سانحہ صفورہ اور سبین محمود کے قتل میں ملوث لڑکوں کی گرفتاری سے ملک کے بہت سے حلقوں میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ملزمان کا تعلق ملک کے صاحب ثروت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے سے ہونا ہے ۔ اگرچہ اس سے قبل بھی دہشت گردی کے بہت سے واقعات میں صاحب ثروت طبقے کے نوجوان ملوث پائے گئے ہیں لیکن دہشت گردی کی جڑیں صرف غربت اور جہالت میں تلاش کی جاتی رہی ہیں اور مدرسوں کو وہ نرسری قرار دیا جا تا رہا ہے جہاں دہشت گرد وںاور شدت پسندوں کی فصل تیار ہو تی ہیں۔
سانحہ صفورہ کے ملزمان کی گرفتاری کے بعد بہت سے تجزیہ نگار اور دانشور حضرات اس ملک کے نظام تعلیم پہ سوالات اٹھا رہے ہیں ۔چند سال پہلے ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے لاہور ،کراچی اور اسلام آباد کی بڑی جامعات میں ایک سروے کروایا تھا جس کے چونکا دینے والے نتائج سامنے آئے تھے ۔ان نتائج کے مطابق ان یونیورسٹیز کے طلبا میں انتہا پسندی کا غالب رحجان سامنے آیا تھا۔
سانحہ صفورہ کے ملزمان کی گرفتاری کے بعد بہت سے تجزیہ نگار اور دانشور حضرات اس ملک کے نظام تعلیم پہ سوالات اٹھا رہے ہیں ۔چند سال پہلے ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے لاہور ،کراچی اور اسلام آباد کی بڑی جامعات میں ایک سروے کروایا تھا جس کے چونکا دینے والے نتائج سامنے آئے تھے ۔ان نتائج کے مطابق ان یونیورسٹیز کے طلبا میں انتہا پسندی کا غالب رحجان سامنے آیا تھا۔
آخری چٹان، شاہین، محمد بن قاسم اور پناہ (حصہ اول و دوم) کے علاوہ تیس سے زائد ڈرامے اور سریلز سرکاری ٹی وی سے نشر ہوئے جن کے ذریعے ملک میں جہادی فکر اور طرززندگی کو فروغ دیا گیا۔
ضیا دور میں امریکی اور سعودی مالی امدادسے مذہبی انتہا پسندی کی ترویج کے لیے جو سماجی تشکیل نو (Social Engineering) کی گئی اس میں نظام تعلیم کے علاوہ بھی کئی ذرائع استعمال کیے گئے ۔معاشرتی پیچیدگیوں کو ضرورت سے زیادہ آسان اور سادہ بنا کر پیش کیا گیا ۔سردجنگ کے اواخر میں امریکی صدر ریگن کے مطابق دنیا خیر اور شر کے دھڑوں میں منقسم تھی تو پاکستان میں گھڑے جانے والے بیانیے کے مطابق دنیا اور معاشرہ کفر ودہریت اورایمان میں تقسیم تھا ۔اس جانبدار نقطہ نظر کی ترویج میں سرکاری ذرائع ابلاغ پیش پیش تھے ۔ سرکاری ٹی وی پہ چلنے والے تاریخی ڈراموں میں ہندوو اور عیسائیوں کی تصویر کشی کسی بھی طور پے انہیں معاشرے اور دنیا کے حصے کے طور پر پیش نہیں کرتی تھی۔نسیم حجازی کے نالوں پہ بننے والے ڈرامے تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے تھے لیکن یہ ڈرامے اس وقت کے ریاستی بیانیے کے معیار پہ پورا اترتے تھے ۔”آخری چٹان “،” شاہین”، “محمد بن قاسم” اور”پناہ” (حصہ اول و دوم) کے علاوہ تیس سے زائد ڈرامے اور سریلز سرکاری ٹی وی سے نشر ہوئے جن کے ذریعے ملک میں جہادی فکر اور طرززندگی کو فروغ دیا گیا۔ تھیوڈور گیبریل نے اپنی کتاب کرسچن سٹیزن ان این اسلامک سٹیٹ (Christian Citizen in an Islamic State) میں دی کرسچن وائس کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ “ٹیپو سلطان” ،”محمد بن قاسم “اور “شاہین ” میں نہ صرف تاریخ کو مسخ کیا گیا بلکہ ان ڈراموں نے پاکستان میں اقلیتوں پہ بھی برے اثرات مرتب کیے۔ان ڈراموں میں جہاں ایک طرف جہاد بالسیف کے تصورکو اجاگر کیا گیا وہیں ایسے پرواگرام اور ڈرامے بھی تھے جو بہت ہی دھیمے لہجے میں دین کی تبلغ کرتے تھے۔ ان پروگراموں کے کردار اکثر ایک اچھا اور سچا مسلمان بننے کے لیے نہ صرف تصوف کا سہارا لیتے بلکہ وہ خدا کی تلاش میں کبھی خاکروبوں اور کبھی گڈریوں کے پاس دھکے کھاتے بھی نظر آتے۔
نصاب تعلیم ،سرکاری ذرائع ابلاغ سے ایک ایسی قدامت پسندنسل کی آبیاری کی گئی جو اب اس ملک کے تعلیمی اداروں اور ذرائع ابلاغ میں اہم فیصلہ ساز نشستوں پہ براجمان ہے جوابھی تک کسی نہ کسی صورت میں جہاداور سچا مسلمان بننے کے بیانیے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔ہم ٹی وی اور دیگر ٹی وی چینلوں ڈراموں میں اب ایک نیا عنصر سامنے آ رہا ہے ۔”شہر زاد”،”ایک پل”اور” شناخت ” جیسے ڈراموں میں دوطرح کے کردار نظر آتے ہیں ایک تو وہ ہیں جو کہ “سچے”،” کھرے”اور” اچھے مسلمان” ہیں جنہوں نے اسلامی شعار کو اپنی زندگی بنا یا ہوا ہے اور مذہب کو ایک ثقافتی رویے کے طور پہ اپنایا ہوا ہے ۔یہ لوگ اعلیٰ یعنی صاحب ثروت طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو کبھی گمراہ تھے جن کی لڑکیاں ننگے سر بے حجاب اور عبادات سے دور تھیں پھر کسی مرشد کامل کے سمجھانے پہ نہ صرف صوم صلوٰۃ کی پابند ہو گئیں بلکہ اپنے طور پہ ایک مقصدبھی چُن لیا اور وہ مقصد اپنے قول اور اعمال سے دوسرے لوگوں کو ان کی گمراہی کا احساس دلا کر انہیں دین کی طرف واپس لے جانے کی کوشش ہے ۔ان کے مقابل دوسرے کردار وہ ہیں جو نہ صرف دین سے دور ہیں بلکہ اس کی وجہ سے خسارہ بھی اٹھا رہے ہیں یہ خسارہ کبھی جسمانی تو کبھی جذباتی شکل میں سامنے آتا ہے ۔یہ ڈرامے یہ بھی دکھاتے ہیں کہ صاحب ثروت طبقے کے بچے اچھے مسلمان نہیں ہیں ۔شہرزاد کی ہیروئن ایک منظرمیں اپنی ماں سے کہتی ہے کہ اس نے اس کی اچھی تربیت نہیں کی ہے اسے نماز پڑھنا نہیں سکھائی اور اسے وضو کرنے کا طریقہ تک نہیں آتا ۔اور یہی وجہ ہے کہ وہ اللہ سے دور ہے اور اللہ سے دوری ہے اس کی مصبیتوں کی وجہ ہے (یہا ں سب سے بڑی مصبیت کا اس کردار کو طلاق کی شکل میں سامنا ہے )۔
نصاب تعلیم ،سرکاری ذرائع ابلاغ سے ایک ایسی قدامت پسندنسل کی آبیاری کی گئی جو اب اس ملک کے تعلیمی اداروں اور ذرائع ابلاغ میں اہم فیصلہ ساز نشستوں پہ براجمان ہے جوابھی تک کسی نہ کسی صورت میں جہاداور سچا مسلمان بننے کے بیانیے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔ہم ٹی وی اور دیگر ٹی وی چینلوں ڈراموں میں اب ایک نیا عنصر سامنے آ رہا ہے ۔”شہر زاد”،”ایک پل”اور” شناخت ” جیسے ڈراموں میں دوطرح کے کردار نظر آتے ہیں ایک تو وہ ہیں جو کہ “سچے”،” کھرے”اور” اچھے مسلمان” ہیں جنہوں نے اسلامی شعار کو اپنی زندگی بنا یا ہوا ہے اور مذہب کو ایک ثقافتی رویے کے طور پہ اپنایا ہوا ہے ۔یہ لوگ اعلیٰ یعنی صاحب ثروت طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو کبھی گمراہ تھے جن کی لڑکیاں ننگے سر بے حجاب اور عبادات سے دور تھیں پھر کسی مرشد کامل کے سمجھانے پہ نہ صرف صوم صلوٰۃ کی پابند ہو گئیں بلکہ اپنے طور پہ ایک مقصدبھی چُن لیا اور وہ مقصد اپنے قول اور اعمال سے دوسرے لوگوں کو ان کی گمراہی کا احساس دلا کر انہیں دین کی طرف واپس لے جانے کی کوشش ہے ۔ان کے مقابل دوسرے کردار وہ ہیں جو نہ صرف دین سے دور ہیں بلکہ اس کی وجہ سے خسارہ بھی اٹھا رہے ہیں یہ خسارہ کبھی جسمانی تو کبھی جذباتی شکل میں سامنے آتا ہے ۔یہ ڈرامے یہ بھی دکھاتے ہیں کہ صاحب ثروت طبقے کے بچے اچھے مسلمان نہیں ہیں ۔شہرزاد کی ہیروئن ایک منظرمیں اپنی ماں سے کہتی ہے کہ اس نے اس کی اچھی تربیت نہیں کی ہے اسے نماز پڑھنا نہیں سکھائی اور اسے وضو کرنے کا طریقہ تک نہیں آتا ۔اور یہی وجہ ہے کہ وہ اللہ سے دور ہے اور اللہ سے دوری ہے اس کی مصبیتوں کی وجہ ہے (یہا ں سب سے بڑی مصبیت کا اس کردار کو طلاق کی شکل میں سامنا ہے )۔
