لاہور کی عدالت عالیہ نے کنٹینرز لگا کر راستے بند کرنے سے متعلق اپیل پر فیصلہ سنایا ہے کہ کنٹینرز لگانے سے بنیادی انسانی حقوق متاثر نہیں ہوتے۔ جسٹس خالد محمود خان نے قرار دیا کہ غیر قانونی اقدامات کا خدشہ ہو تو حفاظتی اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ اہلکاروں سے اسلحہ چھیننا کونسا انقلاب ہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کنٹینرز ہٹانے والوں کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں۔
خدا آپ کا، افتخار چودھری کا اور خواجہ شریف کا اقبال بلند کرے۔ آخر آپ لوگوں کو ہم نے ہی تو بحال کرایا تھا۔
عزت مآب جناب جسٹس خالد محمود کے اس فیصلے کی کوئی نقل تاحال دستیاب نہیں۔ تاہم مندرجہ بالا نکات قومی سطح کے تمام قابل اعتبار ذرائع ابلاغ میں اسی طرح شائع و نشر کیے گیے ہیں سو ان کی صحت پر کوئی بڑا سوال ممکنات میں سے نہیں۔
اس فیصلے نے سابق چیف جسٹس پاکستان جناب افتخار چودھری اور سابق چیف جسٹس جناب خواجہ شریف کے فیصلوں کی یاد دلا دی ہے۔ راقم الحروف قانون دان تو نہیں لیکن ایسے پیشے سے وابستہ ہے کہ آئین کی کتاب سے اکثر پالا پڑتا رہتا ہے اور اس آئین کے بنیادی حقوق سے متعلق باب دوم سے بھی قریبی شناسائی ہے۔ اس اختتام ہفتہ پر، جب لاہور میں سیاسی درجہ حرارت عین عروج پر تھا، راقم کو وفاقی دارالحکومت سے وسطی پنجاب کے ضلع پاکپتن اور وہاں سے واپس اسلام آباد تک سفر کرنے کا موقع ملا۔ اس سفر میں انہی کنٹینرز، راستوں اور پٹرول کی بندش کا بھی سامنا کرنا پڑا جن پر محترم عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کس آئینی مصلحت کو بنیاد بنا کر عدالت عالیہ نے یہ فیصلہ صادر فرمایا ہے۔ لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ آئین کے باب دوم میں دئیے تئیس میں سے کم از کم نو بنیادی انسانی حقوق، جو مجھے پاکستان کا شہری ہونے کی حیثیت میں حاصل ہیں، وہ ان کنٹینروں کی وجہ سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ ہمارے قابل احترام منصفین کے پاس لازماً اس فیصلے کا کوئی قانونی جواز موجود ہو گا جو مجھ فاترالعقل کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ میں ایک ایک کر کے ان بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر اپنا موقف پیش کرتا ہوں۔
مجھے نہیں معلوم کہ کس آئینی مصلحت کو بنیاد بنا کر عدالت عالیہ نے یہ فیصلہ صادر فرمایا ہے۔ لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ آئین کے باب دوم میں دئیے تئیس میں سے کم از کم نو بنیادی انسانی حقوق، جو مجھے پاکستان کا شہری ہونے کی حیثیت میں حاصل ہیں، وہ ان کنٹینروں کی وجہ سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
پہلا بنیادی حق جس کی ضمانت آئین پاکستان اپنے شہریوں کو دیتا ہے وہ انسانی جان کی حفاظت اور آزادی سے متعلق ہے۔ محترم جناب جسٹس صاحب، آج کے اخبار میں لکھا ہے کہ راستے بند ہونے سے دو مریض چل بسے۔ اس کے علاوہ بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو چلتے چلتے رہ گئے ہوں گے۔ اپنے حالیہ سفر کے دوران کامونکی کے قریب راستے کی بندش کے باعث ایک ایمبولینس کو نامراد واپس لوٹتے تو میری آنکھوں نے بھی دیکھا ہے۔ پھر لبرٹی کا تو ذکر ہی کیا۔ سینکڑوں افراد جو وفاقی و صوبائی دارالحکومت میں محصور کردیے گیے جن کی سواریوں کو راستے سے واپس لوٹا دیا گیا۔ انسانی تحفظ کا یہ بنیادی حق آپ نے کیوں نظر انداز کردیا، اس پر مجھے اور دیگر متاثرین کو آپ سے جواب مانگنے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟
جناب والا، پھر اسی باب میں نیچے کہیں نقل و حرکت کی آزادی کا ایک حق الگ سے دیا گیا ہے جس میں ہمارے قانون سازوں نے لکھا ہے کہ ہر پاکستانی ملک عزیز کے کسی بھی کونے کھدرے میں جاسکتا ہے وہاں رہ سکتا ہے اور وہاں مٹر گشت کرسکتا ہے۔ اس حق میں ایک قدغن لگائی گئی ہے کہ عوامی مفاد میں کچھ جگہوں پر یہ حق معطل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ معطلی بھی کسی قانون کے تحت ہی کی جاسکتی ہے کسی فرمان شاہی پر شہریوں کی نقل و حرکت کو پابند نہیں کیا جاسکتا۔ جناب میرا گمان یہ ہے کہ عوامی مقامات بشمول کوئی سڑک بالخصوص اگر وہ آپ کے گھر کو جاتی ہو وہ اس پابندی کے ذیل میں نہیں آتی۔ محترم جسٹس صاحب لیکن مجھے میرے گھر جانے والے راستے پر سفر کی اجازت نہیں دی گئی۔ مجھے اپنے گھر جانے کے لیے آٹھ گھنٹوں کے سفر کو سولہ گھنٹے میں طے کرنا پڑا۔ کیا یہ میرے بنیادی حق کی خلاف ورزی نہیں؟
اس کے بعد آئین پاکستان کہتا ہے کہ شہریوں کو اکٹھا ہونے کی آزادی حاصل ہے۔ میں تو جناب والا غیر سماجی قسم کا بندہ ہوں اکٹھ کو کم ہی پسند کرتا ہوں۔ لیکن آپ کی عدالت کی حدود میں بسنے والے کروڑوں دیگر شہریوں کا یہ حق بھی حکمرانوں نے سلب کرلیا اور آپ کو احساس تک نہ ہوا۔ حضرت والا تبار سیاسی وابستگی کا حق بھی ہمیں آئین دیتا ہے۔ مگر اس سیاسی وابستگی کی بنیاد پر سینکڑوں گرفتاریاں ہو چکیں مزید سینکڑوں ہو رہی ہیں مگر آپ چپ ہیں۔ چلیے ان حقوق کا براہ راست کنٹینروں سے کوئی تعلق نہیں اور ازخود نوٹس لینے کو اور بہت سے مسائل پڑے ہیں۔
مگر شہریوں کا ایک اور حق بھی ان کنٹینروں کی وجہ سے بری طرح مجروح ہوا ہے۔ تجارت، کاروبار اور ملازمت کی آزادی سے موسوم اس حق کو آپ کس کھاتے میں ڈالیں گے جب اشیائے خوردونوش، صنعتی خام مال اور زرعی اجناس سے لدے ٹرک پنجاب کے قریباً سبھی شہروں میں قطار اندر قطار منتظر کھڑے ہیں کہ کب انہیں روانگی کی اجازت ملے۔ پھر وہ کنٹینرز اس کے سوا ہیں جو سرکار نے ضبط کر کے راستوں کی بندش کے لیے استعمال کر رکھے ہیں۔ اس سارے عمل میں جانے کتنے کا مال ضائع ہوگا اور کتنے کا بچ رہے گا۔ کس کا کاروبار ٹھپ ہوگا اور کس کسان پر کتنا قرضہ چڑھ جائے گا۔ لیکن اس کا ریکارڈ رکھنا تو آپ کی ذمہ داری ہے نہیں۔ آپ کا کام تو فیصلہ سنانا ہے۔
شاید آپ جب اپنے ریڈر کو فیصلہ رقم کرا رہے تھے تو بنیادی حقوق سے آپ کی مراد معلومات کی فراہمی تھی کہ یہ حق کنٹینروں سے براہ راست متاثر نہیں ہوتا اور ٹیلیویژن کی لہریں کنٹینروں کو با آسانی پھلانگ جاتی ہیں۔ کچھ علاقوں میں اگر اخبار نہ بھی پہنچا ہو تو خیر ہے کہ ٹی وی اب خاصا عام ہے سو اس بنیادی انسانی حق کی خلاف ورزی تو ان کنٹینروں سے قطعاً نہیں ہوتی۔
اس کے بعد دو حقوق جو نو میں سے بچ رہتے ہیں۔ وہ شہریوں کی برابری اور عوامی مقامات تک رسائی کے حقوق ہیں۔ یہ حقوق تو شاید اہم نہیں رہے۔ کہ گذشتہ دو دن کیا یہ اول روز سے ہی کم کم لوگوں کو حاصل رہے ہیں۔ انگریزی کہاوت ہے کہ Some people are more equal than othersسو اس کی ذمہ داری آپ کنٹینروں پر ڈال کر بیچار ےکنٹینروں سے ناانصافی نہیں برتنا چاہتے تھے۔
ظلم پر چپ بیٹھنے والا ظالم کا ساتھی ہے۔ خدانخواستہ میں آپ پر ظلم کی تہمت قطعاً نہیں لگا رہا۔ بس استاد کا سبق دہرارہا ہوں۔
حضور لگے ہاتھوں ایک اور بھی عرض کرتا چلوں۔ اس کا بھی بنیادی حقوق سے اتنا ہی لینا دینا ہے جتنا کہ کنٹینرز کا۔ یعنی نہ ہونے کے برابر۔ کل ہی پنجاب کی بہادر سپاہ نے چند فسادیوں کے خلاف انسداد دہشتگردی کے اقدامات کے تحت پرچہ درج کرلیا ہے۔ بہت اچھا اور قابل تحسین اقدام ہے۔ بس اتنا سا پوچھنا تھا کہ انسداد دہشتگردی و تحفظ پاکستان کا نفاذ دہشتگردوں پر بھی ہوتا ہے یا ایسے قوانین صرف سیاسی مخالفین کے لیے ہی ہیں؟ اصل میں اب کیا بتاؤں شرم آتی ہے کہ میں بھی اس قانون کے تحت ایک مقدمہ بھگتا چکا ہوں۔ کوئی چار پانچ سال پہلے کی بات ہے۔ تب بہت دہشتگردی ہوا کرتی تھی۔ لیکن لاہور کی انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں صرف ایک دہشتگرد کا مقدمہ تھا باقی کوئی لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کرنے والےفسادی تھے یا کوئی فوجی آپریشن کے خلاف نعرے مارنے پر دھر لیے گئےتھے۔ بس یہ ذرا سی کنفیوژن تھی سوچا پوچھ لوں۔آپ برا مانتے ہیں تو بھلے جواب نہ دیں۔
جسٹس صاحب، اگر میری کسی بات سے آپ کے یا عدالت کے وقار پر حرف آتا ہو تو میری جانب سے قبل از توہین عدالت نوٹس غیر مشروط معافی قبول فرمائیے۔ اصل میں ایک دو استادوں نے چند اصول سمجھا کر دماغ خراب کردیا ہے۔ ایک تو آپ کی وکلا برادری سے ہی ہے ،کہتا تھا کہ مقننہ اور عدالت کو قانون سازی اور فیصلہ بناتے وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اس کا نفاذ چاند یا مریخ پر بھی کرنا پڑے تو کوئی معصوم اس کی زد میں نہ آئے۔ ایک اور استادنے سکھایا تھا کہ ظلم پر چپ بیٹھنے والا ظالم کا ساتھی ہے۔ خدانخواستہ میں آپ پر ظلم کی تہمت قطعاً نہیں لگا رہا۔ بس استاد کا سبق دہرا رہا ہوں۔
خدا آپ کا، افتخار چودھری کا اور خواجہ شریف کا اقبال بلند کرے۔ آخر آپ لوگوں کو ہم نے ہی تو بحال کرایا تھا۔ لو پھر زبان پھسل گئی۔ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔ ہماری کیا اوقات یہ تو میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی مہربانی تھی۔

Leave a Reply