Laaltain

کمرہ امتحان سے؛ مسائل ، شکایات اور مطالبات

9 مئی، 2014
ارون آرتھر(لاہور)، توصیف احمد(بہاولپور)
لاہورسمیت پنجاب بھر میں جاری ہائیر سیکنڈری سکول امتحانات کے دوران کمرہ امتحان میں طلبہ کو درپیش مسائل پر لالٹین کی خصوصی رپورٹ

 

لارنس روڈ پر واقع لاہور بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے امتحانی مرکز میں پرچہ دینے کے لئے آنے والے ہزاروں طلبہ کے چہرے ان کی داستان سنارہے تھے۔ پری انجینئرنگ کے طالب علم ارمغان بہت پر اعتماد تھےلیکن صبیحہ کے خیال میں ان کی تیاری بہت عمدہ نہیں تھی اور صرف چند ہی اسباق پڑھنے کا وقت مل سکا تھا۔ بعض چہرے تیاری کے باوجود خوف زدہ تھے اور کہیں کہیں ٹکڑیوں میں اہم اور غیر اہم سوالات کی بحث جاری تھی۔ لالٹین سے گفتگو کرنے والے اکثر طلبہ نے ایجوکیشن بورڈز کی طرف سے امتحانات کے انتظامات پر تشویش کا اظہار کیا اور مزید بہتری کا مطالبہ کیا۔

 

امتحانی مراکز بکتے ہیں

 

امتحانات میں نقل کی روک تھام کی حکومتی کوششوں کے باوجود بعض طلبہ کے خیال میں امتحانی مراکز بکتے ہیں۔ لاہور بورڈ کے تحت پری میڈیکل کے امتحانات دینے والی شازیہ نے لالٹین سے گفتگو کرتے ہوئے ممتحنین اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو اس صورت حال کا ذمہ دار قرار دیا۔” ممتحن 2000 روپے تک وصول کرکے طلبہ کو نقل کے لئے کتب تک فراہم کر دیتے ہیں۔ ایک مشہور نجی تعلیمی اکیڈمی کے کم زور طلبہ کو پاس کرانے کے لئے اکیڈمی مالکان ان کے مراکز اپنی پسند سے بنواتے ہیں جہاں آسانی سے
پرچہ حل کیا جاسکے۔”
” ممتحن 2000 روپے تک وصول کرکے طلبہ کو نقل کے لئے کتب تک فراہم کر دیتے ہیں۔ ایک مشہور نجی تعلیمی اکیڈمی کے کم زور طلبہ کو پاس کرانے کے لئے اکیڈمی مالکان ان کے مراکز اپنی پسند سے بنواتے ہیں جہاں آسانی سے پرچہ حل کیا جاسکے۔”
لاہور بورڈ کے ذرائع کے مطابق ایسا ناممکن ہے۔ لاہور بورڈ کےافسر تعلقات عامہ قیصر ورک کے مطابق لاہور بھر میں ممتحن عملہ مکمل طور پر شفاف امتحانی عمل کا ذمہ دار ہے۔ کسی بھی امتحانی مرکز میں ایسا کوئی بھی غیر قانونی عمل وقوع پذیر نہیں ہو سکتا۔ بورڈ کے ایک اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر لالٹین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “بعض امتحانی مراکز جو شہر کے مضافات میں ہیں یا غیر معروف ہیں اس حوالے سے سرگرم ہیں، ایسے مراکزمیں ممتحن پیسے لے کر طلبہ کو پرچہ کراتے ہیں تاہم بڑے پیمانے پر ایسی بد عنوانی ممکن نہیں۔” شہر کے مضافات میں قائم بعض امتحانی مراکز جہاں میڈیا یا بورڈ انتظامیہ کی طرف سے کسی کاروائی کا امکان نہیں وہاں امتحانات کے دوران بد عنوانی کے چند واقعات کی اطلاعات لالٹین کو موصول ہوئی ہیں۔
علی غازی کے مطابق امتحانی مراکز میں بد عنوانی محنتی طلبہ کے حق غصب کرنے کے مترادف ہے،”اکیڈمی سے لے کر کالج تک ہر جگہ غریب کا بچہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے پیچھے ہے اب اگر امتحان کے دوران سینٹرزبکیں گے تو غریب کہاں جائے گا جس نے تمام سال محنت کی ہے۔”

 

تنخواہ کم مگر ایمانداری سے کام کرتے ہیں

 

