہاں تک کہ اگر فیوژن کی بنیاد پر بھی اس بار کے کوک اسٹوڈیو سیزن کا تجزیہ کریں تو بھی ذہنی کوفت کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے۔ ایک آدھ ہی ٹریک ایسی ہوں گے جنھیں برداشت کیا جا سکتا ہے۔ گوگوش کے ٹریک ’من آمدہ ام‘ میں عاطف اسلم نے ایسی گھٹیا اردو سطریں ڈالی ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ دراصل ان گانے والوں کو خوشفہمی ہے کہ وہ گانے لکھ بھی سکتے ہیں۔ کوک اسٹوڈیو پاکستان کا مجھے ہمیشہ انتظار رہتا تھا کہ کچھ اچھے ٹریکس فیوژن ہی کی صورت میں سننے کو مل جاتے تھے۔ لیکن اس بار تو کمبخت نے اچھے کی امید کئی سارے بکواس ٹریکس سنوا دیے۔