انسان اور کائنات سہ جہتی ہیں لیکن انسان جب بھی کسی شئے کو دیکھتا ہے تو دو ڈائمنشنز کی صورت میں ہی دیکھتا ہے لیکن دماغ ایک اضافی جہت ظاہر کرتا ہے
عموماً انسان اگر کسی چیز کو جان لے تو اس کا تجسس ختم نہ بھی ہو تو کم ضرور ہو جاتا ہے لیکن کائنات اس قدر پراسرار ہے کہ اس کے بارے میں ہمارے علم میں جس قدر اضافہ ہو رہا ہے ، اس کی پراسرایت اور راز و رموز بھی اتنے ہی بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ جیسے ہی کسی شے کا مشاہدہ کرتا ہے اس کی شکل اور ماہیت کو سمجھنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے، اسی جذبے کہ تحت انسان کائنات میں متعامل قوانین اور کائنات کی ماہیت کو سمجھنے میں لگ گیا۔ اس کھوج میں کائنات کی مختلف جہتوں کو دریافت کیا گیا ہےـ سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ کسی وجود کی جہت (Dimension) سے کیا مراد ہے؟
آسان زبان میں جس وجود کی کوئی پیمائش(measurement) ہو اسے اس کی جہت کہیں گے، کائنات میں تمام اجسام کا آغاز ایک نقطہ سے ہوتا ہے نقطے سے ایک خط (line) اور پھر دوسری شکلیں مثلاً دائرے ، بیضوی(elliptical) اجسام تخلیق ہوتے ہیںـ ایک نقطہ کی کوئی جہت یا سمت نہیں ہوتی جیسے ہی دو نقطے لگا دیے جائیں اور ان کے درمیان ایک خط کھینچ دیا جائے تو ایک جہت (یعنی صرف لمبائی) وجود میں آ جاتی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دو نقطوں کہ درمیان لا محدود نقطے لگائے جاسکتے ہیں اسی کو ریاضی میں اعدادی خط (Number or Real Line) کہا جاتا ہے۔ جوں ہی دو نقطے اور لگائیں جاتے ہیں ایک دوسرا خط بن جاتا ہے اور اس خط کو پہلے خط سے جوڑ دیا جائے تو لمبائی کہ ساتھ چوڑائی بھی بن جاتی ہے اور ایک دو جہتی وجود مکمل ہوجاتا ہے، یہ دو خط جہاں ایک دوسرے کو ملتے ہیں اسے مرکز (Origin) کہتے ہیں مرکز کہ بائیں جانب منفی اعداد اور دائیں جانب مثبت اعداد ہوتے ہیں اور ان دو خطوط کو ریاضی کی زبان میں x ایکسز (abscissa) اور y ایکسز (ordinate) کہا جاتا ہےـ
آئن سٹائن نے اپنے نظریہ اضافت(theory of relativity) کہ ذریعے اس تصور کو غلط ثابت کر دیا اور زمان و مکان کو ایک اضافی (relative) وجود پیش کیا جو کہ قابل تغیر ہے اور کشش ثقل بھی اسی زمان و مکان کے جھول کا نام ہے
قابلِ غور بات یہ ہے کہ ہر نچلی جہت اپنے سے اوپر والی جہت کا صحیح ادراک نہیں رکھتی اگر آپ ایک کاغذ لیں جو کہ دو جہتی ہے اور اس پر ایک دو جہتی مخلوق (Flat landers ) گھوم رہی ہو جن کی کائنات دو سمتوں پر مشتمل ہے، تو جیسے ہی آپ اپنی انگلی اس صفحے پر رکھیں گے تو اس مخلوق کو صرف ایک دائرہ نظر آئے گا جبکہ اصل میں ایسا نہیں ہےـ صفحات پر جتنی بھی انسانی یا دوسری شکلیں بنائی جاتی ہیں سب اسی کی مثال ہیں اس کے ساتھ ساتھ مربع (square) بھی صرف لمبائی اور چوڑائی پر مشتمل ہوتا ہے لیکن اگر ہم ایسا کریں کہ دو مربعوں کو آپس میں جوڑ دیں جیسا کہ ہم بچپن میں دو ڈبوں کو اوپر نیچے جوڑتے تھے تو ایک نئی شکل بنے گی لیکن یہ دو جہتی نہیں ہوگی اب ان دو ایکسز کہ بعد ایک تیسرا ایکسز بھی وجود میں آ جائے گا اور ان تین جہات پر مبنی جسم کی لمبائی اور چوڑائی کے ساتھ ساتھ اونچائی یا گہرائی بھی ہوتی ہے جیسے مکعبـ تمام مادی کائنات سہ جہتی ہی ہے ( وقت کو نکال کر ) بذات خود انسان ایک سہ جہتی مخلوق ہے یہاں ایک دلچسپ بات ہے کہ یہ نظریہ بھی پایا جاتا ہے کہ انسان اور کائنات سہ جہتی ہیں لیکن انسان جب بھی کسی شئے کو دیکھتا ہے تو دو ڈائمنشنز کی صورت میں ہی دیکھتا ہے لیکن دماغ ایک اضافی جہت ظاہر کرتا ہے اس کی مثال سادہ سی ہے کہ انسان آنکھ کہ آگے انگلی رکھے جب کہ دوسری آنکھ بند ہو اور اسی طرح پہلی بند کرکے دوسری سے دیکھے تو دو مختلف تصاویر بنے گیں جس میں دماغ نے خود ایک اضافی جہت کو تخلیق کیا ہوگاـ بنیادی طور پر یہی جہتیں ہیں لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی جیسے شاعر نے کہا تھا کہ
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شائد
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
اور کہانی آگے اس طرح بڑھتی ہے کہ اگر دو کیوبز کو آپس میں جوڑا جائے تو ایک ہائپر کیوب بنے گا جسے ریاضی کہ اعتبار سے چوتھی جہت کہا جاتا ہے ، جبکہ طبیعات میں زمان(time) کو چوتھی ڈائمنشن سمجھا جاتا ہے اور اس کی وضاحت آئن سٹائن کا نظریہ اضافت کرتا ہے کیونکہ کلاسیکل طبیعات میں زمان و مکان کو ناقابل تغیر مطلق (Absolute)حقیقت سمجھا جاتا تھا مگر آئن سٹائن نے اپنے نظریہ اضافت(theory of relativity) کہ ذریعے اس تصور کو غلط ثابت کر دیا اور زمان و مکان کو ایک اضافی (relative) وجود پیش کیا جو کہ قابل تغیر ہے اور کشش ثقل بھی اسی زمان و مکان کے جھول کا نام ہے، اس طرح اسپیس (Space) کی تین اور وقت کی جہت کو ملا کر اسپیس ٹائم کہا گیا اور یوں اسپیس ٹائم فیبرک بن گیا جس نے جدید طبعیات میں اہم کردار ادا کیا طبیعات میں اب تک مزید چھ یعنی کُل دس جہتوں کا مفروضہ (hypothesis) سٹرنگ تھیوری کہ ذریعے پیش کیا ہے لیکن یہ اب تک صرف ایک مفروضہ ہی ہے اور اس کی تجرباتی حقیقت اب تک ثابت نہیں ہوسکیـ