نہ تو میرا باپ کوئی مشہور اداکار ہے نہ ہی میں سپریم کورٹ سے اپنا لائسنس معطل کروانے والا وکیل ہوں، نہ ہی میں مشرف اور بلاول کا مشیر اور تیسرے درجے کا وکیل رہا ہوں نہ ہی میں اشتہارسازی کی دنیا کا گرو یا کسی فلم کا ہدایت کار ہوں شاید اسی لیے مجھے صحافی بننے کا کوئی حق نہیں۔ مجھے اپنے سینئرز سے اپنے یونیورسٹی کے اساتذہ سے بہت گلا ہے ،انہوں نے مجھے کامران شاہد، بابر اعوان، فواد چوہدری، مبشر لقمان اور شاہد مسعود، شاہ زیب خانزادہ ، فریحہ ادریس، مہر بخاری یا منزہ جہانگیر کی طرح کا صحافی بننے کا طریقہ نہ پڑھایا نہ سکھایا۔ یہ نام نہاد صحافی جو اینکر بن کر ہم پر اچانک مسلط کر دیئے گئے ہیں اور اب ذرائع ابلاغ پر راج کر رہے ہیں نجانے انہیں ان کے اساتذہ کیا گھول کر پلاتے رہے ہیں کہ یہ راتوں رات ٹی وی سکرینوں پر قابض ہو گئے ہیں۔ جب ہم یونیورسٹی میں پڑھتے تھے تو بریگیڈئیر ریٹائرڈ صولت رضا ہمارے شعبہ ابلاغ عامہ کےسربراہ تھے۔ وہ ہمیں اہم انگریزی اوراردو روزنامے پڑھ کر آنے کا درس دیتے رہے، ہمیں محنت، دیانتداری اورلگن سے رپورٹنگ کرنے کی تلقین کرتےرہے۔ وہ ہمیں خبر اور رائے میں فرق سمجھاتے رہے، افواہوں کی بجائے مصدقہ اطلاعات تک رسائی کا درس دیتے رہے اور زرد صحافت سے بچنے کی تلقین کرتے رہے۔ نجانے ہمارے اساتذہ ہمیں کیسی صحافت پڑھاتے رہے کہ ہم صحافی نہیں بن سکے اور یہ لوگ راتوں رات صحافی بن گئے، صرف صحافی نہیں بلکہ اعلیٰ پائے کے صحافی۔
اساتذہ ہمیں پارلیمانی رپورٹنگ، سیاسی رپورٹنگ، کرائم رپورٹنگ، اقتصادی رپورٹنگ اور سپورٹس رپورٹنگ کے اسرارورموز سکھاتے رہے لیکن ہمیں اگر نہیں سکھایا گیا تو یہ کہ میڈیا مالکان کے قریب کیوں کر ہوا جاتاہے، کس طرح راتوں رات اینکر بن کر مسلط ہونا ہے
ہمیں متین حیدر صاحب رپورٹنگ پر لمبے لمبے لیکچر دیتے رہے، ہمارے اساتذہ ہمیں پوری دنیا کے سربراہان مملکت کے نام یاد کرنے اور حالات حاضرہ سے واقف رہنے کی عادت ڈالنے کی کوشش کرتے رہے، دوران تعلیم صحافتی اخلاقیات ، تاریخ اور تحاریک کی تکرار نے ہمیں پاگل کر دیا، اساتذہ ہمیں پارلیمانی رپورٹنگ، سیاسی رپورٹنگ، کرائم رپورٹنگ، اقتصادی رپورٹنگ اور سپورٹس رپورٹنگ کے اسرارورموز سکھاتے رہے لیکن ہمیں اگر نہیں سکھایا گیا تو یہ کہ میڈیا مالکان کے قریب کیوں کر ہوا جاتاہے، کس طرح راتوں رات اینکر بن کر مسلط ہونا ہے، ہمیں نہیں بتایا گیا کہ کس طرح میڈیا مالکان اور سیٹھوں کے اشاروں پر ناچنا ہے ، ہمیں یہ نہیں پڑھایا گیا کہ کس طرح اشتہاروں کے حصول کے لیے رپورٹنگ کرنی ہے ہمیں نہیں بتایا گیا کہ مالکان کے مفادات کے لیے دن رات ایک کرنا کیا ہوتا ہے۔
ہمیں شاید سبھی کچھ غلط پڑھایا گیاہے۔ ہمیں واٹر گیٹ سکینڈل، ریسرچ اینڈ میڈیا ہسٹری ، ضابطہ اخلاق اور پتہ نہیں کیا کچھ پڑھایا جاتا رہا پھر ہمیں بتایا گیا کہ رپورٹنگ کرنی ہے تو کسی نیوز ایجنسی میں چار پانچ سال جوتے گھساو پھر جا کر کچھ سمجھ آ ئے گی۔ ٹی وی، اخبارات اور کتابوں کو اپنا اوڑھنا بجھونا بناو پھر کہیں جا کرصحافی ہونے کی ابتدائی اہلیت پر پورا اترو گے۔ ہم بھی لگے رہے پاگلوں کی طرح پہلے نیوز ایجنسی میں جوتے گھسائے، تین چار سال بعد ایک اخبار ایکسپریس میں ملازمت کی اور پھر کبھی کوئی اخبار تو کبھی کوئی ۔۔۔ جوانی اجاڑنے اور خون جلانے کے بعد پتہ چلا کہ ہمیں غلط پڑھایا گیا تھا، حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں فہرست دے دی جاتی ہے کہ یہ بیس ادارے ہمیں اشتہارات نہیں دیتے ان کے خلاف خبریں لے کر آو۔ ایک دو اداروں کے بارے میں مل گئیں تو کہا گیا جیسے بھی ہو بس ان کے خلاف خبریں چاہیں، کہیں سے بھی لاو کچھ بھی کرو، خود سے گھڑو مگر خبر لے کر آو اور روزانہ کی بنیاد پر لاو۔ جیسے تیسے اپنا ضمیر مارے کام کرتے رہے۔ جب کبھی کسی ادارے میں کچھ ذرائع بنے اور صحیح معنوں میں خبریں ملنے لگیں تو ہمیں کہا گیا کہ بس اب اس ادارے کے خلاف خبریں نہیں لانی انہوں نے اشتہارات دینا شروع کر دیئے ہیں۔ ایک دفعہ تو حیرت ہوئی کہ وہ مدیر صاحب جو دفتر میں دو منٹ بیٹھنے نہیں دیتے تھے کہ "ان اداروں” کی خبریں لے کر آو مجھے کہتے ہیں کہ کیا روز خبریں روز خبریں دے رہے ہوتے ہو کچھ دن آرام کرو گاوں کا چکر لگاآو۔
جوانی اجاڑنے اور خون جلانے کے بعد پتہ چلا کہ ہمیں غلط پڑھایا گیا تھا، حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں فہرست دے دی جاتی ہے کہ یہ بیس ادارے ہمیں اشتہارات نہیں دیتے ان کے خلاف خبریں لے کر آو۔
پاکستان میں صحافت پتہ نہیں کیسے، کس کے ذریعے اور کس کے لیے ہے ، صحافت اور یہ صحافی پتہ نہیں کس طرح اورکس ضمیر کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ یہی ضمیر فروش صحافی ٹھیک ہوں۔ ایک دن ٹی وی پر بابر اعوان صاحب فرما رہے تھے کہ اب میں جو خبر دینے لگا ہوں یہ سن کر عوام کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے اور رائے ونڈ کے محلوں میں زلزلہ آ جائے گا میں نے آواز اونچی کی اور دیگر تمام رپورٹر اور سب ایڈیٹر بھی متوجہ ہوئےکہ بابر اعوان صاحب کوئی بہت بڑا انکشاف کرنے لگے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ انہیں کسی بہت خاص بندے نے بتایا ہے کہ رائے ونڈ میں کتنے پولیس اہلکار پروٹوکول ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ یہ سنتے ہی پورا رپورٹنگ روم اور نیوز روم ہنسنے لگا کیوں کہ یہ خبر اسی روز دنیا اخبار کے پہلے صفحے پر تین کالم میں شائع ہوئی تھی۔ لیکن وہ کر سکتے ہیں وہ بہت کمال "صحافی” ہیں پتہ نہیں ان میں ایسی کیا خوبی ہے کہ وہ اچانک ہی وکیل سے تجزیہ نگار بن گئے۔
پاکستان میں صحافت کی تمام درسگاہوں میں آئندہ صحافت نئی طرز پرپڑھائی جانی چاہیئے،اساتذہ کو چاہیے کہ راتوں رات صحافی بننے کے مجرب نسخے بتا ئیں، افواہوں کو مصدقہ خبر قرار دینے کے گر سکھائیں اور میڈیا مالکان کی جی حضوری کے لیے ذہن سازی کریں
پاکستان میں صحافت کی تمام درسگاہوں میں آئندہ صحافت نئی طرز پرپڑھائی جانی چاہیئے،اساتذہ کو چاہیے کہ راتوں رات صحافی بننے کے مجرب نسخے بتا ئیں، افواہوں کو مصدقہ خبر قرار دینے کے گر سکھائیں اور میڈیا مالکان کی جی حضوری کے لیے ذہن سازی کریں۔ بہتر ہے کہ صرف انہی افراد کو اس مضمون کی تعلیم دی جائے جو سیاسی پشت پناہی یا متنازعہ ماضی کے حامل ہوں تاکہ انہیں صحافت کی سوجھ بوجھ کے بغیر بھی راتوں رات معروف تجزیہ نگار کے تخت پر بٹھایا جاسکے۔ صحافت کے طلبہ کو آزادی اظہاررائے، صحافتی اخلاقیات اور رپورٹنگ کی تعلیم کی بجائے میڈیا مالکان کے مفادات کا تحفظ کرنا سکھایا جائے تو کئی ایک کا مستقبل برباد ہونے سے بچ سکتا ہے۔ میڈیا مالکان کے قریب اور ان کا پسندیدہ رہنے کا گُر اگر بتایا جائے تو عملی زندگی میں کامیاب ہونے والے طلبہ کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔محنت کی بجائے کوئی ایسا وظیفہ بتا دیا جائے جسے پڑھ کر اینکر، کالم نویس، تجزیہ نگار، مبصر اور بوقت ضرورت صحافی بننے میں آسانی ہو۔

4 Responses

  1. hamid

    very well written article by Mr. Azmat. The institutional landscape of journalism has certainly changed and sadly for worse.

    جواب دیں
  2. Mamtaz Hussain Gohar

    I also remind my past and present as well. Very well written and eye opening. Thanks for this masterpiece.

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: