
فیض احمد فیض کے 100ویں یوم پیدائش کے حوالے سے مہینے بھر سے تقریبات کا سلسلہ جاری ہے اوریہ تقریبات پورا سال جاری رہیں گی۔ حکومت پاکستان نے 2011 کو فیض سال کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں جہاں جہاں اردو پڑھنے ، سننے اور سمجھنے والے بستے ہیں یہ سال اسی جوش و خروش سے منا یا جا رہا ہے۔
ہم نے کوشش کی ہے کہ اس موقع پر فیض صاحب کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالیں ۔چناچہ ہم نے فیض صاحب کے دوست احباب اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بات چیت کی ہے۔ آئیے دیکھیں وہ فیض صاحب کے بارے میں کیا کہتے ہیں ۔
سلیمہ ہاشمی فیض صاحب کی بڑی بیٹی ہیں اپنے ابّا کے لیے کہتی ہیں :
’’ہمارے گھر میں بہت جمہوری اور بے تکلفی کا ماحول تھا ۔ ہم نے کبھی بھی ابّا کی موجودگی میں تکلف محسوس نہیں کیا۔ بلکہ ان کے ہوتے ہوئے ہم زیادہ شوخ ہو جایا کرتے تھے۔ ہم کبھی ان کی ٹانگ کھینچتے تھے، کبھی ان سے لڑتے جھگڑتے اور شرارتیں کرتے تھے۔ اور وہ کبھی کسی کو ڈانٹتے نہیں تھے۔ ہمارے گھر میں دو عدالتیں تھیں ۔ ایک امی کی عدالت تھی جس کو چھوٹی عدالت کہا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی معاملہ چھوٹی عدالت کے دائرہ اختیار سے نکل جاتا تو بڑی یعنی ابا کی عدالت میں چلا جاتا اور پھر بڑی عدالت ہمیشہ بری کر دیتی۔‘‘
’’ابا نے کبھی بھی کسی پر اپنا فیصلہ نہیں ٹھونسا بلکہ وہ دوسرے کی رائے کاخواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا ، ہمیشہ احترام کیا کرتے تھے۔‘‘
معروف دانشورآئی اے رحمن جن کا شمار فیض کے دوستوں میں ہوتا ہے فیض صاحب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’میں نے آج تک فیض جیسا دوست نہیں دیکھا ویسے میں نے ان کو کبھی اپنا دوست نہیں سمجھا بلکہ میں ان کو اپنا راہبر کہتا ہوں ۔ ان کی دوستی کی مثال اس بات سے دی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی رحلت سے صرف تین دن پہلے اپنے دیرینہ دوست استاد دامن کے پاس ذاتی گھر نہ ہونے کی وجہ سے پریشان تھے۔ کہتے تھے یار دامن کے پاس اپنا گھر نہیں ہے اس کے گھر کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ آئی اے رحمن مزید کہتے ہیں فیض ہر کسی کی دوستی کا دم نہیں بھرتے تھے بلکہ صرف کام کے بندوں سے رسم و راہ رکھنا پسند کرتے تھے۔ اور وہ دوستوں میں ہر دم آگے بڑھنے اور کچھ کر گزرنے کی تحریک پیدا کرتے رہتے تھے۔‘‘
ٹینا ثانی، معروف گلوکارہ جو کہ ربع صدی سے فیض صاحب کا کلام گا رہی ہیں ، ان کی شاعری پر بات کرتے ہوئے کہتی ہیں :
’’ان کی شاعری میں حد درجہ کی موسیقیت ہے۔ اور ان کے کلام میں بلا کا سوز و گداز ہے۔ ان کے پورے کلام میں کہیں بھی سکتہ نہیں چاہے وہ غزل ہو یا نظم ۔ انھوں نے ہمیشہ مترنّم بحروں کا انتخاب کیا ہے۔ جو کہ گانے والے کے لیے آسانیاں پیدا کرتی ہیں ۔مجھے ان کا کلام گاتے ہوئے خوشی ملتی ہے اور اس طرح میرا ان کے ساتھ گزشتہ پچیس برس سے کوئی نامعلوم رشتہ قائم ہو گیا ہے۔‘‘
معروف دانشور اور ریجنل ڈائریکٹر پاکستان اکادمی ادبیات الطاف قریشی کہتے ہیں :
’’فیض صاحب انتہائی خوش گفتار اور دھیمے سروں کے آدمی تھے جو کہ پڑھے لکھے لوگوں کا خاصہ ہے فیض بھی ان میں سے ایک تھے۔ انھوں نے کبھی بھی جتانے کی کوشش نہیں کی کہ وہ بڑے آدمی ہیں ۔ وہ چھوٹے بڑے سب کا احترام کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ انھوں نے تنقید کرنے والوں کو بھی پلٹ کر جواب نہیں دیا۔ وہ جس سے دوستی کا دم بھرتے تھے اس کے لیے قربانی دینے کا جذبہ بھی رکھتے تھے۔ وہ زیادہ سنتے اور کم بولتے تھے۔ ان کی زندگی کا وطیرہ تھا کہ انتہائی خوف ناک حالات میں بھی اپنے طریقے سے جیتے تھے مشکل سے مشکل حالات میں بھی انھوں نے بھی کسی کو گالی نہیں دی اور نہ کسی سے لڑائی کی۔‘‘
انجمن ترقی پسند مصنفین کے جنرل سیکریٹری عابد حسین عابد فیض صاحب کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’ بطور شاعر فیض نے شاعری میں نئی طرح ڈالی ہے انھوں نے اپنے شعروں میں محبت اور انقلاب کو اکٹھا کر دیا ہے۔ انتہائی نرم لہجے کے ساتھ وہ انقلاب کو محبت کے درجہ پر لے آئے ہیں ۔ درحالانکہ بہت سارے ترقی پسند شعرائ انقلاب کی بات کرتے ہوئے تند ہو جاتے ہیں ۔ لیکن فیض نے اپنے اسلوب کے ساتھ انقلاب کے معنی ہی بدل دیئے ہیں ۔ وہ مکمل عصری شعور رکھتے تھے جس کے پیچھے ان کا بڑا گہرا مطالعہ اور تجربہ تھا۔ یہ انہی کے اسلوب کا خاصہ ہے کہ قاری ان کو پڑھتے ہوئے ان کے حصار میں گرفتار ہو جاتا ہے اور کسی دوسری دنیا میں پہنچ جاتا ہے جو کہ شاید حقیقت کی دنیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر مبشر حسن کا شمار ملک کے ان گنے چنے سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن کا ہر خاص و عام احترام کرتا ہے۔ آپ ایک معروف دانشور اور ماہر اقتصادیات بھی ہیں ۔فیض صاحب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’ وہ نہایت عظیم شاعر تھا اور دنیا کا کوئی بھی عظیم شاعر ہو اس کے شعروں میں عوام کی محبت اور دکھ درد شامل ہوتا ہے۔ بیسویں صدی کے تمام شعرائ جن کو نوبل انعام نوازا گیا ان سب کے کلام میں مجبور اور مظلوم کی محبت جھلکتی ہے۔ فیض کا رتبہ بھی اسی لیے بڑا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فیض ایک انقلابی بھی ہے۔ سب شعرائ انقلاب کے فروغ کے لیے ظاہراً حرکت کرتے ہوئے نظر نہیں آتے اور سیاست میں عملاً حصہ نہیں لیتے لیکن فیض کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے سیاسی جدوجہد کی پاداش میں جیلیں کاٹی اور بہت ساری دوسری صعوبتیں برداشت کی ہیں ۔ فیض کیمونسٹ پارٹی کا ممبر تھا اور اس کے احکامات پر عمل کرتا تھا۔ اور جو غلطیاں کیمونسٹ پارٹی نے کیں وہ فیض نے بھی کیں لیکن ان سیاسی غلطیوں سے اس کا رتبہ کم نہیں ہوتا۔ دوسری جنگ عظیم میں جب تک روس شامل نہیں تھا اس وقت تک یہ لوگ اس جنگ کو سرمایہ داری کی جنگ کے طور پر یاد کرتے تھے لیکن سوویت یونین کے شامل ہوتے ہی ان کے نزدیک یہ جنگ عوامی جنگ بن گئی۔ ساٹھ کی دہائی میں فیض عوامی ابھار کے کمان سنبھالے ہوئے تھا ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ انقلاب کا وقت کیا ہوتا ہے تو اس نے مسکرا کر کہا یہ وقت اور زمانہ ہی انقلاب کا وقت اور زمانہ ہے۔”
بیاد فیض
مسعود منور
ہم نوا میرے، علم لے کے کہاں نکلیں گے
وہ سہل کار ہیں ، دم لے کے کہاں نکلیں گے
وہ جو ممدوح کی مدحت سے نہیں ہیں فارغ
وہ قلم کار، قلم لے کے کہاں نکلیں گے
خدمت شیخ عرب ٹھہرا ہے جن کا ایماں
اب وہ فریاد حرم لے کے کہاں نکلیں گے
اہل لشکر کی شریعت ہے، بڑا پردہ ہے
یہاں پہلو میں صنم لے کے کہاں نکلیں گے
ہم سخن ساز، بڑا نام ہمارا لیکن
فیض سی جاہ و حشم لے کے کہاں نکلیں گے
برف، پردیس، جدائی کی قیامت مسعود
دائرے درد کے خم لے کے کہاں نکلیں گے
Leave a Reply