Laaltain

کرکٹ کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

26 فروری, 2015
Picture of اجمل جامی

اجمل جامی

کوئی پوچھے کہ صاحب آپ ٹیم کے چیف سلیکٹر ہیں،آپ نے ٹیم منتخب کر دی، اب کوچ جانے یا کپتان ، آپ کاہے کو سرکاری خرچے پر نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی ‘یاترا’ پر تھے؟ چلیے، معین خان سے تو پوچھنے والے اب خوب پوچھ رہے ہیں، لیکن کرکٹ بورڈ کے پاس انہیں ٹیم کے ساتھ بھیجنے کا آخر کیا جواز ہے ؟ شہریار خان صاحب سادگی سے گویا ہوئے “ہم نے مناسب سمجھا کہ انہیں (معین خان)بھی ٹیم کےساتھ جانا چاہیے۔” ارے بھئی آخرکیوں؟ وجہ بھی تو بتا دیجیے کہ آخر چیف سلیکٹر کا کیا کام ہے؟ مان لیا ہماری بات میں وزن نہیں اور معین خان کو ٹیم کے ہمراہ بھیجنے میں یقیناً کوئی حکمت پوشیدہ ہے، تو صاحب! آپ ہی بتا دیجیے ، کیا کسی اور ٹیم کا چیف سلیکٹر بھی ٹیم کے ساتھ موجود ہے؟ اگر ایسا ہے تو خاکسار کے علم میں اضافہ فرما کر ثواب ضرور کمائیے گا۔
معین خان کہتے ہیں کہ وہ ‘جوئے خانے’ میں کھانا تناول فرمانے گئے تھے،ٹھیک ہی کہتے ہیں، موصوف بدیسی کھانے کھا کے تنگ آچکے تھے ، سوچا کیوں نہ منہ کا ‘ذائقہ’ بدل لیا جائے۔
باقی رہی بات جواخانےجانے کی، تو یہ کون سا پہلی بار ہوا ہے، ہمارے ایک سٹار آل راونڈر تو میچ کے بعد نہاتے اور نکل جاتے پھر اگلے روز دوپہر کو لوٹا کرتے تھے، اس دوران وہ کہاںجاتے تھے اور کیا کرتے تھےاس بارے تاریخ اور بالخصوص راقم التحریر خاموش رہنے پر ہی اکتفا کرے گا۔ معین خان کہتے ہیں کہ وہ ‘جوئے خانے’ میں کھانا تناول فرمانے گئے تھے،ٹھیک ہی کہتے ہیں، موصوف بدیسی کھانے کھا کے تنگ آچکے تھے ، سوچا کیوں نہ منہ کا ‘ذائقہ’ بدل لیا جائے۔ یہ بھی ممکن ہےمذکورہ جواخانے میں شاید کراچی کی نہاری اور لاہور کے سری پائے دستیاب ہوں ، تبھی تو وہ للچائی آنکھوں اور ٹپکتی رالوں کےساتھ وہاں جا پہنچے، اور اگر وہ وہاں کھلاڑیوں پر نظر رکھنے کےلیے گئے تھے تو جناب کیا کبھی چیف سلیکٹر بھی کھلاڑیوں کے پیچھے بھاگتا پھرتا ہے؟ یوں لگتا ہے جیسے پی سی بی اب کرکٹ بورڈ کم اور”comic board” زیادہ بنتا جا رہا ہے۔
قومی کرکٹ ٹیم شاید اس بار مخالف ٹیموں کے ساتھ لڑنے کی تربیت بھی ڈریسنگ روم میں ہی حاصل کرہی ہے۔ پہلے سنا کہ چند سینئر کھلاڑیوں کے فیلڈنگ کوچ کے ساتھ تنازعات ہیں، پھر معلوم ہوا کہ کھلاڑیوں کے آپسی اختلافات اور lobbies بھی پائی جاتی ہیں۔ آسٹریلیا میں موجود ایک سینئر رپورٹر بتا رہے تھے کہ وقار یونس بھی کچھ”سابق کھلاڑیوں” کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کرکٹ اور ٹیم کی شاندار کارکردگی جن فیصلوں کی بدولت ہے وہ کھلاڑیوں اور عہدیداران کے تنازعات کے باعث پس منظر میں چلے گئے ہیں۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف ساڑھے تین باولرز کھیل رہے تھے، وہاب، سہیل خان ، آدھا آفریدی، آدھا عرفان اور آدھا حارث سہیل،کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ کسی میچ میں پاکستان کے پاس کھلانے کو پورے پانچ باولزر بھی دستیاب نہیں ہوں گے۔؟
