Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

چہرہ میرا تھا ۔ نگاہیں تھیں اُس کی

test-ghori

test-ghori

07 دسمبر, 2016
نظر آسمان پر تھی، ناظر زمین پر۔ آواز نے طے کیا، وہ پرواز کرے گی، اس نے پرواز کی اور خوب کی۔ یہ باطن سے اٹھنے والی بازگشت تھی۔ پرواز کی چاہ میں بیدار ہونے والی آواز نے، زمین پہ سارے رشتے بنائے، خواب سوچے، راستے چنے، منزل بہ منزل، آوازکاسفرطے ہوا۔ آواز جو کہیں اندر سے لپکی تھی، ایک کے بعد ایک درجہ طے کرتے ہوئے، شہرت اورمقبولیت کے راستوں سے ہوتی، لوگوں کے دلوں میں اترتی چلی گئی۔

یہ آوازاپنے دور کی روشن آواز بن گئی، جس میں رومان کے سارے لمحے، ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح، خزاں اوربہار کے رنگوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ نوجوانوں کے کمرے میں، کتابوں کی شیلف پر کتابوں کے ساتھ کہیں، اس آوازکے گیتوں کی کیسٹ بھی رکھی ہوتی تھی، جوشیریں لہجے کادیوان ہوتا تھا، جس میں دل کی ساری باتیں درج ہوتی تھیں۔ اس آواز میں درج گیتوں کے حروف، وہ مکالمہ تھے، جو نوجوان تنہائی میں خود سے کیا کرتے تھے۔ آج یہ آواز ایک فضائی حادثے میں خاموش ہو گئی، لیکن ایسامحسوس ہو رہا ہے، یہ آواز نہیں بچھڑی، ایک عہد ہم سے رخصت ہوا۔

[blockquote style=”3″]

یہ آوازاپنے دور کی روشن آواز بن گئی، جس میں رومان کے سارے لمحے، ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح، خزاں اوربہار کے رنگوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

[/blockquote]

ماضی کے کینوس پر اس آواز سے اتنی یادیں جڑی ہیں کہ اس آواز کی موت نے غم زدہ کر دیا ہے۔ یہ کوئی ایک آواز تھوڑی تھی، ایک بولتا ہوا ماضی تھا، جس میں ہمارا لڑکپن، نوجوانی، کالج، دوستیاں، شرارتیں اور بیوقوفیاں درج ہیں۔ اس آواز میں “چہرہ میرا تھا، نگاہیں اس کی۔ خاموشی میں بھی وہ باتیں اس کی۔”۔۔۔ جیسے رومان کی داستان گونجتی ہے۔ “نہ تو آئے گی، نہ ہی چین آئے گا” کادردسمیٹے، انتظار کی کیفیتوں سے روشناس کروانے والی اس آواز نے رومان کے سارے رنگ بکھیر دیے۔ محبتوں کاوہ نصاب مرتب کیا، جس کو پڑھے اور محسوس کیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہ تھا۔ اس آواز کے گیتوں میں ماضی کی یادیں، ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح، تاحد نگاہ بکھری ہوئی ہیں، جنہیں سمیٹا نہیں جاسکتا، صرف دیکھااورمحسوس کیا جا سکتا ہے۔

اس آواز میں پروئے ہوئے گیت، آج بھی اتنے ہی دلکش ہیں، جتنے اس زمانے میں تھے۔ “وائٹل سائنز” کے دور میں 4 اسٹوڈیو البم اور 10 گیتوں کے علاوہ متعدد مختلف تخلیقی گیتوں کے امتزاج سے، اس آواز نے اپنا ایک عہد رقم کیا۔ ان گیتوں کو کون فراموش کر سکتا ہے، آج بھی کئی ایک گیت ایسے ہیں، جن کو سماعت کر کے، ایسا محسوس ہوتا ہے، ہم اسی دور میں موجود ہیں۔ معروف شاعرہ “پروین شاکر” کی لکھی ہوئی خوبصورت غزل ”چہرہ میرا تھا۔ نگاہیں اس کی” کو کتنے خوبصورت اندازمیں کمپوز کیا گیا کہ آج تک یاد کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔

کچھ لمحوں کے لیے فرض کریں، آپ 80 کی دہائی میں موجود ہیں۔ وقت سست روی سے آگے بڑھ رہا ہے، ٹیلی فون، ریڈیو اور ٹیلی وژن جیسی سہولیات بے حد محدود ہیں۔ یہ وہ منظر ہے، جس میں لوگوں کے پاس ایک دوسرے سے بات کرنے کاوقت تھا، اپنے خوابوں پر غور کرنے کی گھڑیاں تھیں۔ کچھ نئے راستے تلاشنے کے اسباب تھے۔ اپنے آپ سے مکالمہ کرنے کی فرصت تھی۔ دل جذبات سے بھرپور، ذہن نئے خیالات سے روشن، جاگتی آنکھوں خواب دیکھنے والی دیوانگی کے بعد، پھر کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ اس وقت تک موبائل فونز نے ہم پر راج نہیں کیا تھا۔ ایک دوسرے کے درد کی لہر ہم تک احساس کے ذریعے رسائی رکھتی تھی۔ ”جنیدجمشید”کی یہ وہ شخصیت ہے، جس نے انہیں “جنید جمشید“ بنایا۔ شناخت، پہچان اورمحبتیں دیں۔

وائٹل سائنز کے سفر کی ابتدا، 1989 میں، پہلی البم ”وائٹل سائنزون” سے ہوئی، جس میں نثار ناسک کے لکھے ہوئے گیت “دل دل پاکستان” جیسا شہرہ آفاق نغمہ بھی شامل تھا، پھر، “تم مل گئے”، “گوری” اور”یہ شام” جیسے معروف ترین گیت بھی شامل تھے۔ نغموں کی ایک بہار تھی، جو پاکستانی موسیقی کے منظر نامے پراتری۔ یہ گیت تھے یاکسی شاعری کی بیاض، جس میں یادیں، شامیں، پل، ملاپ، جدائی اورمحبت کے سارے رنگ گہرے ہو چلے تھے۔ 1991میں ریلیز ہونے والے دوسرے البم نے بھی یادوں کے دروازے پر دستک دی۔ سانولی سلونی جیسا گیت تخلیق ہوا۔ ایسا نہ ہویہ دن، یاد کرنا، ناراض، پاس رہنا، تیرے لیے، اجنبی، میرادل جیسے گیتوں سے فضامیں محبت کے گیت لکھنے والے اس بینڈ نے، نوجوان نسل کو رومان کی تہذیب سمجھائی۔ مغرب اور مشرق کاتخلیقی ملاپ دیا، موسیقی کے ذریعے دل کو گدگدانے کی روایت دی، جس احساس لمحہ موجود تک زندہ ہے۔

1993میں “اعتبار” جیسی البم نے اس رومانوی گیتوں کے تسلسل کو برقراررکھا، وہ کون تھی، یاریاں، دل ڈھونڈتاہے، چھپا لینا، خاموش ہو، یہی زمین جیسے گیتوں اورنغموں نے دل کو مزید موم کر دیا۔ یہ گیت محبتوں کا استعارہ ثابت ہوئے، بلکہ آج تک ہیں۔ 1995میں “ہم تم” ریلیز ہوئی۔ اس البم میں معروف قومی نغمہ”جیتیں گے” تخلیق کیا، جس کے گیت نگارحسن اکبر کمال اور طاہر خان تھے۔ ”جاناں جاناں “جیسا گیت تخلیق ہوا، جو آج بھی جو دل پرنقش ہے، دیگر گیتوں میں رومانوی سحرانگیزی شامل رہی۔ حسینہ معین نے “دھندلے راستے”کے عنوان سے ایک ڈراما سیریز لکھی، جس کی ہدایات شعیب منصور نے دیں۔ پی ٹی وی پرنشر ہونے والی اس ڈراما سیریز کا محور ”وائٹل سائنز” بینڈ تھا، شاید ان نوجوان کے خوابوں اور طرززندگی کی جھلک بھی، جنہیں دنیا میں کچھ کردکھانے کا جنون ہوتاہے۔ ایک طویل عرصے بعد شعیب منصور نے ایک فلم “خداکے لیے”بنائی، اب کے بھی، ان کے اس تخلیقی منصوبے کا محرک یہی آواز تھی، وہی شخص تھا۔

موسیقی کی راہ پر یہ آواز جتنا آگے بڑھتی چلی گئی، اندر سے اتنا ہی تنہائی کا احساس بھی بڑھا۔ کچھ کمی تھی، کچھ نہ ہونے کااحساس بے چین کیے ہوئے تھا۔ اس لیے موسیقی کا مزید سفر اکیلے طے کرنے کافیصلہ کیا۔ اب یہ آواز تھی اورجہاں تھا۔ تنہائی کااحساس لیے ، تنہا دریافت کرنے کاجوکھم لے کرآوازکھوج پر نکلی۔ 1994 میں منظر بدلا، تو اب کے موسیقی کے کینوس پر نئے موسم تھے، یادوں کاجنگل تھا، جہاں “تمہارااورمیرانام” لکھا ہوا تھا۔ 1999تک آتے آتے ، یہ راہ ایک منفرد راستے میں تبدیل ہوچکی تھی، جس پر اورکوئی نہ گیاتھا۔ اس وقت ریلیز ہونے والی البم” اُس راہ پر” جذبات کی عکاسی کرتی ہوئی تخلیق تھی۔ آنکھوں کو آنکھوں نے، نہ توآئے گی، اوصنما، جاگی رے، جیسے گیت، اس آواز میں تنہائی اور تلاش کے عکس میں تبدیل ہوچکے تھے۔ 2002میں گیتوں پر مبنی آخری البم ”دل کی بات” ریلیز ہوا۔ اس البم میں بھی انتظار، خواہش، خواب اورخودکلامی کا احساس پوری طرح موجود تھا۔

اس آواز کی تلاش ختم نہ ہوئی، موسیقی کے کئی راستے بدلے، مگر سکون نہ پایا، پھر دنیا سے دین کی طرف رخ کیا۔ 2005 میں اس آواز کاروحانی سفر شروع ہوا”جلوہ جاناں” سے لے کر2013 تک نعتوں کے متعدد البم ریلیز ہوئے، جن میں محبوب یزداں، بدرالدجیٰ، یادحرم، رحمت العالمین، بدیع الزماں، ہادی الانعام، ربی زدنی علما اور نورالہدی شامل ہیں۔ آواز کی پرواز اب تک جاری ہے۔ اس دنیا میں نہ تلاش ختم ہوئی، تو وہ ان دیکھے راستوں کی طرف جا نکلی۔

[blockquote style=”3″]

یہ آواز، جس کا نام “جنید جمشید” تھا، وہ صرف فردِداحد کی شناخت نہیں تھے، بلکہ پاکستان کے روشن چہرے کا نام ہے۔

[/blockquote]

یہ آواز، جس کا نام “جنید جمشید” تھا، وہ صرف فردِداحد کی شناخت نہیں تھے، بلکہ پاکستان کے روشن چہرے کا نام ہے۔ پاکستانی پوپ میوزک کی عمارت پر نصب تختی پر، مکین کا نام ہے۔ یہ نام ان کروڑوں آنکھوں میں چمکنے والی روشنی کا ہے، جنہوں نے اپنے خوابوں کے لیے اس کی پیروی کی۔ دل کے بیان کو گیتوں میں انڈیلا، دھنوں میں پرویا اور پھر اپنی مدھر آواز سے سماعتوں کے حوالے کیا، وہ گیت آج بھی ایسے گونجتے ہیں، جن میں حروف نہیں جذبے دھڑکتے ہیں۔ بچھڑجانے والوں کی یادسے لے کر کچھ نہ کہہ سکنے کی محبت کا عکس، اس نام میں ہے۔

اس آوازنے پاکستان کو عالمی موسیقی میں پہچان دلوائی۔ بی بی سی ورلڈ نے 155 ملکوں کے7000 گیتوں کو منتخب کیا، تواس میں “دل دل پاکستان”تیسرے نمبر پرتھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ جنید جمشید اوران کے دیگر دوست، بالخصوص “وائٹل سائنز”میں ساتھ کام کرنے والے ، معروف مغربی بینڈ ”پنک فلائیڈ” سے متاثر تھے، جس کااعتراف انہوں نے بھی کیا، لیکن اس بینڈ کے گیت ہوں یا جنید جمشید کے اپنے جداگانہ نغمے، سب میں ایک رومان موجود ہے، جس کو سنتے ہی ایک شائستہ اورشیریں احساس ملتا ہے، یہ مٹھاس خالص مشرقی تھی، جس کا تسلسل پھرنعتوں کی صور ت میں بھی سماعتوں تک پہنچا۔ جنید جمشید کے نغموں میں موجود اس رومان کا سہرا شعیب منصور کے سر بھی جاتا ہے جنہوں نے وائٹل سائنز اور جنید جمشید کے سولو البمز کے زیادہ تر گیت لکھے۔ روحیل حیات کا ذکر بھی لازمی ہے جو وائٹل سائنز کے گیت پروڈیوس کیا کرتے تھے۔

[blockquote style=”3″]

جنید جمشید، اپنی زندگی کے اس موڑ سے، ہم سے جدا ضرور ہوئے ہیں، مگر وہ اپنی آواز کے ساتھ، ہماری یادوں، گیتوں، نغموں اورنعتوں میں موجود ہیں۔

[/blockquote]

خیال کے راستے سے خواب کی منزل تک آنے کے لیے دیوانگی چاہیے ہوتی ہے، وہ ان میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ کچھ خواب ایسے ہوتے ہیں، جن کی کوئی منزل نہیں ہوتی، وہ ایک تلاش کی طرح انسان کے تخیل سے لپٹے رہتے ہیں۔ یہ آواز انہی راستوں کی متلاشی تھی۔
جنید جمشید، اپنی زندگی کے اس موڑ سے، ہم سے جداضرور ہوئے ہیں، مگر وہ اپنی آواز کے ساتھ، ہماری یادوں، گیتوں، نغموں اورنعتوں میں موجود ہیں۔ باطن سے ظاہر تک کے سفرمیں مشعل راہ اوررومان سے بیان تک کے فلسفے میں تشریح کی مانند شامل ہیں۔ جدائی کے منظرنامے پر، یہ آواز بچھڑی ضرور ہے، لیکن اب بھی، دل کے نہاں خانوں میں، شیلف کی کتابوں کے درمیان، شاعری کے دریچوں سے، دھنوں کے امتزاج میں، تبلیغ کے راستے پر، محبت کے سبق تک، ہرجگہ موجود ہے، یادوں کی لو ذرااونچی کیجیے، اس آوازکی نرماہٹ محسوس ہو گی۔ ۔ ۔