پوری قوم کو کبھی اتنا ایک رنگ نہیں دیکھا، ہر بندہ رویا ضرور ہوگا، ہر نیند خراب ضرور ہوئی ہوگی۔ اپنے بچوں کو ہر ماں باپ نے ایک دفعہ یہ سوچ کے گلے لگایا ہوگا، کہ کہیں ہمارا بچہ ۔۔۔
بچوں اور اساتذہ کا خون کیا بہا، انتشار کا شکار پاکستانی قوم، ایک ہو گئی۔ کیا خون میں اتنی طاقت ہوتی ہے، وہ بھی ناحق خون میں؟ خون تو پہلے بھی بہا تھا، نا حق کا بھی، لیکن۔۔۔
لیکن وہ خون اکٹھا ہوتا رہا، جام بھرتا رہا، اب کی بار چھلکا تو کیا ہوا، سب ہوش میں آگئے۔ افسوس کرنے سے پہلے اور سوگ منانے سے پہلے، کچھ اور بھی افسوس کے مقام ہیں، ان کا بھی سوگ بنتا ہے۔
بچوں اور اساتذہ کا خون کیا بہا، انتشار کا شکار پاکستانی قوم، ایک ہو گئی۔ کیا خون میں اتنی طاقت ہوتی ہے، وہ بھی ناحق خون میں؟ خون تو پہلے بھی بہا تھا، نا حق کا بھی، لیکن۔۔۔
لیکن وہ خون اکٹھا ہوتا رہا، جام بھرتا رہا، اب کی بار چھلکا تو کیا ہوا، سب ہوش میں آگئے۔ افسوس کرنے سے پہلے اور سوگ منانے سے پہلے، کچھ اور بھی افسوس کے مقام ہیں، ان کا بھی سوگ بنتا ہے۔
بچوں اور اساتذہ کا خون کیا بہا، انتشار کا شکار پاکستانی قوم، ایک ہو گئی۔ کیا خون میں اتنی طاقت ہوتی ہے، وہ بھی ناحق خون میں؟
سب سے پہلے اس بات کا سوگ، کہ ساٹھ ہزارسے زائد پاکستانیوں کے قربان ہونے کے بعد ہمیں اب سمجھ آئی کہ دشمن کون ہے۔
آیئے سوگ مناتے ہیں، اپنے ایمان کا جو قرآن کریم پہ جھوٹی قسم کھاتے نہیں ڈگمگاتا، کتے اور گدھے کے گوشت کو حلال کہہ کر بیچتے سو جاتا ہے۔جو جھوٹی گواہی دیتے وقت کہیں گوشہ نشیں ہو جاتا ہے، اس ایمان کا سوگ منالیتے تو شاید ایسا نہ ہوتا۔
آئیے سوگ منائیں، اپنے قومی کردار کا جو سگنل پہ رکنے کو اکساتا نہیں ہے۔وہ اجتماعی قومی کردار جو ہمیں ایک ذمہ دار شہری نہ بنا سکا، جو آج دنیا کے ہر ایرپورٹ پرہماری قطاریں الگ کر چکا ہے۔
سوگ بچوں کا سوگ۔
سوگ منایئے اپنی منافقت کا، جو دین کے نام پر لوگوں کے قتل کا جواز بخوشی قبول کرلیتی ہے۔ ہر دودھ والا مکہ، مدینہ اورغوثیہ نام رکھ کران مکرم ناموں کو اپنا ملاوٹ شدہ اور گندا دودھ بیچنے کا ذریعہ بناتا ہے۔ سوگ منائیے مذہب کے ناجائز استعمال پر کہ کسی کا پلاٹ ہتھیانا ہو، مسجد کی تعمیر کا بورڈ لگا دو اور کوئی شور مچائے تو اس سے زیادہ اونچی آواز میں چلاو ، شور مچاوکہ اسلام خطرے میں ہے پران مساجد میںکون کسی کو بتائےکہ نبیِ اکرم ﷺنے مسجد نبوی کی زمین کی قیمت پیشگی ادا کی تھی۔ سوگ منانا ہے تو پہلے اپنی تفہیمِ دین کا منانا کہ دین ان عناصر کے ہاتھ دے دیا ہے جنہیں فہم و فراست کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، جن کی روزی روٹی اختلافات پر چلتی ہے اور لاوڈ سپیکر پر لوگوں کی سماعتوں کا امتحان لینا ان کا نصب العین ٹھہرا ہے۔ سوگ مناتے ہیں کہ اتنے سانحے گزر گئےاور ہم کسی سے یہ نہ پوچھ سکے کہ سب کیسے ہوا؟
سوگ مناتے ہیں اپنی سادگی کا کہ ہمیں جب بھی کہا گیا کہ ایسا دین کی سر بلندی کے لیے کیا جا رہا ہے تو ہم ہر کفن فروش کومردِ مومن قرار دے کر خوشیاں منانے لگے۔
کسی کا پلاٹ ہتھیانا ہو، مسجد کی تعمیر کا بورڈ لگا دو اور کوئی شور مچائے تو اس سے زیادہ اونچی آواز میں چلاو ، شور مچاوکہ اسلام خطرے میں ہے پران مساجد میںکون کسی کو بتائےکہ نبیِ اکرم ﷺنے مسجد نبوی کی زمین کی قیمت پیشگی ادا کی تھی۔
اور ہاں سوگ مناتے ہیں اس خوش فہمی کا کہ قوم کا شعور بیدار ہو گیا ہے۔ وہ "شعور "جو قاتل کو ہیرو بنادے، پھول پہنائے اور نت نئی تاویلیں گھڑے اس کے جرم کو جواز دینے کے لیے۔وہ ادراک جو بے چارے مظلوم کو بتائے کہ تیرے ساتھ ایسا ہے ہونا چاہیے تھا، تو تو ہے ہی ایجنٹ، کافر اور مردود۔ ماتم کرتے ہیں قوم کے اس” اجتماعی شعور” کا جو حملہ آور کو ہیرو اور گولی کاشکار ہونے والی چودہ سالہ بچی کو ڈرامہ کوئین، ایجنٹ اور نجانے کیا کیا کہتا ہو۔ بین کریں اس دانش پرجو باقاعدہ کالم لکھ کر امید کی واحد کرن کی کردار کشی کرے ۔ جہاں خلقت کج کلاہوں کو دستاریں پہناتی ہے، سیہ کاروں کے سب گناہ معاف کر دیتی ہےاور جسے ذلیل کرنا ہو چاہے وہ کتنا ہی قد آور اور معتبر ہو اس پر تہمت اور الزام کے سٹیکر چپکا کر بیچ چوراہے کھڑا کر دیتی ہے وہاں سوگ منانا ہی جینے کی واحد علامت قرار پائے گا۔
سوگ منائیے اس شعور کا جو سازشی مفروضوں سے بہل جاتا ہے،جو ہر منجن بیچنے والے کو نجات دہندہ اور انقلابی سمجھتا ہے اور ضمیر فروشوں کو اپنی تجوریاں سونپ کر چین سے سوتا ہے۔ ایسی فہم و دانش پر سوگ کے ساتھ ساتھ سر پیٹنا بھی بنتا ہے کیوں ہم اس دیس کے باسی ہیں جہاں گنگا الٹی بہتی ہے،جہاں آمریت میں جمہوریت یادآتی ہے اور جمہوریت میں آمریت کا آسرا ڈھونڈا جاتا ہے۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں بانی قوم کو ایمبولنس نہ مل سکی، اس کی بہن کے خلاف ایک فرشتہ الیکشن لڑنے کو آگیا۔ ملک کے منتخب وزیرِاعظم یا تو لٹکا دیے جاتے ہیں یا جلاوطن کر دیے جاتے ہیں۔حب الوطنی کے نام پر ہر سیاسی حکومت کو دیوار سے لگانے کے لئے اسی کی برادری کو وعدہ معاف گواہ بنا کرذلیل کرنے کا چلن نیا نہیں۔ جہاں ملک کو خطرے میں قرار دے کر آئین توڑنا ضرورت کے تحت جائزٹھہرے اور گم شدگان کا جرم پوچھنا ملکی سالمیت کانقصان قرار پائے تو جان لیجیے کہ وہاںسیاسی ناخداوں مصلحت کا شکار ہیں اور محافظ اپنی ہی پارلیمان فتح کرنے کو ہتھیار بند ہیں۔
سوگ منائیے اس شعور کا جو سازشی مفروضوں سے بہل جاتا ہے،جو ہر منجن بیچنے والے کو نجات دہندہ اور انقلابی سمجھتا ہے اور ضمیر فروشوں کو اپنی تجوریاں سونپ کر چین سے سوتا ہے۔ ایسی فہم و دانش پر سوگ کے ساتھ ساتھ سر پیٹنا بھی بنتا ہے کیوں ہم اس دیس کے باسی ہیں جہاں گنگا الٹی بہتی ہے،جہاں آمریت میں جمہوریت یادآتی ہے اور جمہوریت میں آمریت کا آسرا ڈھونڈا جاتا ہے۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں بانی قوم کو ایمبولنس نہ مل سکی، اس کی بہن کے خلاف ایک فرشتہ الیکشن لڑنے کو آگیا۔ ملک کے منتخب وزیرِاعظم یا تو لٹکا دیے جاتے ہیں یا جلاوطن کر دیے جاتے ہیں۔حب الوطنی کے نام پر ہر سیاسی حکومت کو دیوار سے لگانے کے لئے اسی کی برادری کو وعدہ معاف گواہ بنا کرذلیل کرنے کا چلن نیا نہیں۔ جہاں ملک کو خطرے میں قرار دے کر آئین توڑنا ضرورت کے تحت جائزٹھہرے اور گم شدگان کا جرم پوچھنا ملکی سالمیت کانقصان قرار پائے تو جان لیجیے کہ وہاںسیاسی ناخداوں مصلحت کا شکار ہیں اور محافظ اپنی ہی پارلیمان فتح کرنے کو ہتھیار بند ہیں۔
کافر کافر کے اس کھیل میں جلائی گئی بستیوں، بھٹی میں جھونک دی جانے والی جانوں اور چن چن کر مارے جانے والوں پر بھی اگر چند آنسو بہالیے جاتے تو شاید ستر ہزار میں سے چند ہزار پاکستانی ہم میں ابھی بھی ہوتے۔
یہاں سوگ مننا واجب ہے کیوں کہ یہاں فضل اللہ کے شریعت کے نام پردیے گئےاشتعال انگیز خطبے سننے والے تماشائی بنےرہے، ریاست کےخلاف اس کی کھلی بغاوت پر ریاستی اداروں کی خاموشی اور مساجد کے منبر و محراب سے جاری ہونے والے کفر کے فتووں پر سبھی چپ سادھے بیٹھے رہے۔ اس بےپرواہی کا سوگ منایا جانا بھی ضروری ہے، چند صدیاں یا چند دہائیاں قبل نہیں اگر چند برس پہلے ہی یہ یک رنگی دیکھ لینے کو مل جاتی تو کیا معلوم آج کتنے بچے زندہ ہوتے۔
پہلے گھر کے آنگن میں سانپ پالے اور سب کو ڈرایا، اب جب گھر کے بچوں کو کاٹنے لگے تو ان سنپولیوں کو مارنے کا تہیہ کیا گیا ہے۔ سانپ پالنے کی اس بصیرت پر ماتم نہ کیا جائے تو کیا کیا جائے۔
کافر کافر کے اس کھیل میں جلائی گئی بستیوں، بھٹی میں جھونک دی جانے والی جانوں اور چن چن کر مارے جانے والوں پر بھی اگر چند آنسو بہالیے جاتے تو شاید ستر ہزار میں سے چند ہزار پاکستانی ہم میں ابھی بھی ہوتے۔
باتیں تو اور بھی ہیں ماتم اور سوگ کے لئے، لیکن کیا کیا جائے پشاور کے بچوں کے لیے فی الحال پشاور سانحے کا ہی سوگ کرتے ہیں۔
پہلے گھر کے آنگن میں سانپ پالے اور سب کو ڈرایا، اب جب گھر کے بچوں کو کاٹنے لگے تو ان سنپولیوں کو مارنے کا تہیہ کیا گیا ہے۔ سانپ پالنے کی اس بصیرت پر ماتم نہ کیا جائے تو کیا کیا جائے۔
کافر کافر کے اس کھیل میں جلائی گئی بستیوں، بھٹی میں جھونک دی جانے والی جانوں اور چن چن کر مارے جانے والوں پر بھی اگر چند آنسو بہالیے جاتے تو شاید ستر ہزار میں سے چند ہزار پاکستانی ہم میں ابھی بھی ہوتے۔
باتیں تو اور بھی ہیں ماتم اور سوگ کے لئے، لیکن کیا کیا جائے پشاور کے بچوں کے لیے فی الحال پشاور سانحے کا ہی سوگ کرتے ہیں۔
very good article and very much true…