“امتحانی مراکز میں بدعنوانی کا سلسلہ طلبہ کی وجہ سے بڑھا ہے۔ اکثر اکیڈمیز اور طلبہ کی جانب سے پرچے کے دوران مدد فراہم کرنے کے لئے رقم کی پیشکش کی جاتی ہے۔ انکار کی صورت میں دھمکیوں اور دباو کا بھی سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔” لاہور بورڈ کے تحت امتحانات میں نگران کے فرائض ادا کرنے والے ایک اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر لالٹین کو بتایا۔ گورمنٹ کالج فار ویمن گلبرگ کے امتحانی مرکز کی سپرنٹنڈنٹ پروفیسر فائزہ سلیم کا کہنا ہے کہ کبھی کبھار بعض طالب علم نہایت نامناسب رویہ اختیار کرتے ہیں اور پرچوں کے دوران روک ٹوک پر دھمکیاں بھی دیتے ہیں۔
گزشتہ آٹھ برس سے امتحانات میں نگرانی کرنے والے شوکت علی نے کہا کہ بورڈ کی طرف سے ملنے والی اجرت نہایت کم ہے۔”چند سو روپے ملتے ہیں ، تنخواہ کم ہے مگر ہم اپنا کام ایمانداری سے کرتے ہیں۔ “

 

امتحانی مراکز تک وقت پر پہنچنا مشکل کام ہے

 

امتحانی مراکز کے تعین کے نظام سے وابستہ شکایات میں سب سے زیادہ امتحانی مراکز کے دور ہونے کی شکایت تھی۔ بورڈ انتظامیہ کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں طلبہ کے امتحانات لینے کے لئے بورڈ انتظامیہ کو مجبوراً طلبہ کے لئے ایسے مراکز کا انتظام کرنا پڑتا ہے جو گھر سے دور ہو سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ پریشانی طالبات اور ان کے والدین کو اٹھانی پڑتی ہے۔ پری انجینئرنگ گروپ کا امتحان دینے والی عروج فاطمہ روزانہ جوہر ٹاون سے لارنس تک کا سفر کرتی ہیں۔ “صبح کے وقت ٹریفک بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے صبح بہت جلدگھر سے نکلنا پڑتا ہے۔ پیپر دینے وقت پر پہنچنے کے لئے مجھے رکشہ لگوانا پڑا ہے جو یقیناً کوفت کا باعث بنتا ہے۔”وین چلانے والے منظور کے مطابق اب ان کا کام بڑھ گیا ہے۔ “پہلے ایک ہی کالج میں ساری لڑکیاں اتارنی ہوتی تھیں۔ اب مسئلہ ہو گیا ہے, آدھی کو سمن اباد اور آدھی کو لارنس چھوڑنا پڑتا ہے۔ “

 

بجلی اور پانی نہیں ہیں مگر ۔۔۔

 

جنوبی پنجاب کی تعلیمی پسماندگی کے ساتھ وسائل کی کم یابی کا مسئلہ امتحانی نظام کے موثر ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ بہاولپور میں قائم صادق ایجرٹن کالج میں پرچے دینے والے عدنان نے پانی اور بجلی کے نہ ہونے کے باوجود پرچہ دینے کے تین گھنٹوں کو اپنے مستقبل کے لئے اہم قرار دیا ہے۔ “پیاس لگتی ہے اور پسینہ بھی بہت آتا ہے لیکن اچھے مستقبل کے لئے اتنی قربانی کا تو کوئی مسئلہ نہیں۔ ہال میں پنکھے لگے ہیں لیکن بجلی صرف ایک گھنٹہ آتی ہے، باقی وقت بس صبر کرتے ہیں اور پرچہ حل کرتے ہوئے اس بات کا خیال کم ہی آتا ہے۔”
“پیاس لگتی ہے اور پسینہ بھی بہت آتا ہے لیکن اچھے مستقبل کے لئے اتنی قربانی کا تو کوئی مسئلہ نہیں۔ ہال میں پنکھے لگے ہیں لیکن بجلی صرف ایک گھنٹہ آتی ہے، باقی وقت بس صبر کرتے ہیں اور پرچہ حل کرتے ہوئے اس بات کا خیال کم ہی آتا ہے۔”
گورنمنٹ کالج برائے خواتین سٹلائٹ ٹاون بہاولپور کی طالبہ افشاں تاہم پرچے کے دوران ناکافی سہولیات پر خاصی نالاں نظر آئیں۔ ” پرچہ کے دوران تو کم سے کم بجلی نہیں جانی چاہئے۔اس قدر گرمی کے دوران بھی اگر پنکھا نہیں چلے گا تو ہم پرچہ کیسے دیں گے۔ اور کچھ نہیں تو کم سے کم کرسیاں تو ٹھیک ہونی چاہئیں” بورڈ انتظامیہ کے مطابق ان کی کوشش طلبہ کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دینے کی ہے تاہم بجلی کے آنے جانے کے اوقات کا تعین ان کے بس سے باہر ہے۔ بہاولپور بورڈ کے ملازم نعیم اللہ کے مطابق سینٹرز میں پانی اور دیگر سہولیات کی فراہمی کی پوری کوشش کی جاتی ہے مگر وسائل کی کمی کے باعث بعض مراکز میں طلبہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 

“ممتحن کا لہجہ ہی ڈرا دینے کے لئے کافی ہے”

 

پنجاب بھر میں جاری انٹر میڈیٹ امتحانات کے دوران بہتر مستقبل کے لئے امتحانی مراکز میں پرچے دینے والے اکثر طلبہ ممتحن کے رویے اور بدسلوکی پر نالاں نظر آئے۔امتحانی مراکز کے باہر موجود طلبہ کے خیال میں ممتحن کا لہجہ نہایت کرخت ہوتا ہے اور بسا اوقات وہ غیر ضروری سختی سے کام لیتے ہیں۔ امتحانی مرکز لارنس روڈ کے باہرایک امیدوار نے بتایا کہ نگران اور سپرنٹنڈنٹ کے نامناسب رویہ کی وجہ سے انہیں پرچہ حل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امیدواران کا کہنا تھاکہ وہ پہلے ہی امتحانی دباو اور خوف میں مبتلا ہوتے ہیں ، ممتحن کا رویہ انہیں مزید پریشان کرتا ہے۔”ہم جانتے ہیں کہ دورانِ امتحان کسی سے بات کرنے کی اجازت نہیں لیکن نگران عملہ کا بلاوجہ بلند آواز ڈانٹنا اورکسی ایک بچے کی غلطی پر باقی امیدواران کو بھی اس کا نشانہ بنانا بالکل ٹھیک نہیں۔” ایک طالب علم نے لالٹین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔”جسے پرچہ آتا ہو وہ صرف اپنے پرچہ پر دھیان دیتا ہے۔ ممتحن اپنا کام کرتے ہیں ہم اپنا۔” ارجمند کے خیال میں نگران عملہ طلبہ کے رویہ کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ “طلبہ ممتحن عملے کی ہدایات پر عمل نہیں کرتے جس کی وجہ سے نگران سختی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔”
گزشتہ آٹھ برس سے امتحانات میں نگرانی کرنے والے شوکت علی نے کہا ممتحن حتی الامکان ڈانٹ ڈپٹ سے گریز کرتےہیں۔”یہ طلبہ ہمارے اپنے بچوں جیسے ہیں اور ہم کوشش کرتے ہیں کہ ان کو آرام سے پرچہ حل کرنے کا موقع دیں لیکن بعض اوقات کچھ طلبہ کارویہ نگران عملے کو سختی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔””پرچہ کے شروع میں تو سب ٹھیک ہوتا ہے لیکن آخری آدھے گھنٹے میں سبھی طالب علم تنگ کرتے ہیں اور ارد گرد کے طلبہ سے پوچھنا شروع کر دیتے ہیں تو ڈانٹنا پڑتا ہے۔” شوکت علی نے لالٹین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔
لاہور بورڈ کے پبلک ریلیشن آفیسر قیصر ورک کا کہنا ہے کہ نگران اور سپریٹنڈنٹ وغیرہ سب اساتذہ ہی ہوتے ہیں اور ان کو اچھے طریقے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے طالب علم سے کیسے برتاو کرنا ہے ۔گورمنٹ کالج فار ویمن گلبرگ کے امتحانی مرکز کی سپرنٹنڈنٹ پروفیسر فائزہ سلیم نے بتایا کہ ہمیں ہمارا اخلاق طلبہ سے نامناسب سلوک کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ انہوں نے بتایا کہ امتحانات سے کچھ عرصہ قبل لاہور بورڈکی طرف سے امتحانی عمل کے دوران مختلف سرگرمیوں کی تربیت دینے کے لئے ورکشاپ کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں انہیں سیٹنگ پلان(Seating Plan)، پرچہ جات کو ترتیب دینا اور امیدواران کے ساتھ سلوک اور اخلاق کی تربیت دی جاتی ہے۔
ہرسال نئے سرے سے بتانا پڑتا ہے
بورڈز کے تحت پرچہ حل کرنے کے قواعد تبدیل ہونے پر امتحانی مراکز میں اکثر ہنگامہ رہتا ہے۔کئی طلبہ جوابی پرچہ کے صفحات ختم ہونے کے بعد اضافی کاپی مانگتے نظر آئے اور چند ایک نے رول نمبر کے Bubbles ٹھیک سے بھرنے میں غلطی کی تھی ۔ “ہر سال ایک ہی بات بتانی پڑتی ہے کہ پرچہ حل کرنے سے پہلے ہدایات غور سے سن لیں مگر پھر بھی اکثر بچوں کو سمجھ نہیں آتی اور غلطی کے بعد شور مچاتے ہیں۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *