یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب کانچ کی شہزادی کو لکڑہارے سے محبت ہو گئی جو پتھر کا تھا۔
ان دنوں شہر میں خودکشی کی وبا پھلی ہوئی تھی۔ یہ وبا ایک نا معلوم دیس سے آئے ہوئے سات رنگوں کے سوداگر نے پھیلائی تھی جو صرف بھوک کا سودا کرتا تھا یا شاید اسے صرف یہی کاروبار کرنا آتا تھا۔ بھوک کے بدلے ہیرے، صرف اس چھوٹی سی شرط پہ کہ ہیرے وہیں سوداگر کے سامنے کھا لیے جائیں گے،کل کے لیے کوئی بچا کے نہیں رکھے گا سستا سودا اور آسان کاروبار۔
اس کاروبار کوسرکار نے خود کشی کی وبا کا نام دیا تھا۔ گلیوں میں ہر طرف ایسے ہی احمق لوگوں کی خوفناک لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ یہ نظارہ خطرناک ثابت ہو سکتا تھا سو شہزادی کے کانچ کے دل کو بچانے کے لیے ملکہ نے اس کو جنگل محل بھیج دیا ۔ شہر سے گزرتے ہوئے وہ کھڑکی سےنہیں جھانک سکتی تھی مگر دریا پہ ایسی کوئی پابندی نہ تھی سو اس نے پتھر کے لکڑہارے کو دیکھا اوراس کے کانچ کا رنگ گلابی ہو گیا۔
ان دنوں شہر میں خودکشی کی وبا پھلی ہوئی تھی۔ یہ وبا ایک نا معلوم دیس سے آئے ہوئے سات رنگوں کے سوداگر نے پھیلائی تھی جو صرف بھوک کا سودا کرتا تھا یا شاید اسے صرف یہی کاروبار کرنا آتا تھا۔ بھوک کے بدلے ہیرے، صرف اس چھوٹی سی شرط پہ کہ ہیرے وہیں سوداگر کے سامنے کھا لیے جائیں گے،کل کے لیے کوئی بچا کے نہیں رکھے گا سستا سودا اور آسان کاروبار۔
اس کاروبار کوسرکار نے خود کشی کی وبا کا نام دیا تھا۔ گلیوں میں ہر طرف ایسے ہی احمق لوگوں کی خوفناک لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ یہ نظارہ خطرناک ثابت ہو سکتا تھا سو شہزادی کے کانچ کے دل کو بچانے کے لیے ملکہ نے اس کو جنگل محل بھیج دیا ۔ شہر سے گزرتے ہوئے وہ کھڑکی سےنہیں جھانک سکتی تھی مگر دریا پہ ایسی کوئی پابندی نہ تھی سو اس نے پتھر کے لکڑہارے کو دیکھا اوراس کے کانچ کا رنگ گلابی ہو گیا۔
ان دنوں شہر میں خودکشی کی وبا پھلی ہوئی تھی۔ یہ وباایک نا معلوم دیس سے آئے ہوئے سات رنگوں کے سوداگر نے پھیلائی تھی جو صرف بھوک کا سودا کرتا تھا یا شاید اسے صرف یہی کاروبار کرنا آتا تھا۔ بھوک کے بدلے ہیرے، صرف اس چھوٹی سی شرط پہ کہ ہیرے وہیں سوداگر کے سامنے کھا لیے جائیں گے،کل کے لیے کوئی بچا کے نہیں رکھے گا سستا سودا اور آسان کاروبار۔
شہزادی نے اپنا یہ رنگ پہلی بار دیکھا تھا اور لکڑہارے نے کانچ کی کوئی چیز پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ دونوں ٹھٹھک گئے، دونوں کو معاملہ سمجھ نہیں آیا ۔ سو شہزادی جنگل محل جا پہنچی اور لکڑہارا اپنے گھر مگر دریا تمام احوال جان گیا۔ وہ پل کےنیچے سے بہا تو دونوں کا ماجرا پل کو بتا دیا، جنگل سے گزرا تو درختوں کو، فارغ پھرتی ہوا کو، جانوروں کو جو پانی پینے آئے تھے، مچھلیوں کو سب سے پہلے۔ حتٰی کہ پانی بھرتی ان لڑکیوں کو بھی جو مٹی کی بنی تھیں اور ہر بار گیلی ہو کے تھوڑی سی دریا میں بہہ جاتی تھیں۔ اب کوئی پوچھے کہ بھلا ان کو کیوں بتایا کہ جب ایک کمہار کا وہاں سے گزر ہوا تو وہ حیران ہوا اوروہ ان کے جسموں کی مٹی بھی سمیٹ لایا۔ اس نے مٹی گوندھ کے نرم کی تو وہ چپ تھی،چاک پہ چڑھائی تو ہر گھڑے اور صراحی نے الگ الگ کہانی سنائی، مگر پکے ہوئے تمام برتن گلابی کانچ کی ایک ہی کہانی سنا رہے تھے ۔
اتنے خوبصورت برتن تومحلوں میں ہونے چاہیں، کمہار نے سوچا اور بادشاہ کے محل سے سوداگر کے گھر تک ان کو کسی پیغام کی طرح پھیلا دیا۔ ہر طرف ایک ہی کہانی گردش کرنے لگی، گلابی کانچ اور پتھر کے لکڑہارے کی۔ یہ گلابی خبر بادشاہ تک پہنچی تو اس کا رنگ غصے سے سرخ پڑگیا۔ اسے بہت مشکل سے ٹھنڈا کیا گیا اور وزیرِ با تدبیر نے ہیرے کے سوداگر کا پتہ بتایا جس کی فراست کا چرچا دور دور تک تھا۔ سوداگر کہ سامنے یہ مسئلہ رکھا گیا تو وہ کچھ دیر چپ رہا اور پھر مسکرا دیا، اس کی مسکراہٹ کا رنگ موت جیسا نیلا تھا۔ سوداگر نےبادشاہ کو مسئلے کا حل تو بتا دیا مگر اس کے بدلے کیا مانگا یہ کسی کو پتا نہیں چل سکا سوائے ہوا کے اور ہوا نے تبھی سے گونگے رہنے کی ٹھان لی سو کوئی کچھ نہ جان سکا۔
بہرحال شہزادی کی طرف شاہی طبیب کو ایک ہیرے کہ دل کے ساتھ روانہ کیا گیا اور لکڑہارے کی طرف سپاہیوں کو۔ قصہ مختصر چند دن بعد شہزادی کی سواری محل واپس جانے کے لیے دریا پر سے گزری تو لکڑہارے کے ٹکڑے پل پر بچھائےجا رہے تھے ۔ شہزادی نے اپنے ہیرے کے مظبوط دل کے ساتھ لکڑہارے کے ٹکڑے پل پر بچھتے دیکھے اور بولی؛ پتھر توڑ کر بچھائے جانے سے راستے بہت آرام دہ ہو جاتے ہیں۔ تب سے اس کے کانچ نے رنگ بدلنا چھوڑ دیا اور تمام پتھروں نے کانچ کے ہر ٹکرے سے بدلہ لینے کی قسم اٹھا لی۔ اسی زمانے سے پتھر اور کانچ کی عداوت چلی آتی ہے اور تبھی سے دریاصرف اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔
اتنے خوبصورت برتن تومحلوں میں ہونے چاہیں، کمہار نے سوچا اور بادشاہ کے محل سے سوداگر کے گھر تک ان کو کسی پیغام کی طرح پھیلا دیا۔ ہر طرف ایک ہی کہانی گردش کرنے لگی، گلابی کانچ اور پتھر کے لکڑہارے کی۔ یہ گلابی خبر بادشاہ تک پہنچی تو اس کا رنگ غصے سے سرخ پڑگیا۔ اسے بہت مشکل سے ٹھنڈا کیا گیا اور وزیرِ با تدبیر نے ہیرے کے سوداگر کا پتہ بتایا جس کی فراست کا چرچا دور دور تک تھا۔ سوداگر کہ سامنے یہ مسئلہ رکھا گیا تو وہ کچھ دیر چپ رہا اور پھر مسکرا دیا، اس کی مسکراہٹ کا رنگ موت جیسا نیلا تھا۔ سوداگر نےبادشاہ کو مسئلے کا حل تو بتا دیا مگر اس کے بدلے کیا مانگا یہ کسی کو پتا نہیں چل سکا سوائے ہوا کے اور ہوا نے تبھی سے گونگے رہنے کی ٹھان لی سو کوئی کچھ نہ جان سکا۔
بہرحال شہزادی کی طرف شاہی طبیب کو ایک ہیرے کہ دل کے ساتھ روانہ کیا گیا اور لکڑہارے کی طرف سپاہیوں کو۔ قصہ مختصر چند دن بعد شہزادی کی سواری محل واپس جانے کے لیے دریا پر سے گزری تو لکڑہارے کے ٹکڑے پل پر بچھائےجا رہے تھے ۔ شہزادی نے اپنے ہیرے کے مظبوط دل کے ساتھ لکڑہارے کے ٹکڑے پل پر بچھتے دیکھے اور بولی؛ پتھر توڑ کر بچھائے جانے سے راستے بہت آرام دہ ہو جاتے ہیں۔ تب سے اس کے کانچ نے رنگ بدلنا چھوڑ دیا اور تمام پتھروں نے کانچ کے ہر ٹکرے سے بدلہ لینے کی قسم اٹھا لی۔ اسی زمانے سے پتھر اور کانچ کی عداوت چلی آتی ہے اور تبھی سے دریاصرف اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