نصاب تعلیم ،سرکاری ذرائع ابلاغ سے ایک ایسی قدامت پسندنسل کی آبیاری کی گئی جو اب اس ملک کے تعلیمی اداروں اور ذرائع ابلاغ میں اہم فیصلہ ساز نشستوں پہ براجمان ہے جوابھی تک کسی نہ کسی صورت میں جہاداور سچا مسلمان بننے کے بیانیے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں
ڈراموں کی دنیا سے نکل کر اگر ہم ٹی وی ٹاک شوز کا رخ کریں تو ہمیں ایک الگ دنیا نظر آتی ہے گذشتہ سال ایک بڑے ٹی وی چینل پر سنیل نامی ایک لڑکے کو آن ایر مسلمان کیا گیا ۔پاکستان میں جب سے نجی ٹی وی چینل آئے ہیں تب سے لے کر اب تک ہر تیرہ فروری کی رات ویلٹینائن ڈے پہ ایک ایک نہ ایک پروگرام ہر ٹی وی چینل پر ایسا دیکھنے کو ملے گا جو اس بات پربحث کر رہا ہوگا کہ اسلام میں اس دن کو منانے کی اجازت ہے یا نہیں ہے۔ منہ سے جھاگ نکالتے اور اسلام کا پرچار کرنے والے وہ تجزیہ نگار جو نئے نئے سول بیورکریسی سے ریٹائر ہوئے ہیں ،وہ نہ صرف اسے حرام قرار دیں گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایسے یہودو ہنود کی سازش بھی قرار دے دیں گے ۔ایسا ہی پروگرام سن کر اگر کوئی ایسا بچہ بہک جائے جس کے ذہن میں کسی ٹی وی ڈرامے نہ یہ بات پختہ کی ہو کہ وہ ایک اچھا مسلمان نہیں ہے تو ایسے حالات میں کسی نوجوان کا شدت پسندوں کے ہاتھ چڑھا جانا کوئی انہونی نہیں ۔
جب تک ہمارے ٹی وی چینل اس بات کا شور مچاتے رہیں گے اور یہ دکھاتے رہیں گے کہ ہم اچھے اور سچے مسلمان نہیں ہیں اور ہمیں اپنی شناخت اپنے مذہب سے پیدا کرنی ہے ناکہ اپنی قومیت اور اپنی ثقافت سے تو ہم کہیں نہ کہیں وہ دروازہ کھلا چھوڑ رہے ہیں جس سے گزر کر سخت گیر مذہبی نظریات رکھنے والے ہماری نوجوان نسل کے دل دماغ میں گھس جاتے ہیں ۔ہمیں ایک کھلے ذہن کا حامل معاشرہ بنانے کی بجائے ایک تنگ نظر جتھا بنایا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ ابھی تک کوئی ایسا ٹی وی ڈرامہ نہیں دیکھا جس میں مذہبی اقلیتوں کو بھی جگہ دی گئی ہو انہیں ایک عام شہری کی طور پہ دکھایا گیا ہو جوکہ عام انسانوں کی طرح ہنستا اور بولتا ہے اور اس کے مسلمانوں کے ساتھ اچھے اور نزدیکی سماجی روابط ہیں اوریہ ایک ایسی خلیج ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں بڑھتی جا رہی ہے ۔ایسے میں صرف نظام تعلیم ہی نہیں ہمیں اور بھی بہت کچھ بدلنے کی ضرورت ہے ۔
جب تک ہمارے ٹی وی چینل اس بات کا شور مچاتے رہیں گے اور یہ دکھاتے رہیں گے کہ ہم اچھے اور سچے مسلمان نہیں ہیں اور ہمیں اپنی شناخت اپنے مذہب سے پیدا کرنی ہے ناکہ اپنی قومیت اور اپنی ثقافت سے تو ہم کہیں نہ کہیں وہ دروازہ کھلا چھوڑ رہے ہیں جس سے گزر کر سخت گیر مذہبی نظریات رکھنے والے ہماری نوجوان نسل کے دل دماغ میں گھس جاتے ہیں ۔ہمیں ایک کھلے ذہن کا حامل معاشرہ بنانے کی بجائے ایک تنگ نظر جتھا بنایا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ ابھی تک کوئی ایسا ٹی وی ڈرامہ نہیں دیکھا جس میں مذہبی اقلیتوں کو بھی جگہ دی گئی ہو انہیں ایک عام شہری کی طور پہ دکھایا گیا ہو جوکہ عام انسانوں کی طرح ہنستا اور بولتا ہے اور اس کے مسلمانوں کے ساتھ اچھے اور نزدیکی سماجی روابط ہیں اوریہ ایک ایسی خلیج ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں بڑھتی جا رہی ہے ۔ایسے میں صرف نظام تعلیم ہی نہیں ہمیں اور بھی بہت کچھ بدلنے کی ضرورت ہے ۔