Laaltain

کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے

3 دسمبر, 2015
Picture of عتیق چوہدری

عتیق چوہدری

پیرس میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام بین الاقوامی کانفرنس میں 195 ممالک شریک ہیں۔ تقریباً 145 ممالک کے سربراہان، اہم حکومتی عہدیدار اور سیاسی شخصیات اس وقت پیرس میں ماحولیاتی تبدیلی کی روک تھام کے لیے کسی معاہدے تک پہنچنے کی کوشش میں ہیں۔ کانفرنس میں پاک بھارت تعلقات کے لیے سازگار ماحول بنانے کی ایک کوشش اس وقت سامنے آئی جب بھارتی وزیراعظم نے وقفے کے دوران وزیراعظم پاکستان نوازشریف سے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو نوازشریف نے بھی گرم جوشی سے اس کا جواب دیا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان دو منٹ تک مختصر گفت وشنید بھی سرگوشیوں میں ہوئی۔ یہ غیر رسمی، بے تکلفانہ کے ماحول میں مختصر ملاقات پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے سنگ میل ثابت ہوسکتی ہے۔ اوفا میں شریف، مودی ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ کے مطابق مذاکرات بھارت نے کشمیری قائدین سے ملاقات کا بہانہ بنا کر ملتوی کردیئے تھے۔ مودی کی پاکستان کے بارے میں سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے تعلقات کافی کشیدہ ہوگئے تھے۔ اس ملاقات کو سفارتی حلقوں نے بہت مثبت قرار دیا ہے مگر یہ سوال اہم ہے کہ کیا اس ملاقات سے سردمہری کی یہ برف پگھل جائے گی؟

 

انیس سو پچاسی میں پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات بہت خراب ہوگئے تو صدر ضیاء الحق نے مالدیپ سے واپس آتے ہوئے بھارت کا دورہ کیا جو صورتحال کو اعتدال پر لانے میں دوررس نتائج کا حامل ثابت ہوا۔
پاک بھارت تعلقات ہمیشہ سے غیر یقینی کا شکار رہے ہیں۔ ان تعلقات کی تشکیل اور اتار چڑھاؤ میں کئی مثبت اور منفی عوامل کا عمل دخل رہا ہے۔ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ دراصل باہمی اعتماد اور ہم آہنگی کے فقدان کی داستان ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر، سیاچن اور سرکریک پر تنازعات اور دریاؤں کے پانی کی تقسیم جیسے اہم مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ دہشت گردی اور دونوں ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت جیسے الزامات بھی دونوں فریق ایک دوسرے پر لگاتے ہیں۔

 

بھارت ممبئی حملے، سکھ تخریب کاروں کی مبینہ امداد جیسے الزامات مختلف فورمز پر دہراتا ہے، جبکہ پاکستان بلوچستان میں مداخلت،کراچی میں بدامنی اورپاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت جیسے الزامات بھارت پر لگاتا ہے۔ پاک بھارت معاملات کو بہتر بنانے کے لیے بہت سی کاوشیں کی گئی ہیں۔ 1960-1961 میں برطانیہ اور امریکہ نے عالمی بنک کے تعاون سے دریاؤں کی تقسیم کا معاہدہ کروایا، معاہدے کے تحت چھ دریاؤں میں سے تین دریا راوی، ستلج، بیاس بھارت کے حوالے کر دیئے گئے۔ ستمبر 1965 میں تاشقند کے مقام پر پاکستانی صدر ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات ہوئے۔ اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی مخالفت کے باوجود 4 جنوری 1966 کو تاشقند میں معاہدہ ہوا۔ مگر چار سال بعد ہی تعلقات دوبارہ کشیدہ ہوگئے اور 1971 میں جنگ کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوگیا۔ 1985 میں پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات بہت خراب ہوگئے تو صدر ضیاءالحق نے مالدیپ سے واپس آتے ہوئے بھارت کا دورہ کیا جو صورتحال کو اعتدال پر لانے میں دوررس نتائج کا حامل ثابت ہوا۔ نوازشریف کے سابقہ دورحکومت میں سابق بھارتی وزیراعظم واجپائی کے ساتھ مذاکرات اور تصفیہ طلب مسائل پر تفصیلی بات چیت ہوئی تھی لیکن اعلان لاہور کے باوجود کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوسکی۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں بیک ڈور ڈپلومیسی کے تحت چار نکاتی فارمولا بھی سامنے آیا۔

 

اس وقت دونوں ممالک اپنے بجٹ کی خطیر رقم دفاع پر خرچ کر رہے ہیں حالانکہ دونوں ملکوں کو دہشت گردی، انتہاپسندی، غربت، جہالت، بیروزگاری، معاشی پسماندگی، بڑھتی ہوئی آبادی اور بنیادی سہولیات کی کمی جیسے گوناگوں مسائل کا سامنا ہے۔
خارجہ پالیسی کے بعض ماہرین کے مطابق مشرف کا چار نکاتی فارمولا ہی پاک بھارت مسائل کا مستقل حل ہے۔ شرم الشیخ میں بھی پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات میں مذاکرات بحال کرنے کا وعدہ کیا گیا مگر عملی طور پر تمام مسائل جوں کے توں رہے۔ روس کے شہر اوفا میں برکس کانفرنس کے موقع پر نواز شریف اور نریندر مودی کے درمیان ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں اس بات کا عہد کیا گیاتھا کہ تمام تصفیہ طلب مسائل حل باہمی بات چیت سے حل کیے جائیں گے۔ بعد میں بوجوہ معاملات آگے نہیں بڑھ سکے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کے عوام آپس میں خوشگوار اور برابری کی بنا پر دوستی چاہتے ہیں۔ اس وقت دونوں ممالک اپنے بجٹ کی خطیر رقم دفاع پر خرچ کر رہے ہیں حالانکہ دونوں ملکوں کو دہشت گردی، انتہاپسندی، غربت، جہالت، بیروزگاری، معاشی پسماندگی، بڑھتی ہوئی آبادی اور بنیادی سہولیات کی کمی جیسے گوناگوں مسائل کا سامنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل باہمی بات چیت کے ذریعہ حل کریں۔ عالمی برادی خطے میں پائیدار قیام امن کے لیے دونوں ممالک کے درمیان پل کا کردار اداکرے۔ مشرف دور کے سابق وزیرخارجہ خورشید رضا قصوری نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بیک ڈور چینل کے ذریعہ ہم ایک معاہدہ کے قریب پہنچ گئے تھے جو بوجوہ مکمل نہیں ہوسکا۔ دونوں ممالک کو الزام تراشی کی روش ترک کے کھلے دل کے ساتھ ایک دوسرے کا موقف سننا چاہیئے اور آؤٹ آف دی باکس کسی حل پر غور کرنا چاہئیے۔

 

اس مرتبہ پاکستان نے مذاکرات اور دوستی کی طرف ہاتھ بڑھانے میں پہل کی ہے اب مودی صاحب کو بھی چاہیئے کہ جس طرح انہوں نے پیرس میں پہل کی ہے وہ اس ملاقات کو نتیجہ خیز بنانے اور دوررس نتائج کے لیے پاکستان کو باضابطہ مذاکرات کی دعوت دیں۔
اس مرتبہ پاکستان نے مذاکرات اور دوستی کی طرف ہاتھ بڑھانے میں پہل کی ہے اب مودی کو بھی چاہیئے کہ جس طرح انہوں نے پیرس میں پہل کی ہے وہ اس ملاقات کو نتیجہ خیز بنانے اور دوررس نتائج کے لیے پاکستان کو باضابطہ مذاکرات کی دعوت دیں۔ اچھی پہل کرنے کے لیے بھارتی حکومت اپنی کرکٹ ٹیم کو پاکستان کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دے اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کرے، تاکہ باہمی اعتماد کی فضا قائم ہوسکے۔ خارجہ امور کے بعض ماہرین اس ملاقات کو 8 اور 9 دسمبر کو ہونے والی ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس سے بھی نتھی کر رہے ہیں۔ اگر بھارت کی وزیرخارجہ سشما سوراج اس کانفرنس میں شریک ہوکر پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کرکے باضابطہ بات چیت کا آغاز کریں تو اس سے برف پگھل جائے گی۔ وزیراعظم پاکستان نوازشریف نے اس ملاقات کے بعد صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ملاقات بہت خوشگوار ماحول میں ہوئی دونوں طرف سے اچھے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے مگر اچھے جذبات کو عملی جامہ پہنانا بہت ضروری ہے۔ وزیراعظم پاکستان پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ اگر بھارت پیشگی شرائط نہ رکھے تو ہم مذاکرات کے لیے تیارہیں۔ اس وقت پاکستانی حکومت اور عسکری قیادت بھارت کے ساتھ اچھے ہمسائے کی طرح رہنے کے حق میں ہیں اور مسائل بات چیت سے حل کرنے کو تیار ہیں۔ خطے میں پائیدار امن کے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک اسلحے کی دوڑ سے باہر نکلیں، جنگی جنون کو چھوڑ کر پیسہ اپنی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں۔ دونوں ممالک میں تعلیم، صحت، بنیادی ضروریات زندگی، انفراسٹرکچر، جدید تحقیق، ٹیکنالوجی، زرعی سہولیات، تجارت اور ٹرانسپورٹ سمیت بہت سے بنیادی مسائل پر بجٹ خرچ کرنے سے کروڑوں عوام کے معیار زندگی میں بہتری آئے گی۔ بڑھتی ہوئی آبادی، دہشت گردی، ماحولیاتی آلودگی اور موسمی تبدیلیاں جیسے اہم مسائل سے نمٹنے کے لیے بھی دونوں ممالک کو الزام تراشی کی بجائے ایک دوسرے سے حل کے لیے تعاون کر ناچاہیئے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون پہلے ہی دونوں ممالک میں تصفیہ طلب مسائل کے مذاکرات کے ذریعے حل کے لیے تعاون کی پیشکش کرچکے ہیں جو عالمی برادری کی جانب سے اس امر کا اظہار ہے کہ دونوں ایٹمی ممالک کے درمیان مسائل حل نہ ہوئے تو یہ عالمی امن کے لیے مستقل خطرہ ہوں گے۔ دونوں ملکوں کے میڈیا کو بھی ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا مظاہرہ کر تے ہوئے ایک دوسرے کو نیچادکھانے کی بجائے مثبت پہلووں پر روشنی ڈالتے ہوئے قیام امن کی کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔

ہمارے لیے لکھیں۔