ہم نے سنا ہے کہ یہ "منٹو” بڑا کمبخت تھا، جو ذہن میں آتا وہی لکھ ڈالتا، نہ نام نہاد معاشرتی اقدار کی پرواہ کرتا، نہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کی عزت کا پاس رکھتا۔ اسے "اوپر نیچے اور درمیان” جو بھی نظر آتا وہی افسانوی سانچے میں ڈال کر لوگوں کے سامنے رکھ دیتا تاکہ وہ یہ سمجھا سکے کہ واقعی معاشرتی برائیوں کو کپڑے پہنانا منٹو یا کسی بھی لکھاری کا نہیں بلکہ ان درزیوں کا کام ہے جنہیں "کالی شلواریں” سینی نہیں آتیں۔ وہ ایک کم بخت تھا اور اس کے چاہنے والے بھی کمبخت تھے اور ہیں۔ "منٹو” پڑھنا یا دیکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور ایک وسیع النظر انسان ہی اتنے بے باک لکھاری کو پڑھ سکتا ہے اور اس فلم کو دیکھ کر منٹو سے سلام دعا کرنے کا حوصلہ کر سکتا ہے۔
گزشتہ دنوں راولپنڈی میں فلم "منٹو” دیکھنے کا اتفاق ہوا، فلم توقع سے زیادہ عمدہ نکلی اور فلم کے اختتام پر داد دئیے بغیر نہ رہ سکا۔ اس کم بخت منٹو کی زندگی اور افسانوں پر بننے والی فلم کے کردار جو بھی تھے، جس طرح بھی انہیں فلمایا گیا اور جس جس نے بھی یہ کردار نبھائے اس سب سے قطع نظر ایک بات طے ہے کہ اس فلم کو دیکھنا عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ معاشرتی برائیوں اور انسانی نفسیات کا اتنا باریک بین اور حقیقت پسند بیان پست ذہنوں کو فحش ہی لگے گا۔ منٹو پڑھتے اور فلم منٹو دیکھتے ہوئے آپ یوں محسوس کرتے ہیں جیسے اس دنیا میں صرف منٹو کے کردار ہی زندہ ہیں، باقی سب بت ہیں، مجسمے ہیں اور واہمے ہیں۔
زمین پر موجود تمام مخلوق اگر”اوپر نیچے اور درمیان” دیکھے تو پتہ چلتا ہے کہ برائیاں یہی لوگ پھیلاتے ہیں اور پھر خود ہی اس کی ترویج کے لیے راستے بھی بناتے ہیں لیکن ایسے میں اگر کوئی منٹو کہتا ہے کہ "کھول دو” تو مجمعے میں بیٹھا ہر شخص کہتا ہے کہ بڑا کمبخت ہے یہ منٹو ۔
فلم ختم ہوئی اور ارد گرد دیکھا تو ایک اور فلم دیکھنے کو ملی جو تاحال چل رہی ہے، جس میں ایک بڑے سے پاگل خانے کے سیٹ پرہزاروں لاکھوں ٹوبہ ٹیک سنگھ سرحدیں عبور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بیسیوں سوگندیاں ٹھکرائی جا رہی ہیں اور کئی ازار بند کھلے ہوئے ہیں، کلونت کوریں چھریاں پکڑے اپنے ہی گلے کاٹ رہی ہیں، تانگوں میں گھوڑوں کی جگہ عورتیں جتی ہیں
یہاں پر ہر اس شخص کے ہاتھ سب کچھ کرنے کا "لائسنس” ہے جس کی لاٹھی مضبوط ہو اور وہ ٹیٹوال کے کتے ہانکنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ایسے میں ایک جوان عورت کیا کرے؟ اسی لیے تو اس کم بخت نے کہا تھا کہ "ہمارے معاشرے میں عورت کو کوٹھا چلانے کی اجازت ہے لیکن تانگہ چلانے کی اجازت نہیں”۔ اس سکینہ کی طرح جو "سکینہ” جس کا تانگہ چلانے کا "لائسنس” صرف اس لیے ضبط کیا گیا کہ وہ ایک عورت ہے اور پھر اسے جسم فروشی کا "لائسنس” بھی محض اس لیے مل گیا کیوں کہ وہ عورت ہے اور خوبصورت عورت ہے۔ اس معاشرے نے اسی سکینہ کو ایک نئے لائسنس کے ساتھ قبول کر لیا جو محنت مزدوری کرکے اپنا اور خاندان کا پیٹ بھرنا چاہتی تھی۔
فلم ختم ہوئی اور ارد گرد دیکھا تو ایک اور فلم دیکھنے کو ملی جو تاحال چل رہی ہے، جس میں ایک بڑے سے پاگل خانے کے سیٹ پرہزاروں لاکھوں ٹوبہ ٹیک سنگھ سرحدیں عبور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بیسیوں سوگندیاں ٹھکرائی جا رہی ہیں اور کئی ازار بند کھلے ہوئے ہیں، کلونت کوریں چھریاں پکڑے اپنے ہی گلے کاٹ رہی ہیں، تانگوں میں گھوڑوں کی جگہ عورتیں جتی ہیں اور ہر جگہ بارود اور خون کی بو میں بسے انکل سام اپنے اپنے ملاوں کی انگلیاں پکڑے ٹہل رہے ہیں، اور ایک، صرف ایک منٹو لکھے جا رہا ہے، پیے جا رہا ہے، پیے جا رہا ہے اور لکھے جا رہا ہے۔۔۔۔ معلوم نہیں اس فلم کا اختتام کب ہو گا؟ ہو گا بھی یا نہیں؟
Leave a Reply