بہاول پور سے تقریباً 60میل دور صحرائے چولستان میں قلعہ دراوڑ اور دین گڑھ کے درمیان پنجاب کی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑی تحصیل یزمان سے ذرا آگے چنن پیر کا مزار ہے۔ تقریباً 600سال قدیم اس مزار پر ہندو اور مسلمان یکساں ایمان سے آتے ہیں۔ حضرت عماد الدین المعروف چنن پیر کا عرس پاکستان میں اپنی نوعیت کا واحد عرس ہے جو مسلسل سات ہفتے یعنی فروری کی آخری جمعرات بمطابق ہندی مہینے چیت سے شروع ہو کر اپریل کی اوائل جمعرات تک جاری رہتا ہے۔
شتربانوں کے قافلے اپنی منزلوں سے چلتے ہیں اور رات کے ملگجے اندھیروں یا صبح کی خاکستری روشنیوں میں ہوا میں ڈاچیوں کی گھنٹیاں عقیدت مندوں کی آمد کا اعلان کرتی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روہی میں ہر طرف بہار ہی بہار ہے۔
مسلسل سات جمعرات تک جاری رہنے والا یہ میلہ پانچویں جمعرات کو اپنے عروج پر پہنچتا ہے،اس دن ضلع بہاول پور میں بھی عام تعطیل ہوتی ہے۔ ہر جمعرات کو ہزاروں میل سے عقیدت مند یہاں حاضری دیتے ہیں۔ شتربانوں کے قافلے اپنی منزلوں سے چلتے ہیں اور رات کے ملگجے اندھیروں یا صبح کی خاکستری روشنیوں میں ہوا میں ڈاچیوں کی گھنٹیاں عقیدت مندوں کی آمد کا اعلان کرتی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روہی میں ہر طرف بہار ہی بہار ہے۔بغیر سبزے کی اس بہار میں ، موسم بہار کے خو ش ر نگ پھولوں کی طرح رنگ برنگے لباسوں میں ملبوس دیہاتی عورتیں اور مرد جگہ جگہ پڑاؤ ڈالے نظر آتے ہیں اور سیلانیوں کی بعض ٹولیاں باقاعدہ ڈھول تاشے کی تھاپ پر ناچتی گاتی چنن پیر کے مزار تک آ پہنچتی ہیں۔
یوں تو چنن پیر سے کئی روایات ، قصے کہانیاں منسوب ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ جب معروف صوفی بزرگ حضرت جلال الدین سرخ پوش بخاری کا اس علاقے سے گزر ہوا تو یہاں ایک بے اولاد بادشاہ سادھارن کی حکومت تھی۔ سادھارن کوآپ کی کرامات کا علم ہوا تو آپ سے اولاد کے لیے دعا کی درخواست کی۔ درویش نے دعا مانگی تو بادشاہ کے ہاں شہزادہ پیدا ہوا جو اتنا خوبصورت تھا کہ لوگوں نے اس کو چاند سے تشبیہ دی اور چنن پکارنے لگے۔ چنن جب بولنے کی عمر کو آیا تو کلمہ پڑھنا شروع کیا ور رعایا میں مشہور ہوا کہ بادشاہ کا بیٹا غیر مذہب کا نام لیوا ہے تو سادھارن نے اپنے بیٹے کے قتل کا حکم دے دیا ادھر ملکہ نے اپنے بیٹے کی جان بخشی کی درخواست کی جو اس شرط پر قبول کی گئی کہ اب چنن محل کی بجائے صحرا میں رہے گا اور روتی بلکتی ملکہ نے چنن کو صحرا میں ایک ٹیلے پر چھوڑ دیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک ہرنی چنن کو دودھ پلا رہی ہے۔ یہ خبر ملکہ تک پہنچی تو وہ محل چھوڑ کر صحرا میں آگئی ۔بادشاہ نے ایک مرتبہ پھر چنن کے قتل کا حکم صادر کردیا لیکن روایت کے مطابق جب شاہی محافظ ٹیلے پر پہنچے تو چنن غائب ہو چکے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ چنن پیر کا مزار ریت کے ایک بہت بڑے ٹیلے پر واقع ہے اور جب بھی اس پر عمارت قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ مزار کے احاطے میں ایک درخت ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ چنن کی والدہ یہاں مدفون ہیں۔ زائرین حاجت بیان کرنے کے بعد اس درخت سے کپڑے کی کتر باندھ کر چلے جاتے ہیں۔ اگر مناجات پوری ہوجائیں تو کتر کھل جاتی ہے اور پھر زائرین عرس پر نیاز چڑھانے آتے ہیں۔ روہی والوں کے نزدیک چنن پیر کی حیثیت خوشی کے دیوتا کی سی ہے وہ روحانیت کے اس مرکز کو مسرت و شادمانی کا سرچشمہ سمجھتے ہیں، یہاں ان کی ہر منت پوری ہوتی ہے۔ غموں کا مداوا اور خوشیوں کا سامان فراہم ہوتا ہے۔ بے اولادوں کو اولاد ، بن بیاہوں کو دلہنیں نصیب ہوتی ہیں۔ حضرت چنن پیر کے ہندو اور مسلمان یکساں معتقد ہیں۔ ہندو مجاور مزارکے ہاتھ سے تبرکات لیتے ہوئے کوئی پرہیز نہیں کرتے ۔ لوگ خصوصاً مڑیچہ ہندو یہاں زیادہ حاضری دیتے ہیں اور دیگر غیر مسلم اقوام بھی حاضری دیتے ہیں۔ جہاں حضرت چنن پیر چولستان روہی کے اس علاقہ کی شناخت ہیں اور بہت بلند نام ہیں وہاں یہ مزار امن و آشتی کا نمونہ بھی ہے۔

8
 
6
 
5
 
1
 
2
 
3
 
4
[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”1″]

تحریر وتصاویر: سجاد پرویز اور فواد احمد

One Response

Leave a Reply

%d bloggers like this: