Laaltain

کراچی سرکلر ریلوے؛ چند سنہری یادیں

18 اگست، 2016
تقریباً دو کروڑ آبادی والا پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی اب تک مناسب پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات سے محروم ہے۔ کراچی کی تیزی سے بڑھتی اپنی آبادی اور پاکستان کے مختلف شہروں سے روزگار کے لئے آنے والے لوگوں میں روز بروز اضافے کے باوجود اس شہر میں رہنے والے شہریوں کو وہ سفری سہولیات میسر نہیں ہیں جو ہونی چاہیئں۔ یوں تو ہر آنے والی حکومتوں نے اس شہر کے ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کئی اعلانات کیے جن میں گرین بس اور میٹرو بس وغیرہ شامل ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی بھی اعلان کردہ منصوبے پر عمل نہیں ہوا یا پھر اگر کسی پر ہوا بھی تو اسے کچھ ہی عرصے بعد ختم کردیا گیا۔ ماضی میں اس شہر میں بہت سی سرکاری بسیں (کے ٹی سی) کے تحت چلتی تھیں جن میں طلبہ کو بھی رعایتی کرائے پر سفری سہولت حاصل تھی لیکن رفتہ رفتہ یہ بسیں بند کر دی گئیں ان بسوں کے ٹرمینلز جنہیں ڈپو کہا جاتا ہے وہ شہر کے کئی مقامات پر اب بھی موجود ہیں۔

 

کراچی سرکلر ریلوے لائن ڈرگ روڈ اسٹیشن سے شروع ہوکر لیاقت آباد سے ہوتی ہوئی کراچی سٹی اسٹیشن پر ختم ہوتی تھی
اسی طرح ماضی میں کراچی میں ریلوے کا مربوط نظام سرکلر ریلوے موجود تھا جس سے اس شہر کو صاف ستھری بہترین سفری سہولت میسر تھی۔ سرکلر ریلوے کا منصوبہ 1969 میں پاکستان ریلوے کی جانب سے شروع کیا گیا تھا جس کے تحت ڈرگ روڈ سے سٹی اسٹیشن تک خصوصی ٹرینیں چلائی گئیں جو نہایت کامیاب رہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس سہولت سے سالانہ ساٹھ لاکھ افراد کو فائدہ پہنچتا تھا۔ عوام میں بے پناہ پذیرائی اور ریلوے نظام کو کافی فائدہ ہونے کی بنا پر اس سروس کی مقبولیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے مزید بہتر بنایا گیا۔ 1970 سے 1980 کے درمیان کراچی سرکلر ریلوے کے تحت روزانہ کی بنیاد پر 104 ٹرینیں چلائی جانے لگیں جن میں سے 24 ٹرینیں لوکل لوپ ٹریک اور 80 مرکزی ٹریک پر چلائی گئیں۔ کراچی سرکلر ریلوے لائن ڈرگ روڈ اسٹیشن سے شروع ہوکر لیاقت آباد سے ہوتی ہوئی کراچی سٹی اسٹیشن پر ختم ہوتی تھی جب کہ پاکستان ریلوے کی مرکزی ریلوے لائن پر بھی کراچی سٹی اسٹیشن سے لانڈھی اور کراچی سٹی اسٹیشن سے ملیر چھاونی تک ٹرینیں چلا کرتی تھیں جن سے سینکڑوں لوگ روز مستفید ہوتے تھے۔

 

لیکن بدقسمتی سے 1992 میں کئی ٹرینیں ریلوے خسارے کی بنیادپر بند کردی گئیں۔ اگر چہ ٹرینیں بند کرنے کی وجہ خسارہ بتائی جاتی ہے لیکن اس وقت کے اخبارات میں چھپنے والی خبروں کے مطابق ایسے افراد کو ریلوے کی وزارتیں سونپ دی گئیں جن کا کاروبار ٹرانسپورٹ سے منسلک تھا۔ کراچی کے پرائیویٹ ٹرانسپورٹ مافیا اور رشوت کے زہر آلود نظام کے اژدھے نے بلاآخر 1999 میں عوامی بھلائی کے اس منصوبے کو مکمل طور پر نگل کر ختم کر دیا۔ بعد میں ہر آنے والی حکومتوں نے اس شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس منصوبے کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے کئی بار فزیبیلٹی رپورٹ تیار کی اور اس کی منظوری ہونے کے باوجود اس منصوبے کو شروع نہ کیا جا سکا۔

 

جاپان کی ایجنسی نے اس منصوبے کے لیے دو ارب چالیس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش کی تھی لیکن نہ جانے کن وجوہات کی وجہ سے ایک بار پھر اس منصوبے کو فائلوں کی نذر کر دیاگیا۔
2005 کے اوائل میں اس وقت ایک امید کی کرن نظر آئی تھی جب جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی نے کراچی سرکلر ریلوے کے لیے آسان شرائط پر قرضہ دینے کی پیشکش کی اور اس پیشکش کی منظوری کی صورت میں اس ایجنسی کے اشتراک سے کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے پر کام شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ جاپان کی ایجنسی نے اس منصوبے کے لیئے دو ارب چالیس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش کی تھی لیکن نہ جانے کن وجوہات کی وجہ سے ایک بار پھر اس منصوبے کو فائلوں کی نذر کر دیا گیا۔ اس کی بھی بنیادی وجہ جو سامنے آئی تھی وہ یہ کہ جاپان نے اس منصوبے میں سرمایہ کاری کو کرپشن سے پاک رکھنے کے لیے اپنی زیر نگرانی سخت مانیٹرنگ سے مشروط کیا تھا اور دوسری شرط یہ رکھی گئی تھی کے اس پچاس کلو میٹر طویل سرکلر ٹریک کے روٹ میں آنے والی ریلوے اراضی پر جو لوگ قابض ہیں انہیں حکومت قبضہ ختم کرنے کے عوض معاوضہ دے یا متبادل اراضی دے۔ جاپان کی طرف سے اس اعلان اور متوقع طور پر 2010 میں یہ منصوبہ شروع ہونے کے امکان کے تحت با اثر شخصیات نے نہ صرف ان ریلوے اراضی پر بڑی تعداد میں لوگوں کو بٹھا دیا بلکہ اندورن سندہ سے آئے ہوئے سیلاب زدگان کو بھی دانستہ طور پر ان زمینوں پر آباد کر دیا تھا۔ ساتھ ہی ٹرانسپورٹ مافیا جسے اس سرکلر ریلوے سروس شروع ہونے سے شہر میں اپنی گرفت کمزور اور اجارہ داری ختم ہوتی نظر آرہی تھی وہ بھی اس منصوبے کی راہ میں مشکلات پیدا کرنے میں متحرک ہو گیا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ مزید آگے بڑھتی ہے یہ بات اس وقت کی ہے جب انڈیا کی وزارت ریلوے لالو پرشاد کے پاس تھی اور انہوں نے انڈیا کے ریلوے نظام میں ایک نئی جان ڈال کر دنیا کو حیران کر دیا تھا لیکن افسوس کے ہمارا ریلوے نظام اس عشرے میں بھی تنزلی کا شکار تھا بجائے اس کے کہ ریلوے نظام پر توجہ دی جاتی اور اسے بہتر کیا جاتا مزید دو اہم ٹرینیں اچانک بند کر دی گئیں۔ یہ ٹرینیں مہران ایکسپریس اور شاہ لطیف بھٹائی ایکسپریس تھیں جو کراچی سٹی اسٹیشن سے میرپورخاص تک دن میں مختلف اوقات میں چلا کرتی تھیں۔ ان ٹرینوں سے حیدرآباد، ٹنڈوجام، ٹنڈوالہیار اور میرپورخاص کے لوگوں کو بہت سہولت تھی۔ اس سہولت کا سب سے زیادہ فائدہ ان ملازمت پیشہ لوگو ں کو تھا جو روزانہ حیدرآباد سے کراچی یا کراچی سے حیدرآباد جایا کرتے تھے کیونکہ ایک ٹرین صبح میرپورخاص سے چلتی تھی کراچی کے لیے اور دوسری اسی وقت کراچی سے چلتی تھی میرپورخاص کے لیے۔

 

ان ٹرینوں کے بندش سے بھی دراصل فائدہ پہنچایا گیا ان ٹرانسپورٹروں کو جن کی کوچز کراچی سے میرپورخاص چلا کرتی ہیں اس بلاگ کو لکھنے کےحوالے سے جب میں نے محکمہ ریلوے کے ایک ریٹائرڈ افسر سے پوچھا کہ سرکلر ریلوےتو بہت عمدہ نظام تھا پھر اسے بند کرنے کی کیا وجہ تھی میرے اس سوال کا جواب انہوں نے کچھ یوں دیا کہ کوئی بھی منصوبہ اس وقت تک ناکام نہیں ہوتا جب تک اسے اس کے اندر سے نقصان نہ پہنچایا جائے۔ کراچی سرکلر ریلوے سے لوگوں نے اس وقت منہ موڑنا شروع کر دیا تھا جب ان ٹرینوں کا تاخیر سے آنا جانا روز کا معمول بن گیا تھا ظاہر ہے ان ٹرینوں میں طالب علم، ملازمت پیشہ افراد اور تاجران کی کثیر تعداد سفر کرتی تھی لیکن جب وہ وقت پر اپنے اداروں میں نہیں پہنچ پاتے تھے تو ان کے لیے یہ سفری سہولت بے فائدہ تھی۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ ٹرینیں کیوں تاخیر کا شکار ہونے لگیں تو انھوں نے بتایا کہ انہیں دانستہ تاخیر سے لایا جاتا تھا جن میں ریلوے کے افسران اور ملازمین ملے ہوئے تھے جنہیں اس کے عوض معاوضہ دیا جاتا تھا۔ گویا یوں کہنا بجا ہو گا کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔

 

جب میں نے ان سے پوچھا کہ ٹرینیں کیوں تاخیر کا شکار ہونے لگیں تو انھوں نے بتایا کہ انہیں دانستہ تاخیر سے لایا جاتا تھا جن میں ریلوے کے افسران اور ملازمین ملے ہوئے تھے جنہیں اس کے عوض معاوضہ دیا جاتا تھا۔
جن لوگوں نے کراچی سرکلر ریلوے سے سفر کیا ہے وہ اس پر لطف سفر سے بخوبی آگاہ ہیں اس سرکلر ریلوے میں ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد سفر کرتے تھے یہاں تک دیکھا جاتا تھا کہ لوگ اپنی کاریں ریلوے اسٹیشن پر پارک کر کے اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے اس سرکلر ریلوے کے سفر کو ترجیح دیتے تھے۔ طالب علم، ملازمت پیشہ افراد، تاجر اور کارباری حضرات نہ صرف روزانہ ٹکٹ لے کر سفر کرتے تھے بلکہ ماہانہ پاس بھی بنوائے جاتے تھے اور ٹکٹ بھی بوگی میں ہی فراہم کر دیئے جاتے تھے۔ صبح کے اوقات میں ان بوگیوں میں وہ منظر دکھائی دیتے تھے کہ جیسے کہ کوئی پوری سوسائٹی ریلوے لائین پر دوڑ رہی ہو۔ خواتین کی بوگیوں میں اسکول و کالج کی بچیاں مطالعہ کرتے ہوئے سفر کرتی تھیں تو ایک بوگی میں لوگ قرآن کی تلاوت کرتے نظر آتے تھے کسی بوگی میں درس قرآن ہو رہا ہوتا تھا، کسی میں سیاسی حالات پر بحث مباحثہ ہورہا ہوتا تھا، کسی بوگی میں اخبارات کا مطالعہ ہو رہا ہوتا تھا تو کسی میں اخبار ات کے ہاکر اخبارات کو ترتیب دے رہے ہوتے تھے۔ اسی طرح شام میں جب لوگ اپنے گھروں کو لوٹتے تھے تو ان ٹرینوں کا منظر کچھ اور ہوتا تھا کسی بوگی میں لوڈو، کسی میں کیرم اور کسی میں تاش کھیلا جا رہا ہوتا تھا، کسی میں غزل کی محفل جمی ہوتی تھی آج کل کے شوشل میڈیا سے وہ شوشل ٹرینوں کے رابطے کہیں زیادہ مضبوط تعلقات کا ذریعہ سمجھے جاتے تھے لیکن افسوس یہ اب ماضی کا حصہ بن چکا۔

 

07 جون 2013 کو سندھ کے وزیراعلی سید قائم علی شاہ نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے 2.6 ملین امریکی ڈالر کے منصوبے کی منظوری دی جس میں کئی نئے اسٹیشن اور ان اسٹیشنوں کے مطابق کئی نئے بس روٹس چلانے کا اعلان بھی کیا گیا لیکن ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ کھٹائی کا شکار ہو گیا اور اب کچھ معلوم نہیں کہ یہ سرکلر ریلوے منصوبہ کبھی بھی پایہ تکمیل تک پہنچ سکے گا یا اس شہر کے لوگ ایک آہ بھر کر ماضی کی اس سنہری یاد کو ہمیشہ ماضی کا ایک خوبصورت باب جان کر ہی یاد کریں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں زرائع نقل و حمل کسی بھی ملک کی ترقی کا ایک اہم ذریعہ ہوتے ہیں اور پوری دنیا میں ذرائع نقل و حمل میں ریلوے کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس حوالے سے گذشتہ دہائی کے دوران تیز رفتار ترقی کرنے والے ممالک کا مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ممالک نے ریلوے نظام اور خاص طور پر سرکلر ریلوے پر بہت زیادہ توجہ دی جن میں چین،بھارت، تھائی لینڈ،ملائیشیاء، انڈونیشیاء، امریکہ، جرمنی، جاپان اور سنگاپور شامل ہیں۔ ان تمام ممالک نے سرکلر ریلوے پر بھر پور توجہ دی جس کی وجہ سے ان ممالک کی ترقی میں اس نقل و حمل کے زرائع نے بہت کلیدی کردار اد کیا جب کہ پاکستان میں بدقسمتی سے اس نظام کو ایک سوچے سمجے منصوبے کے تحت کمزور کیا گیا جو نہ صرف کراچی کے عوام کے لیے تکلیف کا باعث بنا بلکہ وطن عزیز کی ترقی کو بھی نقصان پہنچایا گیا اور یہ عمل تا حال جاری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *