Laaltain

کولاج؛ ادبی ریکٹر سکیل پر نیا ارتعاش

8 دسمبر، 2016
کولاج میں پڑھے جانے والے مزید مضامین پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
حارث بلال
ریسرچ سکالر شعبہ کیمیا
لمز یونیورسٹی لاہور

 

روایت ہے کہ روایتی روایات کے محافظ اس وقت تک بھنگ پی کر سوئے رہتے ہیں جب تک کوئی “آؤٹ آف دی باکس“ نہیں سوچتا۔ روایت ہے کہ کسی مشاعرے یا ادبی کانفرنس میں انتظامیہ کے دوستوں اور قریبی بزرگوں کے علاوہ کوئی دیکھنے کو مل جائے تو یہی سمجھا جائے کہ انتظامیہ سے کوئی بھول ہوگئی ہے ۔۔۔ روایت ہے کہ اتفاق سے یا پلان بنا کر اگر کہیں چار ادیب اکٹھے ہوجائیں تو لازما وہاں کسی پانچویں کی شان سے کیڑے نکالے جاتے ہیں! اور پھر اسی حبس زدہ تاریکی میں انہی روایتوں کی کوک سے کولاج نامی صد رنگی کرن پھوٹی اور مختلف نسل کی خوشبوئیں پھیلانے میں لگ گئی ۔۔۔ جیسے کسی گری اور تھکی ہوئی فوج کے اندر سے کوئی تازہ دم سالار اٹھے اور ممکنہ فتح کے نشے میں چور دشمن پر کاری وار کر کے اسے ‘بیک فُٹ“ پر لے آئے !

 

کہنے کو ایک نومولود ادبی تنظیم اور اس کے کریڈٹ پہ (ابھی تک) صرف دو پروگرام ہیں لیکن اگر دیکھنے والوں کی نظر سے دیکھا جائے اور نیک نیتی سے کہا جائے تو کولاج کا قیام عمل میں آنا ایک ادبی سنگ میل ہے جس نے یکسر فضا بدل دی ہے جس نے نوجوان پرندوں کی ادبی پرواز سے جُوا کھیلنے والے روایت پسند ٹھیکیدار “ماشٹروں“ کو انگشتِ شہادت کے ساتھ والی انگشت کھڑی کر کے دکھا دی ۔۔۔۔ ایک قدم کہ جو ‘کیڑا‘ مار دوا ثابت ہوا ! ! ایک جھٹکا کہ جو ریکٹر سکیل پر نشان چھوڑ گیا، جس کی شدت ریکارڈ کی جاتی رہے گی۔۔۔۔ اور ہر بار سکیل کو جھنجھوڑنے سے بڑھ جائے گی !

 

یہ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں کہ کولاج کا مکہ میرا شہر سرگودھا اور مدینہ (تلہ گنگ) میرے آبائی گاؤں کے پڑوس میں ہے ۔۔ خیر باتوں سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ کولاج راولپنڈی ایکسپریس کی رفتار سے کامیابیاں سمیٹ رہی ہے تو کچھ منفرد چیزیں سامنے آتی ہیں ۔۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اس سلسلے کا آغاز صاف ستھرے ہاتھوں میں، چھوٹے شہروں سے ہوا ۔۔ اس سے جو لوگ منظر پر تھے اور جو احساسِ کمتری کا شکار تھے دونوں متوجہ ہوئے ۔۔۔ دوسرے نمبر پر کولاج کے پروگرامز کا سکرپٹ ایسا منفرد اور پر کشش تیار کیا گیا کہ مجھ جیسے بے ذوق بھی سنجیدہ ادب کی طرف مائل ہوئے کہ جنہیں ادیب کے منہ سے شعر کے علاوہ کچھ سننا گوارہ نہ ہوتا تھا ۔۔۔ تیسری اور اہم ترین خصوصیت یہ کہ گروہ بندی سے بیزاری کے صرف دعوے نہیں کیے گئے اس ناسور سے گریز بھی کیا گیا ۔۔۔ آخرش کولاج کے پروگرامز کے دوران، پہلے اور بعد میں ہونے والی غیر رسمی گفتگو بھی سنجیدہ ادب پر سننے کو ملی !

 

میں حماد نیازی، فیضان ہاشمی اور عقیل ملک تینوں کا قریبی دوست اور جونئیر ہونے کے باوجود ان مجاہدین کی ہمت اور جرات کو غیر جانبدارانہ سلام پیش کرتا ہوں کہ جن کی بدولت ہمیں ان ہستیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جنہیں ہم بڑے بڑے پروگرامز میں سننے جاتے تھے اور ان کے ساتھ ایک تصویر اور ایک مختصر سی ملاقات کے لئے کئی قسم کی حدوں سے گزر جاتے تھے! ان درویشوں کے وسیلے سے ہمیں کولاج کو جنم لیتے ہی اپنے ہاتھوں میں اٹھانے کا اعزاز حاصل ہوا اور اپنے جونئیرز کو سنانے کے لیے ایک فخریہ کہانی بھی مل گئی ۔۔ !

 

یقیناً یہ سلسلہ اب تھمنے والا نہیں ہے کولاج کی تیسری کانفرنس کی تیاریاں تقریبا مکمل ہیں بس دعا ہے کہ کولاج اسی رفتار سے دو سے تین برس گزار لے ۔۔۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پہلے پہرے میں گنائی جانے والی روایتوں کے جنازوں کے اعلان ہونا شروع ہو جائیں گے اور دلوں سے نیک نیتی کی اذانوں کی صدا بلند ہونے لگی گی انشااللہ !

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *