کراچی یونیورسٹی کے ڈین اسلامک سٹڈیز کے قتل کی تحقیق کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نیڈ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ایک اہلکار کو پوچھ گچھ کے لئے تحویل میں لیا ہے۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام قادر تھیبو کے مطابق شہر بھر سے مشتبہ ٹارگٹ کلرز گرفتا ر کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی کے بعض اساتذہ سے پوچھ گچھ کرنے کا بھی اعتراف کیا تاہم انہوں نے مشتبہ اساتذہ اور عملہ کی شناخت ظاہر نہیں کی۔
غلام قادر تھیبو کے مطابق شہر بھر سے مشتبہ ٹارگٹ کلرز گرفتا ر کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی کے بعض اساتذہ سے پوچھ گچھ کرنے کا بھی اعتراف کیا۔
تفتیش کے دوران پولیس ذرائع نے ڈاکٹر شکیل اوج کی ہلاکت میں یونیورسٹی عملہ کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا ہے ۔ ڈی آئی جی ایسٹ منیر احمد شیخ کے مطابق وہ کراچی یونیورسٹی کے بعض اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ کے افراد کو شامل تفتیش کرنا چاہتے ہیں جس کی اجازت وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی کی جانب سے نہیں دی گئی۔ بعدازاں وائس چانسلر نے تفتیش میں ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔منیر شیخ نے 2012 میں ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کے فتوی کے میسجز پھیلانے میں بھی بعض ان کے بعض ساتھی اساتذہ کے ملوث ہونے کا بھی انکشاف کیا۔ پولیس کے مطابق ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کی تفتیش میں فرقہ واریت اور توہین رسالت کے تحت قتل کئے جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔
"شدت پسند سوچ ہر یونیورسٹی میں موجود ہے”
” تعلیمی اداروں میں شدت پسند سوچ نصاب، اساتذہ اور طلبہ ہر جگہ ہے، شاید ہی کوئی یونیورسٹی اس سے مبرا ہوحتٰی کہ فیشن ایبل نجی جامعات میں بھی انتہا پسند نظریات موجود ہیں” پنجاب یونیورسٹی سے کے شعبہ ابلاغیات کے ایک وزٹنگ لیکچررنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر لالٹین سے بات کرتے ہوئے بتایا۔
شعبہ سیاسیات پنجاب یونیورسٹی کے سابق طالب علم اور ایک نجی گروپ آف کالجز سے وابستہ لیکچرر خرم ریاض کے مطابق یونیورسٹی کے بعض اساتذہ افغان جہاد کے دنوں سے شدت پسند سوچ کی ترویج میں مصروف ہیں۔ ان کے مطابق ایک زمانے تک یونیورسٹی طلبہ کو جہاد کے لئے ریکروٹ کیا جاتا رہا ہے،”گو کہ اسی کی دہائی میں افغان جہاد اور پھرکشمیر جہاد نے نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کیا تھا لیکن بعض اساتذہ بھی جہادی تنظیموں سے وابستہ تھے، اور جہاد کے لئے لڑکوں کو بھرتی کیا جاتا رہا ہے۔” خرم ریاض کے مطابق بعض تعلیمی اداروںمیں اب بھی ان تنظیموں کی سرگرمیاں جاری ہیں لیکن اب ان کا رخ بدل گیا ہے،”پہلے جہاد امریکہ یا ہندوستان کے خلاف تھا لیکن اب فرقہ واریت کا مسئلہ زیادہ اہم ہو گیا ہے۔”
کراچی یونیورسٹی میں تدریسی سرگرمیاں شروع کر دی گئی ہیں
کراچی یونیورسٹی میں ڈاکٹر شکیل اوج کی ہلاکت کے بعد احتجاجاً تدریسی سرگرمیاں معطل کی گئی تھیں جو اب بحال ہو چکی ہیں۔ یہ فیصلہ یونیورسٹی کے جنرل باڈی اجلاس کے دوران کیا گیا تاہم ڈاکٹر شکیل اوج کے قاتلوں کی گرفتاری تک احتجاج جاری رہے گا۔ ڈاکٹر شکیل اوج کو 18 ستمبر کو خانہ فرہنگ جاتے ہوئے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ڈاکٹر شکیل اوج کی ہلاکت سے چند روز قبل ان کے ایک ساتھ استاد ڈاکٹر مولانا مسعود بیگ کو بھی نارتھ ناظم آباد میں قتل کر دیا گیا تھا۔

Leave a Reply