عثمان شاہد

سندھ ساگر نے اپنے کنارے کیا کچھ نہیں دیکھا؟سندھ وادی بستی رہی اجڑتی رہی، ناک نقشے بدلتے رہے، راجہ پرجا ریتی رواج، دھرم کرم کی موجوں پر صدیا ں بہتے بہتے سمندر کی تہہ میں جا چھپی ہیں۔ سندھ کنارے بستیوں میں اب دریا کے پانیوں سے زیادہ اس ذہنی خشک سالی کا خوف ہے جس کی ویرانی میں شدت پسندی کا تھور محبتوں کی کھیتیوں کو بنجر کر گیا ہے۔ سینتالیس کے بعد کی جس نسل کو سرحد پار کر جانے والے اپنے ساتھ اپنی گٹھڑیوں میں شاید رواداری اور برداشت بھی واہگہ اور کھوکھرا پار کی دوسری طرف لے گئے۔
اب تو سندھ کی وادی پر مشتمل پاک سر زمین کا ہربچہ ہندوستان کے بٹوارے کی کہانیاں سنتے ،سنتے بازیچہ اطفال سے شعور کے آنگن میں داخل ہوتا ہے تو عقیدے کی بنیاد پر پاکیزگی سکھاتے نصاب کی تعلیم پانے والے ذہن تو یہ سوال بھی نہیں اٹھا تے کہ کیا مختلف نام، عقیدے، رنگ اور نسل کے ساتھ بھی انسان ساتھ رہ سکتے ہیں۔ کیاا اللہ دتہ کا کوئی دوست رام لعل یا ہری سنگھ بھی تھا جس کے ساتھ وہ سکول جایا کرتے تھے اور واپسی پر آم کے پیڑ تلے کھیلتے تھے۔ عیدمنانے والے دیوالی بھی جوش و خروش سے مناتے تھے۔ نفرتیں ناپید تھیں کہ محبتوں سے ہی فرصت نہ ملتی۔ امرتسر سے لاہور سائیکل پر بھی آیا جا سکتا تھا۔ مادھو لال حسین کے میلے میں مسلم، ہندو، سکھ دھمالیں ڈالتے ، نذر نیاز کرتے اور مراد پاتے تھے۔
مگر۔۔۔(اس مگرمیں بھی قصے اور مرثےے پنہاں ہیں) مگر اب شناختی کارڈ دیکھ کر زندگی اور موت کے فیصلے سڑکوں پر ہونے لگے ہیں۔ لیکن کندھ کوٹ نے سندھ کے کناروں کا بھرم رکھا ہے۔ یہاں گزرے وقت کی وہ پرچھائیاں ابھی بھی غور سے دیکھنے پر نظر آجاتی ہیں جن میں ہندو مسلم پانی الگ نہیں تھا۔ یہاںوہ ماضی سانس لیتا ہے جہاں غیر مسلم ہی نہیں بلکہ شیعہ ، سنی، پنجابی، بلوچ یا سندھی ہونابھی کوئی جرم نہیں۔ جہاں دیوالی کی رات کسی کا گھر نہیں بلکہ پھلجھڑیاں جلتی ہیں، پھیرے لینے والیوں کو پر دعا کرنے والے ہاتھوں کی شفقت رخصت کرتی ہے تبرک اور پرشاد میلاد اور دیوالی سب سانجھا ہے۔حیرت ہے کہ یہاں پر کوئی کسی کو کافر نہیں کہتا۔ کندھ کوٹ بازار میں تجارت کاروبار ، روپے پیسے، دھن دولت کے گھن چکر میں موہ مایا کا جال تو پھیلا ہے پر چاندنی چوک کے بلراج سوےٹس کی مٹھاس، مائی چوائس بیکری والوں کی خوش اخلاقی میں ہندومسلم تفریق کی کوئی کڑواہٹ نہیں گھلتی۔ہندو مالک ہو یا مسلم ملازم سب کی روزی ایک دوسرے سے بندھی ہے۔ صرافہ بازار کے ہوٹلوں پر فلم اور چائے کی ضیافت ہو یا کہن سالہ برساتی کے آس پاس کی بھیڑ کہیں کوئی اچھوت نہیں لگتا۔
کندھ کوٹ ،ضلع کشمور کا ہیڈکوارٹر ہے۔ یہ دارلحکومت اسلام آباد سے قریباََ 1200کلومیٹر جنوب اور بالائی سندھ میں واقع ہے۔ ضلع کشمور کی نا صرف سندھ بلکہ پاکستان کےلئے بھی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ یہ مشرق سے پنجاب کے شہر راجن پور، شمال سے بلوچستان کی ڈسٹرکٹ سبی اور جنوب سے دریائے سندھ اور ڈسٹرکٹ گھوٹکی سے منسلک ہے۔ اسی وجہ سے یہاں کاروباری سرگرمیاں عروج پر ہیں۔گورنمنٹ ڈگری کالج کندھ کوٹ میں معاشیات کے پروفیسر عبدالرحمان ملک کے مطابق شہر میں موجود غلہ منڈی ایشیاءکی دوسری بڑی منڈی ہے جہاں سے پورے پاکستان خصوصاََ بلوچستان ، سندھ اور جنوبی پنجاب میں گندم اور چاول سمیت دیگر اجناس مہیا کی جاتی ہیں۔
کندھ کوٹ کے اڑھائی لاکھ نفوس میں سے ایک چوتھائی ہندوہیں۔ زیادہ تر لوگ زراعت، چند افراد سرکاری ملازمت جبکہ ہندو اکثریت کاروبار کرتی ہے۔ ہندو کاروبار میں بہتر اور قدرے متمول ہیں۔ مذہب و ذات اور لسانی امتیاز سے بالاتر، کندھ کوٹ کے تمام رہائشی سندھی زبان بولتے اور اجرک و سندھی ٹوپی پہننا پسند کرتے ہیں۔ بلوچ بھی مناسب تعداد میں موجود ہیں لہٰذا شہر کی دوسری بڑی زبان بلوچی ہے۔ کشمور ، سندھ کے ان تین اضلاع میں سے ایک ہے جن کی اپنی گیس فیلڈ اور تھرمل پاور سٹیشن ہے۔ یہاں گڈو تھرمل پاور سٹیشن بجلی کی پیداوار کے حساب سے پاکستان کا دوسرا بڑا یونٹ ہے جہاں سے حیدر آباد اور کراچی تک بجلی مہیا کی جاتی ہے۔
سینتالیس کے فسادات میں جو ہندو سرحد پار جانے کی بجائے یہاںرہ گئے ان پر پینسٹھ اور اکہتر کی جنگوں کا جنون خوف بن کر لہرایا، ہنوستان کے مسلمانوں کی حالت کا انتقام لینے والے بھی کچھ تھے پر ابھی فضا یہاںکی ساز گار ہے۔دیوان لعل جیسے بزرگ ہندووں کی بات ابھی بھی سنی جاتی ہے سمجھتے ہیں کہ یہ اس لئے ہے کیوں کہ یہاں کی آبادی نے مسلم خون مسلمانوں کے ہاتھوں بہتے دیکھا ہے ۔ اشوک سنگھ کا خاندان تقسیم کے بعدسے حلوہ پوڑی کی ریڑھی لگاتا ہے ، پنجہ صاحب ، ننکانہ صاحب، گولڈن ٹیمپل اور رنجیت سنگھ کی مڑی کی زیارت کے بعد بھی من لگانے کو یہیں ٹکا ہوا ہے۔
صرافہ بازار کے حکیم امان اللہ بھٹہ ڈاکٹر ستیہ پال امام مسجد مرتضیٰ ملک کو سندھی زبان اور قوم پرستی کے اس اٹوٹ بندھن نے باندھ رکھا ہے جس صدیوں پرانا ہے ، جس نے عقیدے اور مذہب اپنا کر اپنی دھرتی اور سنگت سے انحراف نہیں کیا۔ شہر میں کھلی دکانوں میں کون کس عقیدے کے ساتھ آتا ہے اس سوال کو پالن ہار پر چھوڑ سب زندگی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ابھی یہاں مقدس متن کی وہ تشریحات نہیں پہنچیں جو لوگوں کے لوگوں سے الگ کر تی نیکیوں کی تلقین نہیں کرتیں۔ مسجد ، مندر اور گردوارہ میں خدا کو تقسیم کرنے کی ضرورت ابھی پیش نہیں آئی۔

2 Responses

  1. masood ahmad

    یار آپ نے تو اچھ ی نیت سے یہ کالم لکھا ہے۔۔۔ لیکن جیسے ہی کسی مولوی کی نظر سے گزرا اس امن او سکون کو نظر لگ جاۓ گی اور کوئ نہ کوئ مولوی ہانڈی روٹی کے چکر میں وہاں پہنچ جاۓ گا

    جواب دیں
  2. masood ahmad

    یار آپ نے تو اچھی نیت سے یہ کالم لکھا ہے۔۔۔ لیکن جیسے ہی کسی مولوی کی نظر سے گزرا اس امن او سکون کو نظر لگ جاۓ گی اور کوئ نہ کوئ مولوی ہانڈی روٹی کے چکر میں وہاں پہنچ جاۓ گا

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: