میں جھٹ سے اپنا وجود سمیٹتے ہوئے دور بھاگ جاتی ہوں”نہیں یہ وہ نہیں ہے جو مجھے سہار سکے، آخر یہ سب سمجھتے کیوں نہیں کہ میں ٹکڑوں میں زندہ نہیں رہ سکتی، مجھے تقسیم ہونا نہیں آتا، میں تو اکائی کی قائل ہوں۔ میں تو امرہونے کے لئے بنی ہوں، میرا کُل ہو جانا ہی میرے وجود کی ضمانت ہے۔ میرے وجود کوپوری طرح خود میں سمو کر ایک ہو جانے کی سکت نہیں ان سانچوں میں۔” میں جانتی ہوں کہ یہ سانچے مجھے خود میں ڈھال کر ایک مکمل وجود کی ترجمانی نہیں کر سکتے کیوں کہ میں مقید نہیں ہو سکتی تو پھر ان کمزور سانچوں کے پیچھے بھاگنا میری فطرت میں کیوں کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا ہے؟
یہ آج کی نہیں گزرےزمانوں کی بات ہے کہ میں نے اپنے وجود کی ترجمانی چاہی، کسی مخصوص شکل میں اپنا عکس دیکھنے کی خواہش مجھ میں روزِ اول سے رکھ دی گئی تھی اور اس خواہش کے پیچھے بھاگتے بھاگتے میں اک روز ایسی بستی میں آن نکلی جہاں ایک ہی جیسے دھڑوں پر مختلف شکلیں لئے انسان نما “جاتی” بستی تھی۔
یہ آج کی نہیں گزرےزمانوں کی بات ہے کہ میں نے اپنے وجود کی ترجمانی چاہی، کسی مخصوص شکل میں اپنا عکس دیکھنے کی خواہش مجھ میں روزِ اول سے رکھ دی گئی تھی اور اس خواہش کے پیچھے بھاگتے بھاگتے میں اک روز ایسی بستی میں آن نکلی جہاں ایک ہی جیسے دھڑوں پر مختلف شکلیں لئے انسان نما “جاتی” بستی تھی۔ ان سب میں ایک مشترک صفت موجود تھی کہ وہ تمام ایک دوسرے سے بے نیاز اپنی ذات کے گرد گھومنا جانتے تھے۔ ان کی اس بے نیازی سے متاثر ہو کر میں نے بستی سے ذرا پرے ایک جوگی کی جھگی کے پاس بسیرا کر لیا۔ میرا دن ان ہیولوں کی بستی میں اپنا عکس ڈھونڈنے میں گزرتا اور ہر رات جوگی کی کٹیا سے ٹیک لگائے مجھے اپنا وجود ہوا میں تحلیل ہوتا محسوس ہوتا۔ وہ جوگی شاید اس بستی کا نہیں تھا، میں نے نہ تو کبھی اسے کٹیا سے باہر آتے دیکھا تھا اور نہ ہی کسی کو اندر جاتے۔ وہ کوئی سنگیت کار تھا جو زندگی کی الجھی ہوئی ڈوروں کوبڑی خوبصورتی سے سُر میں لا یا کرتا تھا ۔ رات کے پچھلے پہر جب اس کے شکست خوردہ لب بانسری کو چھوتے تو اس کے اندر کی تڑپ بانسری کے دہن سے آزاد ہوکر تمام کائنات کو اپنی کوک میں جکڑ لیتی تو نجانے کیوں تب میں خود کو آزاد محسوس کرتی۔
اس بستی میں اب میرا آنا جانا عام ہو گیا تھا، میری کسی سے جان پہچان نہ ہوئی پر وہاں کے باسیوں نے روز آتا جاتا دیکھ کر مجھ سے سلام دعا شروع کر دی اور لگے مجھے اپنے قصے سنانے۔ لیکن اس سب سے مجھے کچھ لینا دینا نہیں تھا،مجھے تو ان کے وجود میں اپنا عکس ڈھونڈنا تھا۔ میں اس بستی میں گھل مل نہ سکی مگر اس بستی میں ایک چیز بڑی شدت سے پائی جاتی تھی؛ اپنائیت۔۔۔ ان لوگوں کو کسی کو اپنا بنانے میں بڑی مہارت حاصل تھی چوں کہ وہ اپنی ذات کے گرد گھومنے کے قائل تھے لہذا وہ اپنی خوشی کے لئے ذہن کا بہت استعمال کیا کرتے تھے۔ اپنی عقلمندی کے بل بوتے پر وہ یہ جاننے میں کامیاب ہو گئے کہ میں ان کی بستی میں کیا ڈھونڈنے آئی ھوں،تو ہر ایک نے مجھ پر اپنا حق جتانے کے لئے اپنی ذات کے مختلف رخ میرے سامنے لا کر رکھ دیے، ھر ایک نے مجھ سے اک نئی طرز کا سانچہ تعمیر کروانا چاہا ۔ میں نے بستی والوں کے لئےکئی خوبصورت سانچے تعمیربھی کئے اور ہر لحظہ ان سانچوں کے گرد ایک ہالہ سا بنائے رکھنے لگی۔ جذبات کی حدت سے جب میرے بنائے سانچے جلنے لگتے تو میں شفاف اور یخ برف کے گولوں کی مانند ان کے گرد تیرنے لگتی اور جب یہ سانچے جذبات کی دنیا میں شکست کھا کر ٹھنڈے پڑ جاتے اور مایوسی کے بادلوں تلے چھپ جانا چاہتے تو میں اپنے وجود کے لمس سے ان کے اندر زندگی بھڑکا دیتی۔
اس بستی میں اب میرا آنا جانا عام ہو گیا تھا، میری کسی سے جان پہچان نہ ہوئی پر وہاں کے باسیوں نے روز آتا جاتا دیکھ کر مجھ سے سلام دعا شروع کر دی اور لگے مجھے اپنے قصے سنانے۔ لیکن اس سب سے مجھے کچھ لینا دینا نہیں تھا،مجھے تو ان کے وجود میں اپنا عکس ڈھونڈنا تھا۔ میں اس بستی میں گھل مل نہ سکی مگر اس بستی میں ایک چیز بڑی شدت سے پائی جاتی تھی؛ اپنائیت۔۔۔ ان لوگوں کو کسی کو اپنا بنانے میں بڑی مہارت حاصل تھی چوں کہ وہ اپنی ذات کے گرد گھومنے کے قائل تھے لہذا وہ اپنی خوشی کے لئے ذہن کا بہت استعمال کیا کرتے تھے۔ اپنی عقلمندی کے بل بوتے پر وہ یہ جاننے میں کامیاب ہو گئے کہ میں ان کی بستی میں کیا ڈھونڈنے آئی ھوں،تو ہر ایک نے مجھ پر اپنا حق جتانے کے لئے اپنی ذات کے مختلف رخ میرے سامنے لا کر رکھ دیے، ھر ایک نے مجھ سے اک نئی طرز کا سانچہ تعمیر کروانا چاہا ۔ میں نے بستی والوں کے لئےکئی خوبصورت سانچے تعمیربھی کئے اور ہر لحظہ ان سانچوں کے گرد ایک ہالہ سا بنائے رکھنے لگی۔ جذبات کی حدت سے جب میرے بنائے سانچے جلنے لگتے تو میں شفاف اور یخ برف کے گولوں کی مانند ان کے گرد تیرنے لگتی اور جب یہ سانچے جذبات کی دنیا میں شکست کھا کر ٹھنڈے پڑ جاتے اور مایوسی کے بادلوں تلے چھپ جانا چاہتے تو میں اپنے وجود کے لمس سے ان کے اندر زندگی بھڑکا دیتی۔
جذبات کی حدت سے جب میرے بنائے سانچے جلنے لگتے تو میں شفاف اور یخ برف کے گولوں کی مانند ان کے گرد تیرنے لگتی اور جب یہ سانچے جذبات کی دنیا میں شکست کھا کر ٹھنڈے پڑ جاتے اور مایوسی کے بادلوں تلے چھپ جانا چاہتے تو میں اپنے وجود کے لمس سے ان کے اندر زندگی بھڑکا دیتی۔
پھر ایک روز یہ سب لوگ ایک ایک کر کے میرے پاس آئے اور اپنے اپنے نام کے سانچوں میں مجھے ڈھالنا چاہا۔ جب میں نے ان سانچوں کے اندر جھانک کر دیکھا تو ان میں اپنا عکس کہیں نہ ملا۔ میں جن سانچوں کو دیوتا سمجھ کر پوجتی رہی تھی وہ تمام بت نکلے اور ان تمام بتوں کی پہچان تو ان کی شناخت میں موجود تھی، وہ میری شناخت ہرگز نہ تھے۔ وہ تو وہی بت تھے جن سے بھاگ کر میں اس بستی میں آئی تھی، اس بستی کے ہر شخص نے مجھے قید کرنے کی کوشش کی ، اپنے اپنے نام کے بتوں اور سانچوں میں۔ ہر کسی کا اپنا سانچہ تھا مجھے قید کرنے کو، معاشرے کا، شہوت کا ، کوئی مذہب اور ذات کا ۔ کسی کے ہاتھ رسموں اور رواجوں کا بت تھا تو کسی کے پاس رشتوں کا، مگر میں کسی اور کی شناخت کی قیدی کیوں کر ہو سکتی ہوں؟
دم گھٹنے لگا تو میں نے اپنی شناخت کو پانے کے لئے خاموشی سے اس بستی سے جانا چاہا پر نجانے میرےانکار پربستی کے باسیوں نے دشنام، ملامت اور رسوائی کی ایسی کنکریاں مجھ پر برسائیں کہ میرا تعمیر کردہ ہر بت اور ہر سانچہ گر کر کرچی کرچی ہو گیا اور اپنے بکھرے ہوئے وجود کی دھجیاں لئے میں اپنا وجود سمیٹتے ہوئے دور بھاگ جاتی ہوں ۔ نہیں یہ سب وہ نہیں ہے جو مجھے سہار سکے، آخر یہ سب سمجھتے کیوں نہیں کہ میں ٹکڑوں میں زندہ نہیں رہ سکتی۔ مجھےتقسیم ہونا نہیں آتا، میں تو اکائی کی قائل ہوں،میں امر ہونے کے لئے بنی ہوں۔ میرا کُل ہو نا ہی میرے وجود کی ضمانت ہے۔ میرے وجود کوکلی طور پر خود میں سمو نے اور مجھے شناخت دینے کی سکت کسی اور کے بنائے سانچوں میں نہیں ہے۔ میں مقید نہیں رہ سکتی مجھے اپنا سانچہ، اپنا بت اور اپنی شناخت خود تراشنی ہے۔
دم گھٹنے لگا تو میں نے اپنی شناخت کو پانے کے لئے خاموشی سے اس بستی سے جانا چاہا پر نجانے میرےانکار پربستی کے باسیوں نے دشنام، ملامت اور رسوائی کی ایسی کنکریاں مجھ پر برسائیں کہ میرا تعمیر کردہ ہر بت اور ہر سانچہ گر کر کرچی کرچی ہو گیا اور اپنے بکھرے ہوئے وجود کی دھجیاں لئے میں اپنا وجود سمیٹتے ہوئے دور بھاگ جاتی ہوں ۔ نہیں یہ سب وہ نہیں ہے جو مجھے سہار سکے، آخر یہ سب سمجھتے کیوں نہیں کہ میں ٹکڑوں میں زندہ نہیں رہ سکتی۔ مجھےتقسیم ہونا نہیں آتا، میں تو اکائی کی قائل ہوں،میں امر ہونے کے لئے بنی ہوں۔ میرا کُل ہو نا ہی میرے وجود کی ضمانت ہے۔ میرے وجود کوکلی طور پر خود میں سمو نے اور مجھے شناخت دینے کی سکت کسی اور کے بنائے سانچوں میں نہیں ہے۔ میں مقید نہیں رہ سکتی مجھے اپنا سانچہ، اپنا بت اور اپنی شناخت خود تراشنی ہے۔
Artwork:
Crucifixion 1965” by [1]. Licensed under Fair use via Wikipedia.