ارسطو کا نام قدیم یونان کے معلم اول کےطور پرمشہورہے۔ سائنس اور فلسفے کے جملہ علوم پر دسترس رکھنے والا یہ فلسفی بلاشبہ زمانہ قدیم و جدید کا سب سے بڑا عالم سمجھا جاتا ہے، طبیعات کی پہلی باقاعدہ کتاب بھی ارسطو ہی سے منسوب ہے۔ اس کتاب میں اس نے طبیعات کے اصول دریافت کرنے پر جامع بحث کی ہے۔ ارسطو ہی نے طبیعات کو”فطرت کے مطالعہ” کا نام دیاہے۔ اس کتاب سے ہمیں ایک طبیعات دان کی تحقیق اور مقصد تحقیق کا شعور ملتا ہے۔ ارسطو لکھتا ہے؛
"اشیاء کی حقیقت اور تعداد پربحث کرنے والے تحقیق کرتے ہیں کہ جملہ اشیاء کی حتمی حقیقت واحد ہے یا کہ جمع اور اگر جمع ہے تو کیا محدود ہے یا لا محدود ہے”
دیموقراطیس بھی ارسطو ہی کی طرح قدیم یونان کا مشہور فلسفی گزرا ہے جس نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ کائنات کی تمام اشیاء ایک ہی جیسے ذرات سے مل کر بنی ہیں جن کومزید تقسیم نہیں کیا جاسکتا، اس نے اس ذرہ کو ایٹم کا نام دیا۔ دیموقراطیس کے مطابق اشیاء کی ساخت اور صورت میں اختلاف انہی ایٹموں کی باہم تشکیل میں مختلف ترتیب کے باعث ہے۔ اس ناقابل تقسیم ذرہ کا نظریہ طبیعات کی تاریخ میں سینکڑوں سالوں تک درست مانا جاتا رہا ہے شاید اسکی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ انسان کا ذہن ایک سادہ، مکمل اور ناقابل تقسیم حقیقت کو بآسانی قبول کرتا ہے۔
"اشیاء کی حقیقت اور تعداد پربحث کرنے والے تحقیق کرتے ہیں کہ جملہ اشیاء کی حتمی حقیقت واحد ہے یا کہ جمع اور اگر جمع ہے تو کیا محدود ہے یا لا محدود ہے”
دیموقراطیس بھی ارسطو ہی کی طرح قدیم یونان کا مشہور فلسفی گزرا ہے جس نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ کائنات کی تمام اشیاء ایک ہی جیسے ذرات سے مل کر بنی ہیں جن کومزید تقسیم نہیں کیا جاسکتا، اس نے اس ذرہ کو ایٹم کا نام دیا۔ دیموقراطیس کے مطابق اشیاء کی ساخت اور صورت میں اختلاف انہی ایٹموں کی باہم تشکیل میں مختلف ترتیب کے باعث ہے۔ اس ناقابل تقسیم ذرہ کا نظریہ طبیعات کی تاریخ میں سینکڑوں سالوں تک درست مانا جاتا رہا ہے شاید اسکی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ انسان کا ذہن ایک سادہ، مکمل اور ناقابل تقسیم حقیقت کو بآسانی قبول کرتا ہے۔
"اشیاء کی حقیقت اور تعداد پربحث کرنے والے تحقیق کرتے ہیں کہ جملہ اشیاء کی حتمی حقیقت واحد ہے یا کہ جمع اور اگر جمع ہے تو کیا محدود ہے یا لا محدود ہے”
مگر وہ حقیقت اولی جسکی تلاش میں تمام علوم و عالم سرگرداں ہیں اتنی سادہ قرار نہیں دی جا سکتی۔ وقت نے ثابت کیا کہ ایٹم ناقابل تقسیم نہیں ہے اور یہ حققیت آج ہرکس و ناکس کو معلوم ہے کہ ایٹم بذات خود قابل تقسیم ہے۔ سن 1897ء میں جے جے تھامسن نامی سائنسدان نے اس ہزار سالہ نظریہ کو یکسر تبدیل کر دیا جب اس نے کیتھوڈ شعاؤں پر تجربہ کرتے ہوئے الیکٹران نامی ذرہ دریافت کیا۔ یہ نیا ذرہ الیکٹران دراصل ایٹم ہی کے اندر پایا جاتا ہے۔ اس تجربے سے ایٹم کے سادہ اور ناقابل تقسیم ہونے کا نظریہ باطل قرارپایا۔