ایک ایسا معاشرہ جہاں آدھی آبادی پڑھی لِکھی نہ ہو، چالیس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہو، جہاں نوجوانوں میں سیاسی و سماجی شعور نہ ہو، جہاں عورتوں کو جائیداد میں حصہ دینے کی بجائے جائیداد سمجھا جاتا ہو، وہاں کم عمری میں بچوں خاص طور پر لڑکیوں کی شادیاں کر دینا کوئی عجب بات نہیں ہے۔ کم عمری میں بچوں کو شادی جیسے بندھن میں باندھنا جِسے نبھانے کے لیے ذہنی بالیدگی، فریقین کی ذہنی و جذباتی ہم آہنگی ضروری ہے سمجھ سے بالاتر ہے۔ کم عمری کی شادی محض دو افراد یا خاندانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ آنے والی نسلیں بھی اس سے شدید متاثر ہوتی ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ نابالغ بچے جو اپنے لیے ووٹ نہیں ڈال سکتے، ڈرائیونگ لائسنس نہیں بنوا سکتے اور سگریٹ نہیں خرید سکتے ان کی شادی کیسے کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ہمارے معاشرے میں کم سنی کی شادی کا مسئلہ موجود ہے اور روزمرہ معمول کا حصہ ہے۔ اس کے اسباب سماجی بھی ہیں اور مذہبی بھی، المیہ یہ ہے کہ اس حوالے سے موجود قوانین کے نفاذ میں کوئی سنجیدہ نہیں۔
سماجی اسباب
سماجی اسباب
پنجاب کے بعض علاقوں میں یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ زیادہ تعلیم یافتہ لڑکیاں اچھی اور فرمانبردار بیویاں نہیں بن سکتیں اِس لیے اِبتدائی تعلیم کے بعد کم عمری میں ہی لڑکیوں کی شادیاں کردی جاتی ہیں۔
روایات، اقدار اور رسوم ایسے تصورات کا مجموعہ ہیں جو سماجی نظام چلانے کے لیے قانون کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کئی ایسی فرسودہ روایات موجود ہیں جو بچوں کی کم عمری میں شادی کا باعث بنتی ہیں؛ مثلاً بیٹی کو ذمہ داری یا بوجھ سمجھنا، عزت کو عورت کی جنسی زندگی سے جوڑے جانا وغیرہ۔ شادی بیاہ کے معاملات ہمارے ہاں دوافراد کی جذباتی وابستگی کی بجائے سماجی، سیاسی اور معاشی محرکات کے تحت نپٹائے جاتے ہیں۔ تنازعات کے حل یا تعلقات کی مضبوطی کے لیے بھی شادی بیاہ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں جب عمائدین کِسی قتل کا فیصلہ کرتے ہیں تو مقتول کے ورثاء کا یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ ہمیں قاتِل سے خون بہا میں اِتنی زمین اور اِتنی لڑکیاں چا ہیئے ہیں جِسے عام طور پر بانہہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اِس طرح کے فیصلوں کا شکار بننے والی زیادہ تر لڑکیاں کم عمر ہوتی ہیں اور انہیں فیصلے کے کچھ ہی دِن بعد مقتول کے لواحِقین بانہہ کے طور پر اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ انہیں پھر مختلف طریقوں سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے یہاں تک کے وہ ذ ہنی اور نفسیاتی مریض بن جاتی ہیں۔ صوبہ سندھ اور پنجاب میں وٹہ سٹہ کا روایتی نظام بھی اِیسا ہی ہے۔ ونی، سوارا اور وٹے سٹےجیسی رسموں کا شکار بھی زیادہ تر کم عمر لڑکیاں ہی ہوتی ہیں۔ وٹہ سٹہ دو خاندانوں کے درمیان مبادلے (چیز کے بدلے چیز) جیسا ہی ایک معاہدہ ہے جِس میں ایک خاندان کی لرکی کے بدلے دوسرا خاندان بھی لڑکی دینے کا پابند ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ پنجاب کے بعض علاقوں میں یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ زیادہ تعلیم یافتہ لڑکیاں اچھی اور فرمانبردار بیویاں نہیں بن سکتیں اِس لیے اِبتدائی تعلیم کے بعد کم عمری میں ہی لڑکیوں کی شادیاں کردی جاتی ہیں۔ عورت کو اس کی عمر اور شکل و صورت کی بنیاد پر اہمیت دینے کی وجہ سے بھی جلد شادی کی جاتی ہے کیوں کہ لڑکی جتنی کم عمر اور جتنی خوش شکل ہو گی اس کے لیے اتنے ہی زیادہ موزوں رشتے دستیاب ہوں گے۔
یہ سمجھے بغیر کے مذاہب نے مخصوص سماجی حالات میں کم عمری کی شادی کا جواز پیش کیا تھا جو آج قابل اطلاق نہیں، بہت سے افراد آج بھی کم عمری کی شادی کو مذہبی بنیادوں پر درست بلکہ لازمی سمجھتے ہیں۔
معاشی اسباب:
کسی بھی خاندان کی روزمرہ زندگی مناسب طریقے سے چلانے کے لیے مضبوط معیشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لڑکیوں کی شادیاں اِس وجہ سے بھی کم عمری میں کردی جاتی ہیں کہ چونکہ لڑکی شادی کے بعد اپنے سسرال چلی جائے گی سو کم از کم گھر میں ایک فرد تو کم ہو جائے گا۔ اِس طرح اس کی تعلیم، خوراک، کپڑے جیسی بنیادی ضروریات پورا کرنے میں جو روپیہ لگنا ہو تا ہے وہ بھی بچ جائے گا۔ کچھ غریب گھرانے اِس وجہ سے کم عمری میں لڑکیوں کی شادیاں معاشی لحاظ سے اپنے سے بہتر گھرانے میں کرتے ہیں کہ وہ وہاں جا کے اچھی معاشی زندگی گزا ر پائیں گی۔ ملازمت پیشہ اور تعلیم یافتہ خواتین سے متعلق مشہور مفروضوں کی وجہ سے اکثر لڑکیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے اور ان کے لیے کسی پیشے سے وابستگی معیوب سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکیوں کے لیے واحد کامیابی جلدازجلد شادی اور سسرال میں نیک نامی ہی سمجھی جاتی ہے۔
کسی بھی خاندان کی روزمرہ زندگی مناسب طریقے سے چلانے کے لیے مضبوط معیشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لڑکیوں کی شادیاں اِس وجہ سے بھی کم عمری میں کردی جاتی ہیں کہ چونکہ لڑکی شادی کے بعد اپنے سسرال چلی جائے گی سو کم از کم گھر میں ایک فرد تو کم ہو جائے گا۔ اِس طرح اس کی تعلیم، خوراک، کپڑے جیسی بنیادی ضروریات پورا کرنے میں جو روپیہ لگنا ہو تا ہے وہ بھی بچ جائے گا۔ کچھ غریب گھرانے اِس وجہ سے کم عمری میں لڑکیوں کی شادیاں معاشی لحاظ سے اپنے سے بہتر گھرانے میں کرتے ہیں کہ وہ وہاں جا کے اچھی معاشی زندگی گزا ر پائیں گی۔ ملازمت پیشہ اور تعلیم یافتہ خواتین سے متعلق مشہور مفروضوں کی وجہ سے اکثر لڑکیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے اور ان کے لیے کسی پیشے سے وابستگی معیوب سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکیوں کے لیے واحد کامیابی جلدازجلد شادی اور سسرال میں نیک نامی ہی سمجھی جاتی ہے۔
مذہبی اسباب:
دنیا کے بیشتر مذاہب کم سنی کی شادی کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ سمجھے بغیر کے مذاہب نے مخصوص سماجی حالات میں کم عمری کی شادی کا جواز پیش کیا تھا جو آج قابل اطلاق نہیں، بہت سے افراد آج بھی کم عمری کی شادی کو مذہبی بنیادوں پر درست بلکہ لازمی سمجھتے ہیں۔ اسلام میں بھی حضرت عاشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی سے متعلق پائے جانے والای روایات کی بناء پر علماء کم سنی کی شادی کو حلال سمجھتے ہیں۔
دنیا کے بیشتر مذاہب کم سنی کی شادی کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ سمجھے بغیر کے مذاہب نے مخصوص سماجی حالات میں کم عمری کی شادی کا جواز پیش کیا تھا جو آج قابل اطلاق نہیں، بہت سے افراد آج بھی کم عمری کی شادی کو مذہبی بنیادوں پر درست بلکہ لازمی سمجھتے ہیں۔ اسلام میں بھی حضرت عاشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی سے متعلق پائے جانے والای روایات کی بناء پر علماء کم سنی کی شادی کو حلال سمجھتے ہیں۔
اثرات:
کم عمر میں بیاہی جانے والی اکثر لڑکیاں اپنا بچپن پوری طرح سے نہیں گزار پاتیں جو بہت سی نفسیاتی اور جذباتی الجھنوں کا باعث بنتا ہے۔ شادی کے بعد فوراً ماں بننے کا دباو بھی کم عمر لڑکیوں میں زچگی کے دوران زیادہ اموات کی وجہ ہے۔ کم عمر لڑکیوں کے حمل کے دوران مرنے کے خدشات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک ایسی لڑکی کے لیے جسے جسمانی نشوونما مکمل ہونے سے پہلے ماں بننے پر مجبور کیا جاتا ہے کے لیے حمل کا جسمانی اور نفسیاتی دباو برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے۔
کم عمر میں بیاہی جانے والی اکثر لڑکیاں اپنا بچپن پوری طرح سے نہیں گزار پاتیں جو بہت سی نفسیاتی اور جذباتی الجھنوں کا باعث بنتا ہے۔ شادی کے بعد فوراً ماں بننے کا دباو بھی کم عمر لڑکیوں میں زچگی کے دوران زیادہ اموات کی وجہ ہے۔ کم عمر لڑکیوں کے حمل کے دوران مرنے کے خدشات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک ایسی لڑکی کے لیے جسے جسمانی نشوونما مکمل ہونے سے پہلے ماں بننے پر مجبور کیا جاتا ہے کے لیے حمل کا جسمانی اور نفسیاتی دباو برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے۔
تدارک:
اِس سماجی مسئلےکا حل تعلیم سے ممکن ہے۔ معاشرے میں عورت سے متعلق پائے جانے والے عام تصورات تبدیل کیے بغیر اس مسئلے کو حل کرنا ممکن نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے۔ شہروں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں بھی زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے کھولے جائیں۔ کیونکہ بیشتر لوگ اپنی بیٹیوں کو گھر سے دور تعلیم کے سلسلے میں بھیجنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ کم عمری کی شادی کے تدارک کے لیے شادی کے لیے کم سے کم حد سے متعلق قوانین کا نفاذ یقینی بنایا جائے۔ خصوصاً نکاح خواں حضرات کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ لڑکے اور لڑکی کے شناختی کارڈ یا پیدائش کی معلومات کی تصدیق کیے بغیر نکاح نہ پڑھائیں۔ مذہبی تشریحات میں اصلاحات بھی ضروری ہیں تاکہ لوگوں کو کم عمری میں شادی کو مذہبی فرضہ سمجھنے کے مغالطے سے نکالا جا سکے۔
اِس سماجی مسئلےکا حل تعلیم سے ممکن ہے۔ معاشرے میں عورت سے متعلق پائے جانے والے عام تصورات تبدیل کیے بغیر اس مسئلے کو حل کرنا ممکن نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے۔ شہروں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں بھی زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے کھولے جائیں۔ کیونکہ بیشتر لوگ اپنی بیٹیوں کو گھر سے دور تعلیم کے سلسلے میں بھیجنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ کم عمری کی شادی کے تدارک کے لیے شادی کے لیے کم سے کم حد سے متعلق قوانین کا نفاذ یقینی بنایا جائے۔ خصوصاً نکاح خواں حضرات کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ لڑکے اور لڑکی کے شناختی کارڈ یا پیدائش کی معلومات کی تصدیق کیے بغیر نکاح نہ پڑھائیں۔ مذہبی تشریحات میں اصلاحات بھی ضروری ہیں تاکہ لوگوں کو کم عمری میں شادی کو مذہبی فرضہ سمجھنے کے مغالطے سے نکالا جا سکے۔
Leave a Reply