letters-to-the-editor-full-featured1
 

مدیر محترم
میں نے2011 میں سیاست کا عملی آغاز سندھ ترقی پسند اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے ضلع نائب صدر کے عہدے کا حلف اٹھا کر کیا۔ دوران حلف میں نے اقرار کیا کہ میرا اٹھایا ہوا ہر قدم اور کیا ہوا ہر فیصلہ خالصتاً طلبہ مفادات کے تحفظ کے لیے ہوگا نہ کے کسی شخصی یا ذاتی مفاد کے تحفظ کے لیے گو یہ وعدہ سبھی لوگ کرتے ہیں مگر اس پر قائم بہت کم لوگ رہتے ہیں۔ 2012 میں مجھے ایک نئی قائم شدہ یونیورسٹی شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی نوابشاہ میں داخلہ لینا پڑا۔ ویسے میں نے تو طلبہ سیاست میں بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں مگر نظریاتی سیاست کا آغاز میں نے بے نظیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر ارشد سلیم آرائیں کے خلاف جدوجہد سے کیا جن کے خلاف حال ہی میں مالی بد عنوانیوں کی خبر روزنامہ ایکسپریس 10 جنوری 2015 کراچی کے شمارے میں شائع ہوئی۔
موجودہ سیکرٹری تعلیم سندھ اور اس وقت کے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی ہمشیرہ کی ایماء پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ارشد سلیم آرائیں کو وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔
وائس چانسلر بینظیر یونیورسٹی کے خلاف طلبہ کو سڑکوں پر کیوں آنا پڑا؟آپ کے موقر جریدے کی توسط سے میں وہ حالات آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ شہید بے نظیر یونیورسٹی کے پہلے وی سی کو سیاسی بھرتیاں نہ کرنے پر ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا ۔ موجودہ سیکرٹری تعلیم سندھ اور اس وقت کے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی ہمشیرہ کی ایماء پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ارشد سلیم آرائیں کو وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔اطلاعات کے مطابق ارشد سلیم جو پہلے کنٹرولر امتحانات تھے کی تمام ڈگریاں سیکنڈ ڈویژن میں پاس کردہ ہیں اور وہ ایچ ای سی کے مقرر کردہ معیار کے مطابق اہلیت نہیں رکھتے۔
ڈاکٹر ارشد سلیم ارائیں کی تعیناتی کے خلاف احتجاج کی اہم وجہ یہ تھی کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مطابق وائس چانسلر کم از کم پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر ہونے کے ساتھ ساتھ تمام تر گزشتہ تعلیمی اسناد کا فرسٹ ڈویژن ہونا لازمی ہے لیکن موصوف کے معاملے میں ان شرائط سے دانستہ اغماض برتا گیا جبکہ اس سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ ذیلی عہدوں پر موجود تھے، لیکن قابل افراد کو نظر انداز کر کے صرف اور صرف سیاسی مفادات کو تحفظ دینے کی غرض سے انہیں وائس چانسلر شپ سے نوازا گیا۔ روزنامہ ڈان میں اس کے خلاف ایچ ای سی کے اس وقت کے چیئرمین نے بیان دیا کہ جب تک اس وی سی کو ہٹایا نہیں جائے گا یونیورسٹی رجسٹر نہیں کی جائے گی۔ ستم ظریفی یہ کہ جو صاحب ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر بننے کے اہل نہیں انہیں سندھ یونیورسٹی حیدرآباد کا اضافی چارج بھی دے گیا۔ سنگین بے ضابطگیوں کے خلاف راقم نے 14 اساتذہ کے ساتھ مل کر اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ ایک تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ احتجاج کچلنے کے لیے مجھ سمیت دیگرطلبہ کو کرائے کے غنڈوں کی مدد سے دھمکانے کی کوشش کی گئی، ہمیں مختلف قسم کے لالچ دیے گئے۔ دھونس اور دباو کا سلسلہ یہیں نہیں رکا، اساتذہ اور طلبہ کے احتجاج کے دوران پشت پناہی کا جھوٹا الزام لگا کر رجسٹرار کہیر خان کھوسو اور دیگر اساتذہ کو جبراً ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔
اساتذہ کی برطرفی کے ردِّ عمل کے طور پر ہم نے مہم تیز کرنے کا فیصلہ کیا، مگر ہفتے کو چھٹی کے روز وائس چانسلر نے باقی اساتذہ سمیت چند طلباء جن میں میرا نام سرِ فہرست تھا کو یونیورسٹی سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کی توثیق کے لئے میٹرک پاس سیاستدانوں پر مشتمل سینڈیکیٹ کا اجلاس بلایا گیا ۔ اجلاس کی پیشگی اطلاع ملنے پر ہم نے اس نام نہاد سنڈیکیٹ کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کی غرض سے دھرنہ دینے کا فیصلہ کیا۔ اجلاس کے آغاز سے قبل پولیس کی بھاری نفری منگوائی گئی اور احتجاجی طلبہ اور اساتذہ جن میں ایک قابل ذکر تعداد خواتین طالبات اور اساتذہ کی تھی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اجلاس کے آغاز سے قبل پولیس کی بھاری نفری منگوائی گئی اور احتجاجی طلبہ اور اساتذہ جن میں ایک قابل ذکر تعداد خواتین طالبات اور اساتذہ کی تھی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
نہتے طلبہ اور اساتذہ پر یونیورسٹی حدود میں ہتھیار لانے کا جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا۔ تین اساتذہ جن میں ٹیچرز ایسوسی ایشن کے عہدیدار دلیل جتوئی بھی شامل تھے کو گرفتار کر کے سینٹرل جیل نوابشاہ بھجوادیا گیا جو بعد ازاں عدالت سے بری ہوئےراقم اور دیگر تین ساتھیوں پر یونیورسٹی میں داخلے کی ناروا پابندی لگادی گئی اور اساتذہ کو جبری طور پر برطرف کردیا گیا۔ مگربقول مسرّت عزیز
 
حق کبھی رہتا نہیں زیرِ نقاب
کس سے رکتا ہے طلوعِ آفتاب
 
سابق نائب سپیکر سندھ اسمبلی وائس سید ظفر علی شاہ نے موجود وی سی کے غیر قانونی تقرر کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ اس مقدمے میں چانسلر کے خلاف حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ میں فیصلہ محفوظ ہوچکا ہے اور وہ اگلی پیشی پر سنادیا جائے گا۔ وائس چانسلر ارشد سلیم کی کرپشن کے قصّے بھی بے نقاب ہورہے ہیں مگر ہم شہید نذیر عباسی کی سیاسی فکر کو مزید آگے بڑھانے کے لیے پر عزم ہیں تا کہ ہم ایک بہتر تعلیم یافتہ پاکستان کا خواب پورا کرسکیں۔
 
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
 
فقط
خیراندیش
مامون علوی

Leave a Reply