کسی انتظار کی جانب
ازل سے چلتے رہے ہیں مگر کھڑے ہیں وہیں
دیارِ دیدہ و دل میں وہی دھندلکا ہے
اسی زمیں پہ قدم، سر پہ آسماں ہے وہی
کہیں پہ دور کہیں ہم کو جا کے ملنا تھا
کسی خیال سے ،اک خواب خوش نما کی طرف
نکلتے جانا تھا ٹوٹے ہوے خمار کے ساتھ
نہ جانے کیا تھا جسے ڈھونڈنے نکلنا تھا
رہ وجود میں اڑتے ہوے غبار کے ساتھ
رہے اسیر در و بام زندگی ہر دم
وہی جو خستہ تھے معمول روز و شب کی طرح
بس ایک چاک پہ ہم گھومتے، اُدھڑتے رہے
سو اب خرام کریں راہ معذرت پہ کہیں
تھکن سے بیٹھ رہیں کنج عافیت میں کہیں
کہیں سے توڑ دیں دیوار ایستادہ کو
جدھر کو جا نہیں پائے، ادھر نکل جائیں
جو منتظر تھا ہمارا، جو راہ تکتا تھا
جو ہم پہ وا نہیں ہوتا، جو ہم پہ کھلتا نہیں
جو ہم پہ کھلتا نہیں، اس حصار کی جانب
کسی طلب کو، کسی انتظار کی جانب !
دیارِ دیدہ و دل میں وہی دھندلکا ہے
اسی زمیں پہ قدم، سر پہ آسماں ہے وہی
کہیں پہ دور کہیں ہم کو جا کے ملنا تھا
کسی خیال سے ،اک خواب خوش نما کی طرف
نکلتے جانا تھا ٹوٹے ہوے خمار کے ساتھ
نہ جانے کیا تھا جسے ڈھونڈنے نکلنا تھا
رہ وجود میں اڑتے ہوے غبار کے ساتھ
رہے اسیر در و بام زندگی ہر دم
وہی جو خستہ تھے معمول روز و شب کی طرح
بس ایک چاک پہ ہم گھومتے، اُدھڑتے رہے
سو اب خرام کریں راہ معذرت پہ کہیں
تھکن سے بیٹھ رہیں کنج عافیت میں کہیں
کہیں سے توڑ دیں دیوار ایستادہ کو
جدھر کو جا نہیں پائے، ادھر نکل جائیں
جو منتظر تھا ہمارا، جو راہ تکتا تھا
جو ہم پہ وا نہیں ہوتا، جو ہم پہ کھلتا نہیں
جو ہم پہ کھلتا نہیں، اس حصار کی جانب
کسی طلب کو، کسی انتظار کی جانب !
Image: Teun Hocks
Leave a Reply