پاکستان میں جہاں ہزاروں لوگ بھوک اور سیلاب سے مر رہےہیں وہیں عدالتوں اورنظام انصاف نے انسانی جانوں کے ضیاع میں اضافے کے لئے موت کا ہاتھ بٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ 6 برس سے جاری سزائے موت پر غیر رسمی تعطل 18 ستمبر کو اڈیالہ جیل میں شعیب سرور کو پھانسی دینے کے عمل سے ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔گزشتہ اور موجودہ حکومت بارہاطریقہ تفشیش، قانون شہادت اور عدالتی نظام میں کمزوریوں اور خامیوں کا اعتراف کرتےہوئے سزائے موت کے خاتمہ اور متبادل سزاؤں کے نفاذ کا عندیہ دے چکی ہے۔اس سلسلے میں ترجمان وزارت داخلہ عمر حمیدخان 3 اکتوبر 2013میں بین الاقوامی وعدوں کا پاس کرتے ہوئے سزائے موت پر عملدرامد کی معطلی کے فیصلے کو جاری رکھنےکی یقین دہانی کراچکے ہیں، وزارتِ خارجہ بھی 6 دسمبر 2013 کویورپی منڈیوں تک رسائی کے لئے سزائے موت ختم کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکی ہے۔ سابق وزیر اعظم گیلانی جون 2011 جبکہ سابق صدر آصف زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر نومبر 2012 میں سزائے موت ختم کرنے کے لئے ایک بل سینٹ میں پیش کر نے کا اعلان کر چکے ہیں جس پر تاحال عمل نہیں ہو سکا۔ ان وعدوں اور یقین دہانیوں کے بنا پر ہی پاکستان کویورپین یونین جی ایس پی پلس ریاست کا درجہ دیا گیا تھا جس کی بدولت پاکستان کی مصنوعات کو یورپی منڈیوں تک ڈیوٹی فری رسائی حاصل ہوئی اور اس کی بگڑتی معیشت کو سہارا ملا۔
سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کے حوالے سے عالمی اور مقامی سطح کی یقین دہا نیوں کے باوجود شعیب سرور کی سزائے موت پر عملدرآمد کے فیصلے نے حکومت کی موت کی سزاختم کرنے کی یقین دہانیوں پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔چند روز قبل راولپنڈی ہائی کورٹ نے شعیب سرور کے بلیک وارنٹ جاری کرتے ہوئے اسے 18 ستمبر کو پھانسی دینے کا حکم جاری کیا ہے۔ شعیب سرور کو قتل کے الزام میں 1998 میں سزائے موت سنائی گئی تھی اور 18 سال قید میں رہنے کے بعد اس کی موت کی سزا پر عمل درآمد کا حکم جاری کیا گیا ہے۔سزائے موت پر عملدرآمد کے حالیہ فیصلہ سے متعلق اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا گزشتہ 6 برس سے عدالتی نظام کی جن خرابیوں کی بنا پر یہ سزا معطل تھی کیا انہیں دور کر دیا گیاہے؟ کیا ملک میں تفشیش کا نظام ٹھیک ہو گیا ہے؟ کیا پولیس کا محکمہ کرپشن بد عنوانی، اقربا پروری ،سیاسی دھونس اور دھاندلی سے پاک ہو گیا ہے؟ کیا ملک کے نظام انصاف میں اب کوئ سقم نہیں اور کوئی بے گناہ معصوم پھانسی کے تختے پر نہیں چڑھے گا؟
سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کے حوالے سے عالمی اور مقامی سطح کی یقین دہا نیوں کے باوجود شعیب سرور کی سزائے موت پر عملدرآمد کے فیصلے نے حکومت کی موت کی سزاختم کرنے کی یقین دہانیوں پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔چند روز قبل راولپنڈی ہائی کورٹ نے شعیب سرور کے بلیک وارنٹ جاری کرتے ہوئے اسے 18 ستمبر کو پھانسی دینے کا حکم جاری کیا ہے۔ شعیب سرور کو قتل کے الزام میں 1998 میں سزائے موت سنائی گئی تھی اور 18 سال قید میں رہنے کے بعد اس کی موت کی سزا پر عمل درآمد کا حکم جاری کیا گیا ہے۔سزائے موت پر عملدرآمد کے حالیہ فیصلہ سے متعلق اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا گزشتہ 6 برس سے عدالتی نظام کی جن خرابیوں کی بنا پر یہ سزا معطل تھی کیا انہیں دور کر دیا گیاہے؟ کیا ملک میں تفشیش کا نظام ٹھیک ہو گیا ہے؟ کیا پولیس کا محکمہ کرپشن بد عنوانی، اقربا پروری ،سیاسی دھونس اور دھاندلی سے پاک ہو گیا ہے؟ کیا ملک کے نظام انصاف میں اب کوئ سقم نہیں اور کوئی بے گناہ معصوم پھانسی کے تختے پر نہیں چڑھے گا؟
امریکہ کے جدید ترین طریقہ تفتیش اور عدالتی نظام کے باوجود وہاں 1970 سے اب تک 140 معصوم افراد پھانسی کی سزا پا چکے ہیں ، ایسے میں پاکستان کے ناقص عدالتی نظام، بدعنوان پولیس اور قانون میں پائی جانے والی خامیوں کی بناء پر موت کی سزا پر عمل درامد کرنا یقیناً ایک تشویش ناک اور غیر انسانی عمل ہے۔
پاکستانی جیلوں میں سزائے موت کے منتظر کئی قیدیوں کی طرح شعیب سرور کی سزائے موت پر عمل درآمد ایک ہی جرم کی دو سزائیں بھگتنے کے مترادف ہو گا۔شعیب سرور اور سزائے موت کے منتظر بہت سے دیگر قیدی قانونی چارہ جوئی کے طویل عمل ،سست رو عدالتی کاروائی اور اپیلیں کرنے اور پیشیاں بھگتنے کے تھکا دینے والے عمل کے دوران کئی کئی برس جیل میں کاٹ چکے ہیں۔ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک میں کچھ نہیں بدلا آج بھی وہی حالات ہیں جو آج سے چھے سال پہلے تھے تو پھر سزاَئے موت پر عمدرآمد پر غیر رسمی معطلی کے خاتمہ کا کوئی منطقی جواز فراہم کرنا ممکن نہیں۔
ترقی یافتہ ممالک نظام انصاف میں پائے جانی والی خامیوں کی بناء پر موت کی سزا کی جگہ متبادل سزائیں تجویز کر رہے ہیں،۔ ریاست اور نظام انصاف کی چھوٹی سی غلطی محض شبہ کی بنیاد پر کسی بھی شخص کی جان لینے کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکہ کے جدید ترین طریقہ تفتیش اور عدالتی نظام کے باوجود وہاں 1970 سے اب تک 140 معصوم افراد پھانسی کی سزا پا چکے ہیں ، ایسے میں پاکستان کے ناقص عدالتی نظام، بدعنوان پولیس اور قانون میں پائی جانے والی خامیوں کی بناء پر موت کی سزا پر عمل درامد کرنا یقیناً ایک تشویش ناک اور غیر انسانی عمل ہے۔
پاکستان میں سزائے موت کے قیدیوں کی قانونی مدد اور نمائندگی کرنے والے ادارے جسٹس پراجیکٹ پاکستان نے اس فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کا فیصلہ سمجھ سے بالا تر ہے ایک طرف تو حکومت کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ سزائے موت کے قانون کو ختم کرنے جا رہی ہے اور اسی کی بدولت دوسرے ممالک سے مراعات اور امداد لے رہی ہے دوسری طرف اس قسم کا فیصلہ آنے کے باوجود حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا اور نہ ہی وہ اس فیصلے کے خلاف اپنا کوئی کردار ادا کرتی نظر آرہی ہے۔انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں جیسے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی سزائے موت پر عمدرآمد روکنے کی درخواست کی ہے۔ اس فیصلے نے نہ صرف حکومت کے سزائے موت کی سزا ختم کرنے کے عہد اور یقین دہانیوں کا بھرم توڑا ہے بلکہ اس سے مستقبل میں ملک کے معاشی اور اقتصادی حالات پر برے اثرات بھی مرتب ہوں گے۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان جیسے انسانی حقوق کے اداروں کی تجویز کے مطابق حکومت کو سزائےموت پر عمل درآمد روکنے کے لئے قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے ملکی اور بین الاقوامی معاہدوں، وعدوں اور انسانی حقوق کے عالمی اعلامیوں کا تقاضہ ہےکہ فی الفور اس فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے شعیب سرورسمیت پاکستان کی جیلوں میں قید ان 8500 افراد کی سزائے موت معطل کرنے کے لئِے قانونی جواز فراہم کرے وگرنہ شعیب سرور کی سزا کال کوٹھڑیوں میں کئی کئی سالوں سے پڑے ہزاروں افراد کے لئے موت کا دروازہ کھول دے گی۔
ترقی یافتہ ممالک نظام انصاف میں پائے جانی والی خامیوں کی بناء پر موت کی سزا کی جگہ متبادل سزائیں تجویز کر رہے ہیں،۔ ریاست اور نظام انصاف کی چھوٹی سی غلطی محض شبہ کی بنیاد پر کسی بھی شخص کی جان لینے کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکہ کے جدید ترین طریقہ تفتیش اور عدالتی نظام کے باوجود وہاں 1970 سے اب تک 140 معصوم افراد پھانسی کی سزا پا چکے ہیں ، ایسے میں پاکستان کے ناقص عدالتی نظام، بدعنوان پولیس اور قانون میں پائی جانے والی خامیوں کی بناء پر موت کی سزا پر عمل درامد کرنا یقیناً ایک تشویش ناک اور غیر انسانی عمل ہے۔
پاکستان میں سزائے موت کے قیدیوں کی قانونی مدد اور نمائندگی کرنے والے ادارے جسٹس پراجیکٹ پاکستان نے اس فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کا فیصلہ سمجھ سے بالا تر ہے ایک طرف تو حکومت کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ سزائے موت کے قانون کو ختم کرنے جا رہی ہے اور اسی کی بدولت دوسرے ممالک سے مراعات اور امداد لے رہی ہے دوسری طرف اس قسم کا فیصلہ آنے کے باوجود حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا اور نہ ہی وہ اس فیصلے کے خلاف اپنا کوئی کردار ادا کرتی نظر آرہی ہے۔انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں جیسے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی سزائے موت پر عمدرآمد روکنے کی درخواست کی ہے۔ اس فیصلے نے نہ صرف حکومت کے سزائے موت کی سزا ختم کرنے کے عہد اور یقین دہانیوں کا بھرم توڑا ہے بلکہ اس سے مستقبل میں ملک کے معاشی اور اقتصادی حالات پر برے اثرات بھی مرتب ہوں گے۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان جیسے انسانی حقوق کے اداروں کی تجویز کے مطابق حکومت کو سزائےموت پر عمل درآمد روکنے کے لئے قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے ملکی اور بین الاقوامی معاہدوں، وعدوں اور انسانی حقوق کے عالمی اعلامیوں کا تقاضہ ہےکہ فی الفور اس فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے شعیب سرورسمیت پاکستان کی جیلوں میں قید ان 8500 افراد کی سزائے موت معطل کرنے کے لئِے قانونی جواز فراہم کرے وگرنہ شعیب سرور کی سزا کال کوٹھڑیوں میں کئی کئی سالوں سے پڑے ہزاروں افراد کے لئے موت کا دروازہ کھول دے گی۔
Leave a Reply