کن فیکون
اس نے وجدان کے کسی لمحے میں عالم برزخ کا تمام روحانی گردا فلکیاتی تمباکو میں مسلا اور کائناتی رذلے میں بھر کر ایک الہامی کش لیا ۔۔۔۔ دھواں ارض و سما کی شکل میں مجسم ہو گیا۔
ہر دفعہ کا ذکر ہے
جب اپنے محل کی کھڑکی سے اس نے آسمان کو چھونے کاخواب دیکھا تب وہ اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر دنیا فتح کرنے نکلا، وہ کبھی کسی ایک جگہ نہیں رہنا چاہتی تھی اور وہ کبھی کہیں ٹھہرنا گوارا نہیں کرتا تھا، پھر اس کے قدم زمین سے آ لگے اور وہ راستہ بھٹک گیا۔ اسے لگا وہ تمام عمر رستہ بھٹک سکتا ہے اور وہ سوچنے لگی اگر کبھی بادلوں پر پاوں دھرا جاسکے تو چند ستارے توڑے جا سکتے ہیں۔ گھوڑے کی پشت کسی بھی نازنیں کے پہلو سے زیادہ آرام دہ تھی، آسماں کی وسعت کسی بھی سورما کی چھاتی سے بڑھ کر تھی۔
اس ایک پہلے یک خلوی کی قسم جو ہماری رگوں میں رنگ، نسل، دین دھرم بن کے دوڑتا ہے میں ایک حادثہ ہوں ۔
اسے اس کا اونچا مینار دکھائی دیا تو اسے پہلی بار تھکن محسوس ہوئی اور رک جانا چلتے رہنے سے بہتر لگا۔ اس نے گھوڑے پر آتے ہوئے اسے دیکھا تو پہلی مرتبہ زمین آسمان سے زیادہ دلچسپ لگی اور آسمان تک جانے کی خواہش بیزار کرنے لگی۔ اسے اس کی آنکھوں میں دنیا ڈوبتی نظر آئی اور وہ اس کے کندھے سے لگ کر زمین سے جڑ گئی۔ انہیں ایک گھر ساری دنیا سے بڑھ کر مہم جو ، پورے آسمان سے زیادہ گھنا دکھائی دیا۔ دنیا فتح نہیں کی گئی، آسماں میں انگلیاں گیلی نہیں کی جا سکیں۔۔۔۔
جب کہ مجھ بن نہیں کوئی موجود
اس ایک پہلے یک خلوی کی قسم جو ہماری رگوں میں رنگ، نسل، دین دھرم بن کے دوڑتا ہے میں ایک حادثہ ہوں ۔