[blockquote style=”3″]
مدیر کے نام خطوط قارئین کی جانب سے بھیجے گئے خطوط پر مشتمل سلسلہ ہے۔ یہ خطوط نیک نیتی کے جذبے کے تحت شائع کیے جاتے ہیں۔ ان میں فراہم کی گئی معلومات اور آراء مکتوب نگار کی ذاتی آراء اور ذمہ داری ہیں جن سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ کسی بھی قسم کی غلط بیانی کی صورت میں ادارہ ذمہ دار نہ ہو گا۔
[/blockquote]
بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے بیان میں کوئٹہ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئٹہ میں اتنی بڑی تعداد میں وکلاء اور نہتے شہریوں کا قتل عام انتہائی افسوسناک ہے۔ ایسے واقعات کا رونما ہونا پاکستان کی اُس پالیسی کا نتیجہ ہے جس کے تحت پاکستان مذہبی انتہا پسندوں کی پرورش کرکے بلوچ تحریک آزادی کے خلاف کھڑا کر رہا ہے۔ کوئٹہ میں طالبان کی مجلس شوریٰ کی موجودگی کے باعث دہشت گردی کے ایسے مزید واقعات ہوتے رہیں گے، اب وقت آ گیا ہے کہ عوام اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور جواب طلبی کریں۔ جب تک عوام پاکستان کی ان پالیسیوں کے خلاف خوف کی وجہ سے چپ سادھے رکھیں گے، تب تک عام آدمی کے مقدر میں لاشیں اُٹھانا ہی لکھا ہے۔
فوج اور سرکاری حکام کی جانب سے دہشت گردی کے اِس وقعے کی مذمت کرنا عوام کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت اب پوشیدہ نہیں رہی کہ طالبان، لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ، لشکر اسلام، لشکر خراسان اور ان جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں کو پاکستانی عسکری ادروں کی مکمل یا جزوی حمایت حاصل ہے۔ پاکستانی فوج ان کے خلاف کارروائی کی بات تو ضرور کرتی ہے، مگر پنجاب میں صرف ایک جرائم پیشہ گینگ کے خلاف فوجی آپریشن ہوتا ہے اور مذہبی انتہا پسند تنظیموں کے رہنما آزادانہ گھومتے ہیں۔
فوج اور سرکاری حکام کی جانب سے دہشت گردی کے اِس وقعے کی مذمت کرنا عوام کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت اب پوشیدہ نہیں رہی کہ طالبان، لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ، لشکر اسلام، لشکر خراسان اور ان جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں کو پاکستانی عسکری ادروں کی مکمل یا جزوی حمایت حاصل ہے۔ پاکستانی فوج ان کے خلاف کارروائی کی بات تو ضرور کرتی ہے، مگر پنجاب میں صرف ایک جرائم پیشہ گینگ کے خلاف فوجی آپریشن ہوتا ہے اور مذہبی انتہا پسند تنظیموں کے رہنما آزادانہ گھومتے ہیں۔
خاران میں مُلا منیر ملازئی کی سربراہی میں داعش کے پمفلٹ تقسیم ہوتے ہیں اور وال چاکنگ کی جاتی ہے، لیکن انہیں کھلی چھوٹ حاصل ہے کیونکہ وہ بلوچ قومی تحریک کے خلاف پاکستان کا ساتھ دے رہے ہیں ۔
ثناء اللہ زہری بھی اِن تنظیموں کے خلاف کارروائی کی بات کرتا ہے مگر خود اُس کے اپنے آبائی علاقے زہری، مشک، سوراب اور گدر میں طالبان مذہبی شدت پسند موجود ہیں جہاں انہیں مکمل سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ زہری مشک اور محمد تاوہ میں داعش کے کیمپ موجود ہیں، جن کی سرپرستی بعض سیاسی رہنما خود کر رہے ہیں۔ خاران میں مُلا منیر ملازئی کی سربراہی میں داعش کے پمفلٹ تقسیم ہوتے ہیں اور وال چاکنگ کی جاتی ہے، لیکن انہیں کھلی چھوٹ حاصل ہے کیونکہ وہ بلوچ قومی تحریک کے خلاف پاکستان کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ دُنیا کو بیوقوف بنانے کے لئے ایسی نمائشی کارروائیاں کرتی ہے، جس سے اِن کی امداد میں اضافے کا امکان ہو۔
ہم عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان محرکات کا باریک بینی سے جائزہ لیں، جو نہ صرف بلوچ قومی جدو جہد کے خلاف ہیں بلکہ خطے اور دنیا کے امن کے لئے بھی خطرے کی نشانی ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے "کومبنگ آپریشن” کرنے کا جو اعلان کیا ہے، وہ نئی بات نہیں۔ یہ محض بلوچوں کے خلاف جنگ میں تیزی لانے کا ایک بہانہ ہے۔ پاکستانی فوج نے بلوچستان میں جو قتل عام شروع کر رکھا ہے، اس سے یہ عیاں ہے کہ ان کے ہاں انسانیت نام کی کوئی شئے موجود نہیں۔ ریاست اب بھی شدت پسند عناصر کی سرپرستی سے گریزاں نہیں۔
بلوچستان کے سیکولر سماجی ماحول کو پراگندہ کرنے کے لئے پاکستان دینی مدرسوں اور شدت پسندوں پر لاکھوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ دینی تعلیم یا کسی بھی تعلیم کی اسپیشلائزیشن دنیا میں بچپن یا پہلی جماعت سے شروع نہیں ہوتی۔ ہر کوئی بارہ جماعت پاس کرنے کے بعد اپنے شعبے کی تعلیم کا انتخاب کرتا ہے، مگر پاکستان میں پیدا ہوتے ہی مدرسوں میں داخلے دے کر اور سکولوں میں بنیاد پرست نصاب پڑھا کر شدت پسندی کی اسپیشلائزیشن شروع کرائی جاتی ہے۔ اگر اب بھی دنیا نے اِس خطے کو پاکستان کے رحم و کرم پر چھوڑا تو اس سوچ کی آبیاری و تربیت کئی گنا بڑھ کر بے قابو ہوجائے گی۔
طالبان، جماعت الاحرار و دیگر جماعتیں پاکستان کے اسٹریٹجک اثاثے ہیں، جنہیں وہ کئی دہائیوں سے ہمسایہ ممالک اور اب بلوچ قوم کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔
بلوچستان میں مذہبی جماعتوں کو کھلی چھوٹ دے کر اُن سے پاکستان کا نعرہ لگوانا اور بلوچ تحریک کے خلاف باتیں کرنے کے ساتھ یہ اعتراف کرنا کہ بلوچستان میں پاکستانی جھنڈا ہماری وجہ سے لہرا رہا ہے، ایک ثبوت ہے کہ اِن کی ڈوریں براہ راست پاکستانی فوج و خفیہ اداروں کے ہاتھوں میں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئٹہ میں بلوچ اور پشتوں وکلاء پر حملے کی آڑ میں اسٹیبلشمنٹ بلوچستان میں نیشنل ایکشن پلان کے بعد ایک اور خونی آپریشن کے منصوبے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔
طالبان، جماعت الاحرار و دیگر جماعتیں پاکستان کے اسٹریٹجک اثاثے ہیں، جنہیں وہ کئی دہائیوں سے ہمسایہ ممالک اور اب بلوچ قوم کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ یہی مذہبی و دینی جماعتیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر مراعات، کرسی اور دنیاوی آسائشوں کے لئے اسلام و قرآن کی غلط روح پیش کرکے لوگوں کے ذہنوں میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔ انہی جماعتوں کو بلوچ قومی تحریک کے خلاف صف آرا کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے کئی علاقوں میں آرمی کی زیر نگرانی مذہبی انتہاپسندوں کا بلوچ قومی تحریک کے خلاف باتیں سب کے سامنے اور ریکارڈ پر موجود ہیں۔ مکران میں سرکار کی جانب سے لشکر خراسان کو مسلح کرنے سے لے کر زہری میں داعش کی موجودگی اور وال چاکنگ اور مستونگ میں لشکر جھنگوی کے گڑھ کو تحفظ فراہم کرنا کوئی نئی اور پوشیدہ باتیں نہیں ہیں۔ یہی جماعتیں حزب المجاہدین کے کمانڈر کو آزادی پسند اور بلوچ آزادی پسندوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ حزب المجاہدین کے کمانڈر کی ہلاکت پر سوگ اور مارچ کیا جاتا ہے، اور سرکاری سطح پر احتجاج کیا جاتا ہے مگر عام بلوچ سے لے کر آزادی پسند جہد کار تک کو واجب القتل سمجھا جاتا ہے۔ یہی کرتوت پاکستان کے نام نہاد اسلام کے پیروکاروں کی اصل شکل کو آشکار کرتی ہے۔ قرآن و اسلام ہر قوم کو آزادی کا حق دیتا ہے۔ نام نہاد مولویوں کو بنگلہ دیش میں نسل کشی کو یاد رکھنا چاہئے، جہاں پاکستان نے الشمس اور البدر کے ذریعے اسلام کے نام پر بنگالی مسلمانوں کی نسل کشی کی، بچوں اور خواتین کی عصمت دری کی۔ یہی جماعتیں ایک دفعہ پھر پاکستان کے کہنے پر مختلف ناموں سے بلوچ نسل کشی میں مصروف ہیں۔ کوئٹہ میں بلوچ اور پشتونوں کے قتل میں بھی انہی مہروں کا ہاتھ ہے۔
پشتون قوم کے لئے فیصلے کا وقت آگیا ہے کہ وہ پاکستان کے مظالم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوکر اپنی ہزاروں برس سے موجود آزادانہ شناخت کی بحالی کی جنگ لڑے۔
پنجاب کے حکمران اور جنرل مگر مچھ کے آنسو بہاکر کسی کو دھوکے میں نہیں رکھ سکتے۔ پشتون قوم کے لئے فیصلے کا وقت آگیا ہے کہ وہ پاکستان کے مظالم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوکر اپنی ہزاروں برس سے موجود آزادانہ شناخت کی بحالی کی جنگ لڑے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کے خلاف مذہبی عناصر کے ساتھ نام نہاد قوم پرستوں کو بھی آزمایا جا رہا ہے۔ نیشنل پارٹی کے کئی رہنما ریاستی پیرول پر ڈیتھ اسکواڈ قائم کرکے بلوچ نسل کشی میں پاکستان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جن میں راشد پٹھان اور علی حیدر قابل ذکر ہیں۔ دوسری طرف ایک اور مہرے کے طور پر بی این پی کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔ نیشنل پارٹی سرکاری سرپرستی اور فوجی گاڑیوں میں لوگوں کو جمع کرکے سرکاری پروٹوکول میں جلسے منعقد کرکے اپنی تقاریر میں صرف بلوچ قومی تحریک کے خلاف زہر اگل کر قابض ریاست کی زبان بول کر ہزاروں بلوچوں کے قتل میں اپنی شراکت داری کا ثبوت خود فراہم کر رہے ہیں۔
فقط
بلوچ کارکن
بلوچ کارکن
Leave a Reply