چورن
زندگی جس چوک پر زور و شور سے
لگی ہوئی، پھٹی پڑی ہوئی ہے
اس طرف جانے کی گلی نہیں ہے
وہاں زندگی شیشوں میں کھڑی ہے
الیکٹران اور فوٹان نے جنی ہے
ان میں ہمارے عکس گلے ملتے ہیں
پھر واپس اندر آکر بیٹھ جاتے ہیں
ویسے بھی
یہ زمین
یہ نیم گرم پتھر
بنتِ مہاتما کنکر
ایک دھماکے میں لٹکی ہے
سلو موشن میں چلتی ہے
جیسے کوئی متعجب ماں کھڑی ہے
مادر خور بچہ جن کر
اس پر پھرتا ہے
میرا اور تمہارا
آدمی کی شکل کا آدمی
آدمی کا دھبہ آدمی
جو زندگی کی طرح کی
ایک اور چیز جی رہا ہے
میرے اور میرے واقعہ کے درمیان
واقعہ کی تصویر کھڑی ہے
تصویر نے مصّور کو گھڑا ہے
مصّور تصویر کی دائی تھی پچھلے جنم میں
تصویر کے سامنے
آدمی کی شکل کا آدمی کھڑا ہے
تھو! تھو! کا مجسمہ کھڑا ہے
آدھا تیتر اور باقی
گیدڑ کھا گیا بٹیر
معاملہ بہت بکھرا ہوا ہے
ہر کوئی زندگی میں بھرتی ہو رہا ہے
دھرتی دھرتی بھرتی ہو رہا ہے
زندگی ڈکار مار کر، وحشی
جس چوک میں کھڑی ہے
اس طرف جانے کی گلی
شاہراہ بن گئی ہے
آئینے کو بولو
عظیم عفریت
السلام علیکم
چودہ ارب سال
مجھے پتہ چلنے سے پہلے
ایک لمحے میں گزرے ہیں
میں اور تم
اب دوسرا لمحہ ہیں
ہم دیواریں ہیں
لمحہِ دھڑام میں بند
اپنے انتظام میں بند
اور چودہ ارب سال گز لمبی
ایک ڈوری
میرے بھی پاؤں میں بندھی ہے
اور میں ایک دھماکے میں کھڑا ہوں
تم بھی وہاں اپنے دماغ کے اندر
کسی ایسی ہی جگہ کھڑے ہو؟
ہماری آنکھیں
جدی پشتی حیرت کی ماری
ہانپتی کانپتی
سستی ہو گئی ہیں
کیونکہ کائنات کا مقصد ہے
شاید چیزوں کا سستا ہو جانا
ہم گونجتے ہوئے لوگ
نہیںِ مجسم
ہم وہ بیمار راتیں بن گئی ہیں
جو اپنے چاند کو پناڈول کی طرح
غٹک جاتی ہیں
پھر اندھیرے کو کھا جاتی ہیں
اکیلی رہ جاتی ہیں
خالقِ سانسِ اول
گوشت کی اماں پتھر بزرگ
جیسے کوئی جیم کھڑا ہے
اپنے باغی نقطہ کو
محبّت سے گھیرے میں لے کر
جیسے رات ساڑھے گیارہ بجے
چھوٹے چھوٹے جیم
چھوٹے چھوٹے اکیلے پن میں
ٹریفک میں پھنسے
اپنی ہی گاڑیوں کے نرغے میں
چپ بیٹھے ہوئے ہیں