محمد شعیب
 
campus-talks
 

کوٹہ سسٹم وسائل اور مواقع سے محروم طبقات کے افراد کی پسماندگی دور کرنے کا ایک عارضی نظام ہے ۔ سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ مساوی وسائل اور تعلیمی سہولیات فراہم کئے بغیر بلوچستان، اندرون سندھ، جنوبی پنجاب اور قبائلی و شمالی علاقہ جات کے نوجوانوں کا احساس محرومی ختم نہیں کیا جا سکتا۔

وفاقی کابینہ نے صوبوں کو منصفانہ نمائندگی دینے کے لئے کوٹہ سسٹم میں بیس سال کی توسیع کر دی ہے۔ وفاقی محکموں اور تعلیمی اداروں میں خواتین ، اقلیتوں ، معذور افراد اور تمام صوبوں کی قومی دھارے میں شمولیت کے لئے آئین کی دفعہ 27(1) میں ترمیم کے ذریعے 2033 تک کوٹہ نظام برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کوٹہ سسٹم وسائل اور مواقع سے محروم طبقات کے افراد کی پسماندگی دور کرنے کا ایک عارضی نظام ہے ۔ سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ مساوی وسائل اور تعلیمی سہولیات فراہم کئے بغیر بلوچستان، اندرون سندھ، جنوبی پنجاب اور قبائلی و شمالی علاقہ جات کے نوجوانوں کا احساس محرومی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ حالیہ بجٹ میں پسماندہ علاقوں کے تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے کسی قسم کے وسائل مختص نہ کئے جانے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت بھی ماضی کی طرح عارضی اقدامات سے مسائل حل کرنے کی بجائے وقتی طور پر مسائل دبانا چاہتی ہے۔ ماہرین کے مطابق کوٹہ سسٹم کی توسیع کے ساتھ تعلیمی سہولیات اور مساوی مواقع کی فراہمی کے لئے نظام وضع کرنا بھی ضروری ہے۔ اس نظام کے حل کے لئے طلبہ اور سماجی کارکن ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم اور معیار تعلیم میں بہتری کا مطالبہ کئی بار کر چکے ہیں۔ تعلیم کا بنیادی انسانی حق اور ترقی کے لئے یکساں مواقع کی فراہمی ہر پاکستانی کا آئینی حق ہے جسے گزشتہ حکومتوں میں بھی نظر انداز کرتے ہوئے کوٹہ سسٹم ، قرض حسنہ اور ییلو کیب سکیم جیسے عارضی منصوبے شروع کئے جاتے رہے ہیں۔
پاکستان میں کوٹہ کے تحت نمائندگی کا نظام لیاقت علی خان کے دور حکومت میں سندھ میں مہاجروں اور سندھیوں کے درمیان موجود تنازعہ کے حل کے لئے متعارف کرایا گیا تھا۔ ووٹ بینک برقرار رکھنے، سیاسی حمایت حاصل کرنے اور تعلیمی اداروں میں آنے والے نوجوانوں کو مخصوص طلبہ تنظیموں میں شمولیت پر مجبو ر کرنے سے یہ نظام متنازعہ بھی تصور کیا جاتا ہے

 

Leave a Reply