جے جے تھامسن کے بعد مزیدسائنسدانوں نے ایٹم پر تجربات کا آغاز کیا اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے نئے ذرات بھی دریافت ہوتے گئے اور اس کے ساتھ ہی طبیعات میں ایک نئی شاخ کا آغاز ہوا جس کا نام "ذراتی طبیعات”(Particle Physics) رکھا گیا ہے۔طبعیات کے علم میں تحقیق سے اشیاء کی حقیقت اور کائنات کی ماہیت کو سمجھنے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔
اکیسویں صدی کے آغاز تک ذراتی طبیعات نے کائنات کا نقشہ یوں کھینچا ہے: کائنات اپنی ساخت کے اعتبار سے دو قسم کے ذرات سے ملکر بنی ہے، ایک قسم مادے کے ذرات ہیں اور دوسرے وہ ذرات ہیں جو مادے کے درمیان تعلق کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق اس وقت 24 مادی ذرات ہیں (جن میں سے 12 ذرات عام مادہ کے ہیں اور باقی 12 ذرات ضد مادہ یا اینٹی میٹر کے ہیں)۔ اسی طرح چار قوتیں ہیں جو مادے کے مختلف ذرات کے مابین تعلقات کو واضح کرتی ہیں۔ ان چار قوتوں کی تفصیل یہ ہے:
کشش ثقل (Gravity)کی قوت جو مختلف اجسام کی کمیتوں کی بنا پر پیدا ہوتی ہے اور کمیتوں کے حساب سے بڑھتی ہے نیز اجسام کے ایک دوسرے کے نزدیک ہونے پر زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو نظام شمسی کے سیاروں کو سورج کے گرد گھومنے پر مجبور کرتی ہے نیز اشیاء کا زمین پر گرنا بھی اسی کے باعث ہے۔
اکیسویں صدی کے آغاز تک ذراتی طبیعات نے کائنات کا نقشہ یوں کھینچا ہے: کائنات اپنی ساخت کے اعتبار سے دو قسم کے ذرات سے ملکر بنی ہے، ایک قسم مادے کے ذرات ہیں اور دوسرے وہ ذرات ہیں جو مادے کے درمیان تعلق کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق اس وقت 24 مادی ذرات ہیں (جن میں سے 12 ذرات عام مادہ کے ہیں اور باقی 12 ذرات ضد مادہ یا اینٹی میٹر کے ہیں)۔ اسی طرح چار قوتیں ہیں جو مادے کے مختلف ذرات کے مابین تعلقات کو واضح کرتی ہیں۔ ان چار قوتوں کی تفصیل یہ ہے:
کشش ثقل (Gravity)کی قوت جو مختلف اجسام کی کمیتوں کی بنا پر پیدا ہوتی ہے اور کمیتوں کے حساب سے بڑھتی ہے نیز اجسام کے ایک دوسرے کے نزدیک ہونے پر زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو نظام شمسی کے سیاروں کو سورج کے گرد گھومنے پر مجبور کرتی ہے نیز اشیاء کا زمین پر گرنا بھی اسی کے باعث ہے۔
: کائنات اپنی ساخت کے اعتبار سے دو قسم کے ذرات سے ملکر بنی ہے، ایک قسم مادے کے ذرات ہیں اور دوسرے وہ ذرات ہیں جو مادے کے درمیان تعلق کی نمائندگی کرتے ہیں۔
برقی مقناطیسیت (Electromagnetic)کی قوت وہ قوت ہے جو برقی بہاؤ اور مقناطیسیت کے مظاہر کے باعث پائی جاتی ہے۔ تمام قسم کے ذرات جو برقی بار(Electronic Charge) کے حامل ہوں ان کے درمیان یہ قوت موجود ہوتی ہے۔ یہی قوت ایٹم میں موجود الیکٹران اور نیوکلیئس (جو کہ پروٹان اور نیوٹران ذرات کی ایک گٹھلی ہے جو ایٹم کے مرکز میں ہوتی ہے) کو آپس میں باندھے رکھتی ہے۔ ایک طرح سے یہ قوت زندگی کے تمام مظاہر میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ اسلئے کچھ سائنسدان اسے زندگی کی قوت بھی گردانتے ہیں۔
کمزور نیوکلیائی قوت (Weak Nuclear Force)وہ قوت ہے جو نیوکلیئس یا ایٹم کے مرکزے کے اندر ہونے والے مظاہر کی وضاحت کرتی ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ نیوکلیئس کے اندر صرف پروٹان اور نیوٹران ہی موجود ہوتے ہیں جبکہ بعض تجربات سے پتا چلتا ہے کہ الیکٹران بھی نیوکلیئس کے اندر سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس مظہر کے دوران جو قوت درکار ہوگی وہ کمزور نیوکلیائی قوت کہلاتی ہے۔
مضبوط نیوکلیائی قوت(Strong Nuclear Force) کسی بھی ایٹم کے مرکزے یا نیوکلیئس کی بقا کے لیے لازم ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ نیوکلیئس کے اندر پروٹان موجود ہیں اور یہ کہ پروٹان ایک برقی بار(Electric Charge) کا حامل ذرہ ہے۔ اگر دو ایک جیسا برقی بار رکھنے والے ذرات قریب لائے جائیں تو ان میں برقی قوت دفعہ(Push) جنم لیتی ہے۔ بھاری عناصر کے نیوکلیئس میں ایک سے زیادہ پروٹان بھی موجود ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے انتہائی قریب ہیں جسکی وجہ سے برقی مقناطیسیت کی قوت غالب آجاتی ہے اور یوں خطرہ ہے کہ نیوکلیئس پھٹ پڑے گا اور یوں ایٹم فنا ہوجائے گا۔ اس مسئلے کے حل کے طور پر نیوکلیئس کے اندریہ مضبوط قوت جنم لیتی ہے جو نیوکلیئس کو پھٹنے سے روکتی ہے۔
گویا یہ چار قوتیں طبیعات میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں جن سے مادے کے مابین تعلق قائم ہوتا ہے۔ ان چاروں قوتوں کے ساتھ بھی کچھ ذرات منسلک ہیں جنہیں پیغام رساں ذرات کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اسطرح یہ کل 28 بنیادی ذرات بنتے ہیں جن میں سے 24 مادی ذرات اور 4 قوتوں والے ذرات کہلاتے ہیں۔ لیکن انسان کی تحقیق ان تمام ذرات اور قوتوں کی دریافت پر ختم نہیں ہوتی اور یوں انسان کا ازلی خواب ادھورا رہ جاتا ہے کہ جس کے مطابق انسان پوری کائنات کو ایک مکمل اور جامع انداز میں ایک واحد نظریے کے تحت سمھجنا چاہتا ہے۔
کائنات کی تمام اساسی قوتوں کی یکجائیت سے جو نیا نظریہ سامنے آئے گا اسے سائنسدان اساسی قوتوں کی یکجائیت (Unification of Forces)کانام دیتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق فطرت میں پائی جانے والی چاروں اساسی قوتیں کسی ایک ہمہ گیر قوت کا مختلف درجات میں اظہار ہے۔ کائنات کے آغاز میں یہ تمام قوتیں باہم متصل رہی ہوں گی اور پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا اور کائنات ٹھنڈی ہوتی گئی تو یہ قوتیں الگ الگ روپ اختیار کرتی گئی ہوں گی لیکن ہم دوبارہ ان قوتوں کو بطور ایک واحد قوت کے سمجھ سکتے ہیں۔ اساسی قوتوں کی یکجائیت کا تصور اسی وقت سے موجود ہے جب پہلی دفعہ برقیات اور مقناطیسیت کو یکجا کرنے کیلئے فیراڈے اور پھر میکسول نے کوششیں شروع کر دی تھی۔
سب سے پہلے برقی قوت اور مقناطیسی قوت کو یکجا کیا گیا یعنی یہ ثابت ہوا کہ برقی بہاؤ کے نتیجے میں بھی مقناطیسیت کا مظہر دیکھا جاسکتا ہے، اسی طرح مقناطیسی میدان میں ہلچل کے باعث برقی بہاؤ کا پیدا ہوجانا بھی مشاہدے میں آیا۔ ان مظاہر کے زیر اثر ان قوتوں کو یکجا کر کے ایک قوت یعنی برقی مقناطیسیت کا ظہور عمل میں آیا۔
اس کے بعد مشہور طبیعات دان آئن سٹائن بھی دو مزید مختلف قوتوں کو متحد کرنے میں مگن ہوگیا۔ آئن سٹائن نے اپنی عمر کے آخری برس محض برقی مقناطیسی قوت کو گریوٹی یا کشش ثقل کی قوت سے یکجا کرنے میں صرف کر دیئے مگر وہ اس کوشش میں ناکام رہا۔ لیکن انیسیویں صدی کے نصف میں پاکستان کے ڈاکٹر عبدالسلام سمیت چند دیگر سائنسدان ایک نئی قسم کی یکجائیت ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس دفعہ کمزور نیوکلیائی قوت کو برقی مقناطیسیت کے ساتھ متحد کیا گیا، اس نئی قوت کا نام متحدہ الیکٹروویک قوت رکھا گیا۔ اس تحقیق کے اعزاز میں ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل پرائز سے نوازا گیا۔
اس کے بعد اگلی پیش رفت تقریباً 1970ء کی دہائی میں سامنے آئی جب مضبوط نیوکلیائی قوت کو الیکٹروویک قوت کے ساتھ متحد کرنے کی کوشش شروع کی گئی۔ یہ نیا اتحاد ایک نئے نظریے کو جنم دیتا یے جسے عظیم نظریہ یکجائیت (Grand Unification) کا نام دیا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں الیکٹروویک قوت کا اتحاد مضبوط نیوکلیائی قوت سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں بہت سے نئے نظریات پیش کیے گئے ہیں جو ان تینوں قوتوں کو یکجا کرنے کی ایک کوشش ہیں۔ ان میں سے ایک نظریہ جو سب سے زیادہ مقبولیت کا حامل قرار پایا اسے ” سٹینڈرڈ ماڈل ” کا نام دیا جاتا ہے لیکن جیسا کہ سائنسی طریقہ کار میں کسی بھی نظریہ کو مستند تسلیم کرنے کے لئے کسی تجربے کی کسوٹی پر پورا اترنا لازم ہے۔ لہذا ان نظریات کو ثابت کرنے کے لئے ایسے تجربات کی ضرورت ہے جن میں ہمیں اسقدر توانائی درکار ہے جس سےکائنات کے آغاز جیسے حالات کو لیبارٹری میں پیدا کرسکیں۔ اس مقصد کی تکمیل کے لئے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بالخصوص برطانیہ میں اربوں روپے کی لاگت سے لیبارٹریاں تعمیر کی گئی ہیں جن میں سرن (یورپی تنظیم برائے نیوکلیائی تحقیق ) کا نام سرِفہرست ہے۔سرن دنیا کی سب سے بڑی لیبارٹری ہے جو دائروی شکل میں بنائی گئی ہے اور اس کے دائرے کا محیط تقریباَ 27 کلومیٹر ہے۔ اس لیبارٹری کو یورپی یونین نے 1954ء میں تعمیر کیا اور یہ جنیوا کے قریب واقع ہے اس لیبارٹری میں دنیا بھر کے سائنسدان اپنے مجوزہ نظریہ حقیقت کی سائنسی توجیہ میں مشغول ہیں۔
