کیا کبھی آپ نے ایسے کنگلے نواب دیکھے ہیں جن کے پاس زمین کاایک ٹکرا تک نہ ہو مگر اُن کا رہن سہن کسی نواب سے کم نہ ہو؟ ایسے کنگلے نوابوں کے پاس دنیا کو دکھانے کے لیے قسطوں پر لی ہوئی مہنگی گاڑی بھی ہوتی ہے اور بڑھیاموبائل بھی۔ بچے بھی انگریزی سکولوں میں پڑھتے ہیں اور بیگمات بھی مہنگے ملبوسات زیبِ تن کرتی ہیں۔ گھر کے اکلوتے صاحبِ روزگار بھرم باز کنگلے نواب مہینے میں ایک آدھ بار دفتر میں اپنی چپٹی ناک اونچی کرنے کے لیے کچھ قمیصیں خرید لیتے ہیں جو سال میں ایک بار ملنے والے بونس سے خریدی گئی پتلونوں کے ساتھ بدل بدل کر پہنی جاتی ہیں۔
کیا کبھی آپ نے ایسے کنگلے نواب دیکھے ہیں جن کے پاس زمین کا ایک ٹکرا تک نہ ہو مگر اُن کا رہن سہن کسی نواب سے کم نہ ہو؟ ایسے کنگلے نوابوں کے پاس دنیا کو دکھانے کے لیے قسطوں پر لی ہوئی مہنگی گاڑی بھی ہوتی ہے اور بڑھیاموبائل بھی
بھرم بازی میں کنگلے نواب کا دفتریوں کے ساتھ مہینے میں ایک بار کھانے پر جانا بھی لازمی ہے اور بیگم بھی میکے میں کوئی نہ کوئی تقریب اپنے بھرم باز مجازی خدا کی اونچی شان قائم رکھنے کے لیے برپا کیے رکھتی ہے۔ بچوں کے سکول کی طرف سے بھی کبھی کلر ڈے اور کبھی فن فیئر کے لیے اضافی اخراجات کا تقاضا معمول کی بات ہے۔ ان تمام اخراجات کے علاوہ گھر کے اخراجات موسموں کے اعتبار سے بدلتے ہیں۔ گرمی کے طویل موسم کی وجہ سے سال میں کم ہی مہینے ایسے ہوتے ہیں جن میں بجلی کا بل کم آئے۔ پھر مالکِ مکان بھی فرض عین سمجھتے ہوئے ہر سال کرائے میں من مانا اضافہ کردیتا ہے اور بحث کرنے پر سُنا دیتا ہے کہ ” نہ تو آپ کو مکانات کی کمی ہے اور نہ ہی مجھے کرائے داروں کی۔”
ایسے بھرم باز کنگلے نواب گھر بنانے کے خواب بھی خوب دیکھتے ہیں۔ نواب صاحب پوش علاقوں میں تعمیر شدہ گھروں کو حسین دوشیزائیں سمجھ کر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تاڑتے ہیں۔ دل ہی دل میں ٹھان لیتے ہیں کہ میں اپنے گھر کا داخلی دروازہ فلاں بنگلے کا سابناوں گا اور بالائی منزل فلاں کوٹھی کی سی ہو گی۔
پلّے نہیں دھیلا، کردا میلا میلا ۔۔۔
ایسے بھرم باز کنگلے نواب گھر بنانے کے خواب بھی خوب دیکھتے ہیں۔ نواب صاحب پوش علاقوں میں تعمیر شدہ گھروں کو حسین دوشیزائیں سمجھ کر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تاڑتے ہیں۔ دل ہی دل میں ٹھان لیتے ہیں کہ میں اپنے گھر کا داخلی دروازہ فلاں بنگلے کا سابناوں گا اور بالائی منزل فلاں کوٹھی کی سی ہو گی۔
پلّے نہیں دھیلا، کردا میلا میلا ۔۔۔
ہر مہینے پہلی تاریخ کا انتظار نہایت بے چینی سے ہوتا ہے مگر تنخواہ آتے ہی خرچے کے پاوں اس قدر پھیلا لیے جاتے ہیں کہ تنخواہ کی چادر ہربار تنگ پڑ جاتی ہے
ہر مہینے پہلی تاریخ کا انتظار نہایت بے چینی سے ہوتا ہے مگر تنخواہ آتے ہی خرچے کے پاوں اس قدر پھیلا لیے جاتے ہیں کہ تنخواہ کی چادر ہربار تنگ پڑ جاتی ہے۔ گھر کا خرچہ بھی کم نہیں ہوسکتا اور بچوں کی فیس بھی دینی ہے۔ دفتریوں کو کھانا بھی کھلانا ہے اور سالی کی سالگرہ بھی اسی منحوس مہینے میں ہے۔ایسے میں اگر سالا دوسرے شہر سے رہنے آجائے تو بس پھر تو پوچھیں ہی مت۔
منہ میں نہیں نوالہ
اور سُسر نے بھیجا سالا
اور سُسر نے بھیجا سالا
گرمیوں میں بجلی کا بل آتے ہی یہ تہیہ کیا جاتا ہے کہ آئندہ اے سی کم سے کم استعمال کرنا ہے۔ بل کا غصہ غیر ضروری بتیاں بجھا کر نکالا جاتا ہے مگر چبھتی گرمی میں بیوی کے نوک دار طعنے، کنگلے نواب کو ایئر کنڈیشنر چلانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ جس کے بعد مہینے کے آخری ایامِ میں آنے والے بجلی کے بل کاخیال نیند حرام کردیتا ہے۔ ذرا سا موسم بہتر ہونے پر ایئر کنڈیشنر کو کم بجلی خرچ کرنے والے موڈپر تبدیل کردیا جاتا ہے۔
مہینے کا دوسرا عشرہ شروع ہوتے ہی بنک اکاونٹ کنگلا ہونے کا طعنہ دینا شروع کردیتا ہے۔ بیوی کےتقاضے، سیاپے میں بدلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ گاڑی سے آنے والی آوازیں سڑکوں کی آوازوں کا حصہ لگنے لگتی ہیں۔ جب بچوں کی فرمائشیں نیوز چینلز پر چلنے والا نیوز بلیٹن لگنے لگتی ہیں ایسے کٹھن وقت میں تنخواہ کی بنیاد پر لیا گیا کریڈٹ کارڈ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا معلوم ہوتا ہے(جو درحقیقت ڈبونے کا باعث بنتا ہے)۔یوں کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔اس دوران اکثر اوقات عیاشی بھی یہ سوچ کے کرلی جاتی ہے کہ جہاں اتنا بل دینا ہے وہیں کھانے کا بل بھی چلا جائےگا یوں کریڈٹ کارڈ کا بل بڑھتے بڑھتے بڑھتا جاتا ہے۔
مہینے کا دوسرا عشرہ شروع ہوتے ہی بنک اکاونٹ کنگلا ہونے کا طعنہ دینا شروع کردیتا ہے۔ بیوی کےتقاضے، سیاپے میں بدلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ گاڑی سے آنے والی آوازیں سڑکوں کی آوازوں کا حصہ لگنے لگتی ہیں۔ جب بچوں کی فرمائشیں نیوز چینلز پر چلنے والا نیوز بلیٹن لگنے لگتی ہیں ایسے کٹھن وقت میں تنخواہ کی بنیاد پر لیا گیا کریڈٹ کارڈ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا معلوم ہوتا ہے(جو درحقیقت ڈبونے کا باعث بنتا ہے)۔یوں کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔اس دوران اکثر اوقات عیاشی بھی یہ سوچ کے کرلی جاتی ہے کہ جہاں اتنا بل دینا ہے وہیں کھانے کا بل بھی چلا جائےگا یوں کریڈٹ کارڈ کا بل بڑھتے بڑھتے بڑھتا جاتا ہے۔
جب بچوں کی فرمائشیں نیوز چینلز پر چلنے والا نیوز بلیٹن لگنے لگتی ہیں ایسے کٹھن وقت میں تنخواہ کی بنیاد پر لیا گیا کریڈٹ کارڈ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا معلوم ہوتا ہے
کریڈٹ کارڈ سے کی گئی عیاشی اگلی تنخواہ آنے کی خوشی میں بھول چکی ہوتی ہے اور پھر کریڈٹ کارڈ کا بل بجلی بن کر گرتا ہے۔ جس کے بعد بل میں درج اخراجات کو رسیدوں سے ملا کر دیکھا جاتا ہے اور اس لاحاصل مشق کے بعد بل کی کم ترین ادائیگی مجبوراً کی جاتی ہے۔ یوں بقیہ بل سود کے تڑکے کے ساتھ اگلے ماہ تک ٹل جاتا ہے اور یہ سلسلہ ہر مہینے کے بعد اگلے مہینے پر منتقل ہوتا رہتا ہے۔
دیکھا جائے تو کنگلے نوابوں کی یہ بیماری ہماری قومی بیماری ہے کیونکہ ہماری حکومتیں بھی کچھ ایسا ہی کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں صرف بھرم بازی میں میٹرو بسیں اور عظیم الشان سڑکوں کے منصوبے بناتی ہیں مگر خزانہ خالی ہوتا ہے۔ اور یوں حکومت کنگلے نوابوں کے کریڈٹ کارڈز کی طرح منصوبوں کی تکمیل کے لیے آئی ایم ایف سے قرضے لیتی ہے جس کی ادائیگی سود سمیت اگلی حکومتیں کرنے لگ جاتی ہیں مگر پھر بھی اُدھار ختم نہیں ہوتا۔ ویسے تو کنگلے نواب اور حکومتی عہدیدار چادر دیکھ کر پاوں پھیلانے کے مشورے دیتے ہیں مگر خود اپنے پاوں چادر میں رکھنے کے لیے اُدھار مانگ کر چادر پھیلا لیتے ہیں جس کا خمیازہ دونوں کو ہی بھاری سود اور بعض اوقات دیوالیہ ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔
دیکھا جائے تو کنگلے نوابوں کی یہ بیماری ہماری قومی بیماری ہے کیونکہ ہماری حکومتیں بھی کچھ ایسا ہی کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں صرف بھرم بازی میں میٹرو بسیں اور عظیم الشان سڑکوں کے منصوبے بناتی ہیں مگر خزانہ خالی ہوتا ہے۔ اور یوں حکومت کنگلے نوابوں کے کریڈٹ کارڈز کی طرح منصوبوں کی تکمیل کے لیے آئی ایم ایف سے قرضے لیتی ہے جس کی ادائیگی سود سمیت اگلی حکومتیں کرنے لگ جاتی ہیں مگر پھر بھی اُدھار ختم نہیں ہوتا۔ ویسے تو کنگلے نواب اور حکومتی عہدیدار چادر دیکھ کر پاوں پھیلانے کے مشورے دیتے ہیں مگر خود اپنے پاوں چادر میں رکھنے کے لیے اُدھار مانگ کر چادر پھیلا لیتے ہیں جس کا خمیازہ دونوں کو ہی بھاری سود اور بعض اوقات دیوالیہ ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