شعبہ اسلامک سٹڈیز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹرشکیل اوج کی 18 ستمبر کوفائرنگ میں ہلاکت کے بعد کراچی یونیورسٹی کو تین روز کے لئے بند کردیا گیا ہے۔ پندرہ سے زائد کتب کے مصنف پروفیسر شکیل اوج پرگلشن اقبال میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کی جس کے بعد انہیں آغا خان ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گئے۔ ایس ایس پی پیر محمد شاہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر شکیل کے اعزاز میں ایران کے کلچرل سینٹر خانۂ فرہنگ میں تقریب منعقد کی گئی تھی، جہاں وہ اپنے ساتھی شعبۂ صحافت کے سربراہ طاہر مسعود اور طالبہ ڈاکٹر آمنہ کے ہمراہ شرکت کے لیے جا رہے تھے۔ واقعہ کے ردعمل میں شہر کے مختلف تدریسی اداروں میں تعلیمی سرگرمیاں معطل کر دی گئی ہیں۔
ڈاکٹر شکیل کے خلاف توہین رسالت کے الزام میں کراچی کے ایک مدرسے سے فتویٰ بھی جاری کیا گیا تھا، جس کے بعد موبائل پر انھیں واجب القتل قرار دے کر ایس ایم ایس کے ذریعے اس پیغام کو عام کیا گیا۔
سندھ پروفیسرز لیکچرار ایسوسی ایشن کے سربراہ افتخار اعظمی نے اس واقعہ پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، ان کا کہنا تھا کہ اگر اساتذہ یونہی قتل ہوتے رہے تو شہر پڑھے لکھے لوگوں سے خالی ہو جائے گا۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی حالیہ لہر کے دوران اساتذہو کو بھی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں تاہم ان کی حفاظت کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا گیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق قتل کی وجوہ کا تعین فوری طور پر کرنا ممکن نہیں۔ ایس ایس پی پیر محمد شاہ کے مطابق ڈاکٹر شکیل کے خلاف توہین رسالت کے الزام میں کراچی کے ایک مدرسے سے فتویٰ بھی جاری کیا گیا تھا، جس کے بعد موبائل پر انھیں واجب القتل قرار دے کر ایس ایم ایس کے ذریعے اس پیغام کو عام کیا گیا۔
پروفیسر شکیل اوج حدیث، فقہ اور سیرت نبوی پروسیع ریسرچ کے حامل تھے اور گزشتہ 19 برس سے جامعہ کراچی سے منسلک تھے۔ ذرائع کے مطابق پروفیسر شکیل بین المسالک ہم آہنگی کی وکالت کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے فتویٰ دیا تھا کہ مسلمان عورتیں غیر مسلم مردوں سے شادی کر سکتی ہیں اور یہ کہ لپ اسٹک یا نیل پالش کے ساتھ بھی خواتین نماز ادا کر سکتی ہیں۔انکے ساتھی استاد اور دیرینہ دوست پروفیسر توصیف احمد خان جو کہ فیڈرل اردو یونیورسٹی میں ابلاغیات کے شعبہ کے چئیرمین ہیں،کا کہنا ہے کہ ہم انہیں محتاط رہنے کا کہتے تھے کیونکہ وہ اپنے روشن خیال نظریات کا اظہار بہت کھل کر کرتے تھے۔ پروفیسر شکیل اسلامیات میں ڈاکٹریٹ کے علاوہ وہ صحافت میں ایم اے اور ایل ایل بی کی بھی ڈگری رکھتے تھے۔
پولیس ذرائع کے مطابق قتل کی وجوہ کا تعین فوری طور پر کرنا ممکن نہیں۔ ایس ایس پی پیر محمد شاہ کے مطابق ڈاکٹر شکیل کے خلاف توہین رسالت کے الزام میں کراچی کے ایک مدرسے سے فتویٰ بھی جاری کیا گیا تھا، جس کے بعد موبائل پر انھیں واجب القتل قرار دے کر ایس ایم ایس کے ذریعے اس پیغام کو عام کیا گیا۔
پروفیسر شکیل اوج حدیث، فقہ اور سیرت نبوی پروسیع ریسرچ کے حامل تھے اور گزشتہ 19 برس سے جامعہ کراچی سے منسلک تھے۔ ذرائع کے مطابق پروفیسر شکیل بین المسالک ہم آہنگی کی وکالت کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے فتویٰ دیا تھا کہ مسلمان عورتیں غیر مسلم مردوں سے شادی کر سکتی ہیں اور یہ کہ لپ اسٹک یا نیل پالش کے ساتھ بھی خواتین نماز ادا کر سکتی ہیں۔انکے ساتھی استاد اور دیرینہ دوست پروفیسر توصیف احمد خان جو کہ فیڈرل اردو یونیورسٹی میں ابلاغیات کے شعبہ کے چئیرمین ہیں،کا کہنا ہے کہ ہم انہیں محتاط رہنے کا کہتے تھے کیونکہ وہ اپنے روشن خیال نظریات کا اظہار بہت کھل کر کرتے تھے۔ پروفیسر شکیل اسلامیات میں ڈاکٹریٹ کے علاوہ وہ صحافت میں ایم اے اور ایل ایل بی کی بھی ڈگری رکھتے تھے۔
One Response
he was with chairperson of mass communication i.e. ZARAY ABLAAG, not shafat