Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

چیخوف کی گلی میں

test-ghori

test-ghori

24 اکتوبر, 2016
ٹوٹے بان والی چارپائی پہ لیٹا اسلم نائی مسلسل چھت کو گھورے جا رہا تھا۔ کسٹرڈ جیسے سبز روغن سے رنگی دیواریں اس بات کا ثبوت تھیں کہ جس کمرہ میں وہ لیٹا تھا وہ محض پرانا ہی نہیں تھا بلکہ اس کی آرائش کیے ہوئے بھی عرصہ بیت چکا تھا۔ بڑے بوڑھوں کے بقول یہ اسی زمانے کی بات ہے جب گاؤں میں پہلی بار لوگوں نے سفید چینی کے بارے میں سنا تھا اور پھر اس کا کوٹہ منظور ہوا جو گاؤں کے سب سے معتبر اور سمجھدار سمجھے جانیوالے شخص کو ملا۔ اسی زمانے میں بی ڈی ممبر کے بیٹے کی شادی پرگاؤں میں بجلی کی تاریں بچھیں اور کھمبے لگائے گئے اور پہلی بار مکانوں کو رنگ کیا گیا۔ شروع شروع میں روغن کرانے والوں کے متعلق لطیفے بھی کسے گئے۔ جیسے لوگ اب مکانوں میں نہیں بلکہ متنجن چاولوں میں رہا کریں گے۔ پھر دیکھے ہی دیکھتے ابلے ہوئے چاولوں کی طرح بے رنگ مکانوں کے متنجن بنتے گئے۔

اسی کسٹرڈ نما رنگ کے کمرے میں لیٹے ہوئے آج وہ مسلسل ماضی کو یاد کیے جا رہا تھا۔ گلی کے کنارے پر واقع ہونے کے باعث لوگوں کی آوازوں کا شور اسے بار بار حال میں کھینچ لاتا۔ لیکن ہر مرتبہ وہ سر کو جھٹک کر خود کو دوبارہ پیچھے دھکیلنے میں مصروف ہو جاتا۔ شور سے اس کے ذہن میں آندھی سی چلنے لگ جاتی مگر بستر میں دبکے ہونے کی بدولت اسے انجانے سے تحفظ کا احساس بھی تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ ان لوگوں سے اچھی تو یہ ٹوٹے روشندان والی دیواریں ہیں جنہوں نے لاکھ نظر انداز کئے جانے کے باوجود اسے پناہ دی ہوئی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آج کی رسوائی کے بعد اگر یہ دیواریں بھی اپنی بے اعتنائی کا ہرجانہ طلب کرنے لگیں تو وہ کہاں پناہ ڈھونڈے گا۔ انہی سوچوں میں اسے گھر والوں کا خیال آیا جنہیں وہ کبھی اپنے قصے سنایا کرتا تھا کہ کیسے جب اس نے نوجوانی میں پہلی مرتبہ نے میلاد پر دیگ پکائی تو چاول یوں ختم ہو گئے کہ گویا کبھی پکے ہی نہ تھے۔ حالانکہ پہلے چاول پکوانے والے گھروں کو بھی لے جاتے اور ٹِپ کا بھی حصہ رکھا جاتا جہاں مولوی صاحب اور باہر سے آنے والے مہمان قیام کرتے تھے۔ اس کے بعد ایسا ہوا کہ آس پاس کے دیہات میں بھی اس کے ذائقے اور ہنر کے چرچے ہونے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اردگرد کے تمام نائیوں کا روزگار ٹھپ ہونے لگا سوائے موسیٰ نائی کے جس نے مندی کے ان دنوں میں بھی اپنی پہچان قائم کیے رکھی۔