تین بنیادی قوتوں برقی مقناطیسیت، کمزور نیوکلیائی قوت اور مضبوط نیوکلیائی قوت کی یکجائیت میں پیش رفت کے باوجود ابھی کشش ثقل کو ان تینوں قوتوں کے ساتھ متحد کرنا باقی ہے۔ ان تینوں قوتوں کا تعلق چوں کہ انتہائی چھوٹے ذرات کی حرکت سے ہے اس لیے انہیں کوانٹم میکانیات کے اصولوں کی مدد سے یکجا کیا جا سکتا ہے۔ مگر گریوٹی کا تعلق بڑے اجسام یعنی ستاروں، سیاروں اور کہکشاؤں سے ہے اور ان اجسام پر کلاسیکی یا نیوٹن کی طبیعات کے اصول کام کرتے ہیں۔ حتٰی کہ آئن سٹائن نے بھی گریوٹی سے متعلق اپنے نظریہ عمومی اضافیت کو کلاسیکی طبیعات کے اصولوں پر وضع کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک گریوٹی کو دیگر اساسی قوتوں کے ساتھ یکجا کرنے کے اصول دریافت نہیں ہوسکے۔ بیسویں صدی کی آخری دہائیوں سے کچھ سائنسدان اس کوشش میں مگن ہیں کہ آئن سٹائن کے نظریہ عمومی اضافیت پر بھی کوانٹم میکانی تصورات کا اطلاق ممکن بنایا جا سکے۔ کوانٹم گریوٹی کی دریافت سے قدرت کی چاروں قوتوں کو ایک ہی پیرائے میں پرویا جا سکتا ہے۔
اس ضمن میں کچھ نظریات تشکیل دیے گئے ہیں جن میں سٹرنگ تھیوری اور لوپ کوانٹم گریوٹی قابل ذکر ہیں لیکن ان نظریات سے کچھ قابل ذکر پیشین گوئیاں نہیں ملی ہیں جس کی وجہ سے کوانٹم گریوٹی کے لئے کوئی تجربہ ترتیب نہیں دیا جا سکا۔ یوں بھی کوانٹم گریوٹی کی تلاش کے لئے جس قدر توانائی درکار ہے وہ شاید کبھی میسر نہ ہوسکے۔ لیکن ان نظریات کے بانی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر کوانٹم گریوٹی پر مزید تحقیق کی جائے تو ممکن ہے کہ ایسی نظریاتی پیشین گوئیاں بھی میسر آجائیں جنہیں بالواسطہ تجربے سے ثابت کیا جا نا ممکن ہو اور یوں سائنس ایک حتمی نظریہ حقیقت کی تلاش میں سرخرو ہو سکتی ہے۔
کمزور نیوکلیائی قوت (Weak Nuclear Force)وہ قوت ہے جو نیوکلیئس یا ایٹم کے مرکزے کے اندر ہونے والے مظاہر کی وضاحت کرتی ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ نیوکلیئس کے اندر صرف پروٹان اور نیوٹران ہی موجود ہوتے ہیں جبکہ بعض تجربات سے پتا چلتا ہے کہ الیکٹران بھی نیوکلیئس کے اندر سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس مظہر کے دوران جو قوت درکار ہوگی وہ کمزور نیوکلیائی قوت کہلاتی ہے۔
مضبوط نیوکلیائی قوت(Strong Nuclear Force) کسی بھی ایٹم کے مرکزے یا نیوکلیئس کی بقا کے لیے لازم ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ نیوکلیئس کے اندر پروٹان موجود ہیں اور یہ کہ پروٹان ایک برقی بار(Electric Charge) کا حامل ذرہ ہے۔ اگر دو ایک جیسا برقی بار رکھنے والے ذرات قریب لائے جائیں تو ان میں برقی قوت دفعہ(Push) جنم لیتی ہے۔ بھاری عناصر کے نیوکلیئس میں ایک سے زیادہ پروٹان بھی موجود ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے انتہائی قریب ہیں جسکی وجہ سے برقی مقناطیسیت کی قوت غالب آجاتی ہے اور یوں خطرہ ہے کہ نیوکلیئس پھٹ پڑے گا اور یوں ایٹم فنا ہوجائے گا۔ اس مسئلے کے حل کے طور پر نیوکلیئس کے اندریہ مضبوط قوت جنم لیتی ہے جو نیوکلیئس کو پھٹنے سے روکتی ہے۔
گویا یہ چار قوتیں طبیعات میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں جن سے مادے کے مابین تعلق قائم ہوتا ہے۔ ان چاروں قوتوں کے ساتھ بھی کچھ ذرات منسلک ہیں جنہیں پیغام رساں ذرات کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اسطرح یہ کل 28 بنیادی ذرات بنتے ہیں جن میں سے 24 مادی ذرات اور 4 قوتوں والے ذرات کہلاتے ہیں۔ لیکن انسان کی تحقیق ان تمام ذرات اور قوتوں کی دریافت پر ختم نہیں ہوتی اور یوں انسان کا ازلی خواب ادھورا رہ جاتا ہے کہ جس کے مطابق انسان پوری کائنات کو ایک مکمل اور جامع انداز میں ایک واحد نظریے کے تحت سمھجنا چاہتا ہے۔
کائنات کی تمام اساسی قوتوں کی یکجائیت سے جو نیا نظریہ سامنے آئے گا اسے سائنسدان اساسی قوتوں کی یکجائیت (Unification of Forces)کانام دیتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق فطرت میں پائی جانے والی چاروں اساسی قوتیں کسی ایک ہمہ گیر قوت کا مختلف درجات میں اظہار ہے۔ کائنات کے آغاز میں یہ تمام قوتیں باہم متصل رہی ہوں گی اور پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا اور کائنات ٹھنڈی ہوتی گئی تو یہ قوتیں الگ الگ روپ اختیار کرتی گئی ہوں گی لیکن ہم دوبارہ ان قوتوں کو بطور ایک واحد قوت کے سمجھ سکتے ہیں۔ اساسی قوتوں کی یکجائیت کا تصور اسی وقت سے موجود ہے جب پہلی دفعہ برقیات اور مقناطیسیت کو یکجا کرنے کیلئے فیراڈے اور پھر میکسول نے کوششیں شروع کر دی تھی۔
سب سے پہلے برقی قوت اور مقناطیسی قوت کو یکجا کیا گیا یعنی یہ ثابت ہوا کہ برقی بہاؤ کے نتیجے میں بھی مقناطیسیت کا مظہر دیکھا جاسکتا ہے، اسی طرح مقناطیسی میدان میں ہلچل کے باعث برقی بہاؤ کا پیدا ہوجانا بھی مشاہدے میں آیا۔ ان مظاہر کے زیر اثر ان قوتوں کو یکجا کر کے ایک قوت یعنی برقی مقناطیسیت کا ظہور عمل میں آیا۔
اس کے بعد مشہور طبیعات دان آئن سٹائن بھی دو مزید مختلف قوتوں کو متحد کرنے میں مگن ہوگیا۔ آئن سٹائن نے اپنی عمر کے آخری برس محض برقی مقناطیسی قوت کو گریوٹی یا کشش ثقل کی قوت سے یکجا کرنے میں صرف کر دیئے مگر وہ اس کوشش میں ناکام رہا۔ لیکن انیسیویں صدی کے نصف میں پاکستان کے ڈاکٹر عبدالسلام سمیت چند دیگر سائنسدان ایک نئی قسم کی یکجائیت ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس دفعہ کمزور نیوکلیائی قوت کو برقی مقناطیسیت کے ساتھ متحد کیا گیا، اس نئی قوت کا نام متحدہ الیکٹروویک قوت رکھا گیا۔ اس تحقیق کے اعزاز میں ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل پرائز سے نوازا گیا۔
اس کے بعد اگلی پیش رفت تقریباً 1970ء کی دہائی میں سامنے آئی جب مضبوط نیوکلیائی قوت کو الیکٹروویک قوت کے ساتھ متحد کرنے کی کوشش شروع کی گئی۔ یہ نیا اتحاد ایک نئے نظریے کو جنم دیتا یے جسے عظیم نظریہ یکجائیت (Grand Unification) کا نام دیا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں الیکٹروویک قوت کا اتحاد مضبوط نیوکلیائی قوت سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں بہت سے نئے نظریات پیش کیے گئے ہیں جو ان تینوں قوتوں کو یکجا کرنے کی ایک کوشش ہیں۔ ان میں سے ایک نظریہ جو سب سے زیادہ مقبولیت کا حامل قرار پایا اسے ” سٹینڈرڈ ماڈل ” کا نام دیا جاتا ہے لیکن جیسا کہ سائنسی طریقہ کار میں کسی بھی نظریہ کو مستند تسلیم کرنے کے لئے کسی تجربے کی کسوٹی پر پورا اترنا لازم ہے۔ لہذا ان نظریات کو ثابت کرنے کے لئے ایسے تجربات کی ضرورت ہے جن میں ہمیں اسقدر توانائی درکار ہے جس سےکائنات کے آغاز جیسے حالات کو لیبارٹری میں پیدا کرسکیں۔ اس مقصد کی تکمیل کے لئے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بالخصوص برطانیہ میں اربوں روپے کی لاگت سے لیبارٹریاں تعمیر کی گئی ہیں جن میں سرن (یورپی تنظیم برائے نیوکلیائی تحقیق ) کا نام سرِفہرست ہے۔سرن دنیا کی سب سے بڑی لیبارٹری ہے جو دائروی شکل میں بنائی گئی ہے اور اس کے دائرے کا محیط تقریباَ 27 کلومیٹر ہے۔ اس لیبارٹری کو یورپی یونین نے 1954ء میں تعمیر کیا اور یہ جنیوا کے قریب واقع ہے اس لیبارٹری میں دنیا بھر کے سائنسدان اپنے مجوزہ نظریہ حقیقت کی سائنسی توجیہ میں مشغول ہیں۔
تین بنیادی قوتوں برقی مقناطیسیت، کمزور نیوکلیائی قوت اور مضبوط نیوکلیائی قوت کی یکجائیت میں پیش رفت کے باوجود ابھی کشش ثقل کو ان تینوں قوتوں کے ساتھ متحد کرنا باقی ہے۔ ان تینوں قوتوں کا تعلق چوں کہ انتہائی چھوٹے ذرات کی حرکت سے ہے اس لیے انہیں کوانٹم میکانیات کے اصولوں کی مدد سے یکجا کیا جا سکتا ہے۔ مگر گریوٹی کا تعلق بڑے اجسام یعنی ستاروں، سیاروں اور کہکشاؤں سے ہے اور ان اجسام پر کلاسیکی یا نیوٹن کی طبیعات کے اصول کام کرتے ہیں۔ حتٰی کہ آئن سٹائن نے بھی گریوٹی سے متعلق اپنے نظریہ عمومی اضافیت کو کلاسیکی طبیعات کے اصولوں پر وضع کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک گریوٹی کو دیگر اساسی قوتوں کے ساتھ یکجا کرنے کے اصول دریافت نہیں ہوسکے۔ بیسویں صدی کی آخری دہائیوں سے کچھ سائنسدان اس کوشش میں مگن ہیں کہ آئن سٹائن کے نظریہ عمومی اضافیت پر بھی کوانٹم میکانی تصورات کا اطلاق ممکن بنایا جا سکے۔ کوانٹم گریوٹی کی دریافت سے قدرت کی چاروں قوتوں کو ایک ہی پیرائے میں پرویا جا سکتا ہے۔
اس ضمن میں کچھ نظریات تشکیل دیے گئے ہیں جن میں سٹرنگ تھیوری اور لوپ کوانٹم گریوٹی قابل ذکر ہیں لیکن ان نظریات سے کچھ قابل ذکر پیشین گوئیاں نہیں ملی ہیں جس کی وجہ سے کوانٹم گریوٹی کے لئے کوئی تجربہ ترتیب نہیں دیا جا سکا۔ یوں بھی کوانٹم گریوٹی کی تلاش کے لئے جس قدر توانائی درکار ہے وہ شاید کبھی میسر نہ ہوسکے۔ لیکن ان نظریات کے بانی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر کوانٹم گریوٹی پر مزید تحقیق کی جائے تو ممکن ہے کہ ایسی نظریاتی پیشین گوئیاں بھی میسر آجائیں جنہیں بالواسطہ تجربے سے ثابت کیا جا نا ممکن ہو اور یوں سائنس ایک حتمی نظریہ حقیقت کی تلاش میں سرخرو ہو سکتی ہے۔
[…] کی یکجائیت کا نام دیتے ہیں اور اپنے ایک گزشتہ مضمون "کائنات کے متعلق سائنسی نظریات" میں اس پر بحث کر چکے ہیں۔لیکن یہی سٹرنگ تھیوری ہمیں […]