بھارت اور ویسٹ انڈیز کے خلاف سرفراز احمد کو ڈراپ کرنے کی منطق رہتی دنیا تک ایک معمہ ہی رہے گا۔ یعنی پوری دنیا کے کرکٹ پنڈت سر پکڑ کر بیٹھے رہے لیکن انہیں پاکستانی ٹیم انتظامیہ کی اس انوکھی اور انتہائی ناکام ترکیب کی رتی برابر بھی سمجھ نہ آ سکی۔ ناصر جمشید جیسے بیمار،بیزار اور لاغر کھلاڑی کو ٹیم میں جگہ دینے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ وہ صاحب ہیں جومیدان میں دعا کرتے ہیں کہ ‘یا اللہ گیند میرے ول ناں ای آوے'(یااللہ گینگ میری طرف نہ ہی آئے)۔ رہ گئی بات بلے بازی کی تو موصوف کے لیےبلا اٹھانا گویا پہاڑ سر پر اٹھانے کے مترادف ہے، جبھی تو آخری نمبروں پر کھیلنے والوں کی طرح کیچ آوٹ ہو گئے۔
بھارت کے خلاف یونس خان سے اوپننگ کرانا یقیناً ایک سنگین غلطی تھی، بھارتی فاسٹ باولرز کے خلاف اگر سرفراز سے اوپن کروایا جاتا تو شاید صورتحال کچھ اور ہوتی، یونس کے فٹ ورک کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ بالکل فارم میں نہیں ہیں، ایسے میں اتنے بڑے میچ میں ان سے اوپننگ کرانا کسی مذاق سے کم نہ تھا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف ساڑھے تین باولرز کھیل رہے تھے، وہاب، سہیل خان ، آدھا آفریدی، آدھا عرفان اور آدھا حارث سہیل،کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ کسی میچ میں پاکستان کے پاس کھلانے کو پورے پانچ باولزر بھی دستیاب نہیں ہوں گے۔؟ باقی کہانی دہرانے کا فائدہ نہیں۔ بھارتی کپتان کو اپنی باولنگ لائن کی اوقات کا بھر پور علم تھا، اسی لیے اس نے انہیں وکٹ سے وکٹ اور فیلڈ کے مطابق باولنگ کرنے کا کہا، نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے بلے باز strike rotate نہ کر سکے، Gap ڈھونڈنا عذاب بن گیادباو بڑھااور وکٹیں گرتی رہیں۔ جب کسی ٹیم کی استعدادواجبی یا معمولی نوعیت کی ہو تو کپتان عموماً اپنے کھلاڑیوں کو کرکٹ کی بنیادی مہارتوں پر عمل پیراہونے کو کہتے ہیں کیونکہ غیر معمولی فیصلے تبھی کیے جاتے ہیں جب ٹیم میں غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک کھلاڑی موجودہوں۔
پاکستان کے دونوں میچز دیکھ لیجیے ، میدان میں کوئی موثر حکمت عملی دکھائی دی اور نہ ہی کھلاڑی جان مارتے نظر آئے، ہاں، بھارت کے خلاف اننگز کے آخری پانچ اوورز میں سہیل خان اور وہاب نے خوب زور لگایا ۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹاس جیت کر باولنگ کا فیصلہ انتہائی غلط تھا، ٹیم کی باولنگ کم زور تھی اور بلے بازوں پر انحصار نہیں کیا جا سکتا تھا، ایسے میں بہتر ہوتا کہ بیٹنگ کرتے کہ شاید ہمارے بلے باز دو سو پچاس سے زائد رنز جوڑ لیتے اور میچ کسی حد تک دلچسپ ہو جاتا، پچ ریڈنگ کے معاملے میں بھی ٹیم اور ٹیم کے ساتھ موجود عہدیداران خاصے غیر پیشہ ورانہ طرز عمل اپنائے ہوئے ہیں۔سامنے کی بات ہے کہ اس عالمی کپ میں اگر تین سور نز سکور ہور ہے ہیں تو جواب میں ٹیمیں ٹھیک ٹھاک طریقے سے ہدف کا تعاقب کر رہی ہیں۔ میچز کو تفریح سے بھرپور بنانے کے لیے ورلڈ کپ کا عملہ ایسی پچیں تیار کر رہے ہیں جن پر دونوں ٹیموں کو یکساں مواقع دستیاب ہوں۔ وہ دن گئے جب گھاس دیکھ کر کپتان پہلے باولنگ کا فیصلہ کرتے تھے اور مخالف ٹیم کو کم سکور پر نو دو گیارہ کیا کرتے تھے۔ ون ڈے کرکٹ کا مستقبل اسی بات سے جڑا ہے کہ پچاس اورز کا کھیل کس حد تک سنسنی خیز اور تفریح کا باعث ہو سکتا ہے۔
اب تک کے مقابلوں میں فاتح ٹیموں کی جسمانی زبان دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، میچ کی پہلی گیند سے لے جیت کی گھڑی تک عزم و استقلال تمام کھلاڑیوں کے چہروں پرعیاں تھا، اس کے برعکس ہمارے پر کٹے شاہین یوں سٹ پٹائے پھر رہے تھے جیسے کسی میلے میں کوئی بچہ اپنی ماں سے کھو گیا ہو۔ معاف کیجیے گا خاکسار انتہائی بنیادی معاملات پر تفصیل پیش کر رہا ہے، تکنیکی اعتبار سے اگر ٹیم کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو اس کی باریکیاں انتہائی بھیانک ہو سکتی ہیں۔ سرفراز نواز سے لاکھ اختلاف سہی، لیکن حال ہی میں وہ اپنا ایک ایسا خط منظر نام پر لے کر آئے ہیں جس میں انہوں نے جوئے میں ملوث کھلاڑیوں پر ہوئی تحقیقاتی رپورٹوں کا ذکر کیا ہے، یہ خط انہوں نے متعلقہ حکام کو تحریر کیا، جس میں ان کا اعتراض انتہائی معقول معلوم ہوتا ہے، سرفراز نواز کا مطالبہ ہے کہ ایسے تمام سابقہ کھلاڑی اور عہدیداران جو ماضی میں جوئے یا دیگر جرائم کے مرتکب قرار پائے انہیں دوبارہ ٹیم انتظامیہ کا حصہ بنانا صریحاً غلط ہے، لہذا انہیں فی الفور فارغ کیا جائے لیکن ستو پیے ہوئے بورڈ کا داغ دار ماضی کے حامل افراد کو ٹیم کے ساتھ بھیجنا قابل گرفت ہے۔
سرفراز نواز کا مطالبہ ہے کہ ایسے تمام سابقہ کھلاڑی اور عہدیداران جو ماضی میں جوئے یا دیگر جرائم کے مرتکب قرار پائے انہیں دوبارہ ٹیم انتظامیہ کا حصہ بنانا صریحاً غلط ہے، لہذا انہیں فی الفور فارغ کیا جائے
خاکسار کی رائے میں ورلڈ کپ دو ہزار پندرہ کے لیے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا مضبوط امیدوار ہیں، جنوبی افریقہ اور بھارت سیمی فائنل کھیلنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں، ہماری دانست میں آئر لینڈ کی ٹیم ایک مکمل اور مضبوط ٹیم ہے جس کی فتوحات اب اتفاقیہ قرار نہیں دی جا سکتیں ، ہاں اگر موجودہ پاکستانی ٹیم آئرلینڈ کو زیر کر لیتی ہے تو معاف کیجیے گا حقیقی معنوں میں اسے “اپ سیٹ” کہا جائے گا۔ پاکستان کے کواٹر فائنل کھیلنے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہماری ٹیم کو کوراٹر فائنل کھیلنے کے لیے باقی چاروں مقابلے جیتنا ہوں گے، کیونکہ اگر جنوبی افریقہ کے خلاف شکست ہوتی ہے اور ہم زمبابوے، یو اے ای اور آئرلینڈ کے خلاف جیت بھی جاتے ہیں اور ادھرسے اگر آئرلینڈ اپنے باقی تمام میچز بھی ہار جاتا ہے تو ہمیں نیٹ رن ریٹ کا مسئلہ درپیش ہو گا جس میں ابھی تک آئرلینڈ ہم سے کئی گنا بہتر ہے۔ پاکستانی ٹیم نے ابتدائی دو میچوں میں بد ترین کاکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوراٹر فائنل کھیلنے کے امکانات کو بھی تاریک کر دیا ہے ۔ دعائیں ضرور کیجیے، لیکن کاش کرکٹ میں بھی ہارس ٹریڈنگ کی اجازت ہوتی تو شاید پاکستانی حکام ٹیم کے لیے کچھ دال دلیا کر ہی لیتے۔

 

(نوٹ: عمر اکمل کے بھڑکیلے گلابی دستانوں اور ان کی وکٹ کیپنگ پر تبصرہ وقت کا ضیاع جان کر نہیں کیا گیا، شکریہ)

ہمارے لیے لکھیں۔