اس پذیرائی کے باوجود اس نے کبھی نخرے نہیں کیے اور نہ کسی کو وقت دے کر عین موقع پہ اسے جواب دے دیا۔ تمام تر مصروفیت کے باوجود اس نے کبھی چودھری یا کمی میں تمیز نہیں کی۔ تعریف سن کر بھی اس نے ہمیشہ عاجزی کا اظہار کیا۔ وہ اپنی تعریف سن کر ہمیشہ یہی کہتا کہ یہ سب قدرت کا نظام ہے۔ نظامِ قدرت ہر کسی کو زندگی میں ایک موقع ضرور دیتا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ لوگ ہمیشہ یہ سمجھنے میں سستی کر جاتے ہیں کہ شاید یہ وہ موقع نہیں جو ان کی قسمت بدل دے گا۔ اس روز اگر میں بھی یہ موقع گنوا دیتا یہ سمجھ کر کہ لنگر اچھا یا برا نہیں ہوتا اس کا کھایا جانا ہی کافی ہے تب کیا ہو جاتا۔ کیا لوگ گھر میں کھانا نہیں کھاتے؟ لوگ کھاتے، پکاتے اور بانٹتے رہتے۔ بھوک کا لگنا ایک فطری عمل ہے، میں نے لوگوں کی قدر کی، ان کی بھوک کی قدر کی اور انہوں نے اس کو میری ایمانداری جانا۔ بات تو فقط اتنی سی ہے۔

مگر جو آج اس کے ساتھ ہوا تھا اس نے ماضی کا آئینہ کرچی کرچی کر دیا تھا۔ ہاں اس سے غلطی ہوئی تھی مگر کیا یہ سزا کم نہیں تھی کہ کھانے کے وقت سب کو یہ کہہ دیا جاتا کہ اسلم اب بوڑھا ہو چکا ہے، اس کی نظر کمزور اور حواس باختہ ہو چکے ہیں۔ باقی لوگ بھی تو یہی غلطی کر جاتے ہیں جیسے الیکشن کے دنوں میں میرو نے دو دیگیں خراب کر دیں لیکن اگلے دن پھر اسی کو بلا لیا گیا کہ پہلی غلطی تو خدا بھی معاف کر دیتا ہے۔ اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ اگر اس کی جگہ میرو یہ دیگیں خراب کر دیتا تو کیا تب بھی وہ اُس کو بلاتے۔

پریشانی کے عالم میں وہ گھر سے اٹھا اور گاؤں سے باہر ایک ڈیرے میں چلا گیا تاکہ ان لوگوں اور دیواروں سے آزاد ہو کر کچھ دیر مراقبہ کر لے۔ یہاں کے درخت اور در و دیوار اس کے ساتھ رونما ہونے والے واقعہ سے بے خبر اپنی اپنی دھن میں مست چاندنی میں نہا رہے تھے۔ وہ اس وقت کو کوسنے لگا جب اس نے اپنے لئے دیگیں پکانے کا پیشہ اختیار کیا۔ پانچ جماعتیں پڑھ لینے کے بعد وہ بیلدار بھرتی ہو جاتا لیکن وائے قسمت کہ وہ اس کام میں کود گیا۔ شروع شروع میں اسے اس کام میں مزہ آتا تھا جب دیگیں پکانے کے دوران وہ مالکوں سے مختلف چیزوں کی فرمائش کرتا۔ اس کی فرمائشوں میں سستے میسی سگریٹوں کی ڈبی اور چائے یا سوڈا ضرور شامل ہوتا۔ وقت گزاری کے لئے باتیں کرتا رہتا، اس کی باتیں بھی پکوائی کے گرد ہی گھومتی تھیں۔ کبھی بتاتا کہ لیموں چاولوں کو کھٹا کر دیتے ہیں اور کبھی کہتا کہ مسالہ جس قدر تیکھا ہوگا کھانا اس قدر کم کھایا جائے گا۔

مگر اس دوران آگ کے قریب کھڑے رہنے کے سبب اس کی ٹانگوں کا اوپر والا حصہ جلنا شروع ہو گیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں جلن شروع ہو گئی اور یہی سوچتے سوچتے جگراتے بڑھنے لگے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ آگ سے دور بھاگنے لگا۔ کھڑے کھڑے اسے محسوس ہوتا کہ اس کی ٹانگوں اور ناف کے نچلے حصے میں فشار خون بند ہو چکا ہے اور اندر موجود خون لاوے کی مانند پھٹ کر باہر نکلنے کو ہے۔ پھر اس کا دھیان کل شام کی طرف مڑ گیا جب اسے پیغام ملا کہ اشتیاق جٹ کے گھر میلاد ہے جس کا کھانا وہ پکائے گا۔ وہ انکار کرنے والا تھا کہ اچانک اسے بیوی کا خیال آیا جسے پچھلے چار سال سے یرقان تھا۔ اس نے دوائی لینے کے خیال سے ہاں کر دی اور اگلے دن دیگ پکانے پہنچ گیا۔ مگر قسمت کی بتی گل ہونے کا احساس اسے دیگ پک جانے کے بعد ہوا۔ وہ جسے اپنے ساتھ مدد کے لیے لایا تھا اس نے نمکین سمجھ کر بارہ کلو چاول تولے تھے جبکہ اسلم نے آٹھ کلو کے حساب سے پانی ڈال دیا اور بعد میں جب چاول پک کر تیار ہوئے تو وہ اتنے خشک تھے کہ ٹھنڈا ہونے پر جیبوں میں بھر کے بھی کھائے جا سکتے تھے۔ اس غلطی کے بعد اس کا کورٹ مارشل کر دیا گیا۔ اشتیاق جٹ نے مزدوری دینے سے انکار کرتے ہوئے دیگ اسے تھما دی اور تقاضا کیا کہ دیگ پہ آیا ہوا سارا خرچ واپس کیا جائے۔ اپنی معتدل طبعیت کے باعث وہ بغیر کوئی احتجاج کیے کڑچھے اٹھائے گھر روانہ ہو گیا۔ جب شام کو اشتیاق جٹ کا لڑکا پیسے لینے آیا تو اسے احساس ہوا کہ فطرت نے ماضی کا دیا ہوا لمحہ واپس لے لیا ہے۔

یہ خیال آتے ہی اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں کہ اچانک کسی نے نرمی سے اس کا کندھا دبایا۔ یہ جلیل تھا۔ اقبال موچی کا لڑکا جو کبھی ویگن ڈرائیور ہوا کرتا تھا۔ ایک دن طالبعلموں کے ساتھ جھگڑے کے نتیجے میں اس نے گاڑی بھگائی تو گاڑی بے قابو ہو جانے کے باعث ایک طالبعلم کچلا گیا۔ کچھ عرصہ اس نے جیل میں بھی گزارا لیکن پھر رہا کر دیا گیا اور اس کے بعد ڈرائیوری سے تائب ہو کر فیکٹری میں کام کرنے لگا۔ ان دنوں وہ چھٹی پہ گھر آیا ہوا تھا۔ وہ جب بھی گاؤں آتا اسلم سے ہی بال کٹواتا۔ آج جب اس نے اس بارے سنا تو پتہ کرنے چلا آیا۔ اسے گھر نہ پا کر وہ بھی یہیں ڈیرے پر آگیا کہ گھر سے باہر یہ واحد جگہ تھی جہاں وہ آجایا کرتا تھا۔ جلیل نے اسے تسلی دی اور کچھ دیر بعد اپنے بارے میں اسے بتانے لگا کہ کس طرح وہ بھی ایک انجانے جرم کی سزا کاٹ چکا تھا۔ اس دن اگر وہ طالبعلموں کے ہاتھ لگ جاتا تو شاید ہڈیاں تڑوا بیٹھتا اور اسی ڈر سے اس نے گاڑی بھگائی۔ باتیں ختم ہو جانے اور کڑھنے کے بعد جب کچھ نہ بچا تو دونوں اٹھے اور گھروں کو روانہ ہو گئے۔

اسی رات اسلم نے فیصلہ کیا کہ جلیل کی طرح وہ بھی کچھ اور کرنے لگ جائے گا یا اس کا میٹرک پاس بیٹا بیلدار تو بن ہی سکتا ہے۔

دور کہیں فطرت اس بات پہ مسکرا رہی تھی کہ خود کو آزاد کہنے والا انسان کیا آزاد ہے؟
فطرت کا غلام۔ فطرت کے قانون کا غلام۔ لاچار انسان۔