آپ ٹھیک کہتے ہیں
میں جو روز لکھتا ہوں
یہ ادب کلیشے ہے
سب کا سب کلیشے ہے
یہ گھسے پٹے مضمون
یہ سنی ہوئی سطریں
سب کہی ہوئی باتیں
لیکن اے مرے نقاد
مسئلہ کچھ ایسا ہے
عشق پہلے جیسا ہے
حسن پہلے جیسا ہے
اور تڑپ بھی پہلی سی
آج کا مرا محبوب
خال و خد میں صورت میں
سر سے پا کلیشے ہے
ہر ادا کلیشے ہے
وصل بھی کلیشے ہے
ہجر بھی کلیشے ہے
حسن کی طلب مجھ میں
یہ طلب کلیشے ہے
آگ ہے مرے اندر
آگ بھی کلیشے ہے
رات رات سنا ٹا
شام شام تنہائی
دل پہ جو گزرتا ہے
سب کا سب کلیشے ہے
سب کا سب بدل دیجے
میں جدید لکھوں گا
چار سو مرے پھیلی
زندگی کلیشے ہے
ظلم بھی کلیشے ہے
بھوک بھی کلیشے ہے
حکمراں رعایا کا جیسے خون پیتے ہیں
اہل ۔ زر غریبوں پر جو ستم گراتے ہیں
یہ سبھی کلیشے ہے
یہ سبھی بدل دیجے
زندگی بدل دیجے
میں جدید لکھو ں گا

One Response

  1. humaira ashraf

    بہترین۔
    داد قبول کیجیے۔

    اسی نوع کی ایک اور نظم پڑھی تھی کبھی شیئر کرنا چاہوں گی

    آپ سے عرض ملاقات نئی بات نہیں
    ہے مرے لب پہ وہی بات نئی بات نہیں
    دل بے تاب یہ ہلچل یہ قیامت کیسی
    آج کچھ ان سے ملاقات نئی بات نہیں
    آپ آ جائیں تو رم جھم کی صدا ناچ اٹھے
    ورنہ یہ رات یہ برسات نئی بات نہیں
    ہے یہی فرقہ ارباب وفا کا مقسوم
    یہ پریشانی حالات نئی بات نہیں

    سیف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ھے
    ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: