Laaltain

کج فہمیاں

21 جولائی، 2014
آج کا کل
ایک بین الااقوامی کارپوریشن نے صاف آکسیجن فراہم کرنے کا ٹھیکہ لے لیا۔ایک بین الاقوامی قانون کے ذریعے، جس کے تحت منظور شدہ سلنڈر اور ماسک کے بغیر سانس لینا جرم قرار دیا گیا جس کی سزاعمر قید طے پائی۔اب راستوں پر سلنڈر کمروں سے لٹکائے لوگ جابجا نظر آنے لگے ہیں۔ ان ترقیاتی اقدامات کے بعد،عالمی شماریات کے مطابق، ماقشی ترقی میں ایک خوش کن اضافہ کے ساتھ طفیلیوں کا تدارک بھی ممکن ہوا۔

 

“شوق داجاگ پینا بہوں وڈی گل اے”
اس لامتناہی سڑک پر یہ رکشہ ازل سے چل رہا ہے، گھوں گھوں گھوں۔اس میں بیٹھی سواریوں کےوجود میں بھی ازل کی لا متناہی ” گھوں گھوں گھوں” کی آواز گونج رہی ہے۔ ناجانے کب سے یہ سب یوں ہی چل رہا ہے، اور کون جانے کب تک چلتا رہتا۔کہ یکایک سڑک کے ایک جھٹکے سے رکشے کے پرانے ریڈیو کی زنگ آلودہ تاریں آپس میں یوں ملیں کہ برقی لہریں سپیکر سے آواز بن کہ گویا ہوئیں” شوق داجاگ پینا بہوں وڈی گل اے۔”کچھ دیر کو رکشہ رک سا گیا اور پھر ازلی گھوں گھوں گھوں۔۔۔

 

سگریٹ
محمد بخش جب صبح سویرے بیدار ہوا تو وہ ایک سگریٹ میں تبدیل ہو چکا تھا۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس نے اپنے قریب ہی ایک تمباکو نوش کو ہاتھ میں لائیٹر تھامے اپنی طرف للچاتی نظروں سے دیکھتے ہوئے پایا۔ سلگنا ،راکھ ہونااور دھواں ہونا اور ایک ایش ٹرے میں اوندھے منہ غرق کیا جانا ہی نجات ہے، لیکن خیال سے تخیل میں اور تخیل سے کوئی نجات ممکن ہے۔

 

گُجروں کی ریس
بھینسوں کو ہڈیوں تک نچوڑ کے گجر چلے ریس کو، روشنیوں سے سجی اس لمبی، کھردری سڑک پہ۔ رنگلی سواریوں کے درمیان اپنی میلی سکوٹروں پہ سوار دودھ کے سنرہے مٹکوں کے ساتھ
ایک،دو،تین
نصیبو لال کے گیتوں کی لے پر رفتار بڑھاتے
یہ کٹ(Cut)،وہ جمپ(Jump)
یہ اچھلا مٹکا،وہ بہا دودھ
یہ پھسلی سائیکل،وہ ٹکرائی گاڑی
لو ایک گجر بھی ڈھیر ہوا
دودھ کے چشمے پیچھے بہاتا وہ گجر تیر کی طرح نکلا
صبح کے ملگجے اُجالےکی اوٹ میں یہ سڑک دودھ سے سجی ہے، مکھیوں اور حشرارت الارض کی دعوت عام ہے
مگر بھینسیں اپنے استھان پر بندھی ، ویسی ہی سست ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *