انقلاب کے موضوع پر گزشتہ برس ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران میں نے حاضرین سے جب یہ پوچھا کہ ’آپ میں سے کتنے لوگ سول نافرمانی پر یقین رکھتے ہیں؟‘ تو کوئی ایک فرد بھی اس سوال کا جواب ہاں میں دینے پر آمادہ نہیں تھا۔ میں نے سوال آسان انداز میں دہرایا، ’آپ میں سے کتنے لوگ اپنے حقوق کے لیے قانون ہاتھ میں لینے اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والی صعوبتیں جھیلنے کے لیے تیار ہیں؟‘ ہال میں بدستور سناٹا طاری رہا، میں نے پوچھا، کوئی نہیں؟تو اکثر لوگوں کا جواب نہیں میں تھا۔ میں نے ایک اور سوال داغ دیا، ’آپ میں سے کتنے لوگ تبدیلی چاہتے ہیں؟‘ اس مرتبہ کئی ہاتھ بلند ہوئےتب میں نے کہا، ’ تبدیلی و انقلاب سننے میں تو بڑے اچھے لگتے ہیں لیکن ان کا حصول و حاصل مثبت ہو نا ضروری نہیں، ہاں اگر آپ ترقی و ارتقأ پر بات کرنا چاہتے ہیں تو پھر کچھ بات بن سکتی ہے۔”کانفرنس میں شریک بیشتر افراد تبدیلی کی بجائے ترقی اور ارتقاء کے حامی نظر آئے۔
انقلاب خون مانگتا ہےاور میں نہیں سمجھتا کہ چند منچلوں کی فرمائش پر قوم کے سپوتوں کوقوم ہی سے لڑا دیا جائے۔ انقلاب کے دلدادہ یہ من چلے اور جنونی اگر منرل واٹر نہ پئیں تو انہیں جلاب لگ جاتے ہیں، یہ ڈنڈے کیسے کھائیں گے؟ آنسو گیس پھینکی جائے گی ان پر، لاٹھیاں برسیں گی، گولیاں چلیں گی،قید و بند کی صعوبتیں کیوں کر سہیں گے؟
اگر ہمیں معاشرے کو ترقی کرتا دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس معاشرے، قوم اور ریاست کو اس کے نقائص سمیت اپنانا ہوگا اور فوری بہتری کے لئے موجودہ سیاسی نظام میں بھرپور شمولیت یقینی بنانا ہو گی؛ ووٹ ڈالنا ہوگااگر کوئی مناسب نمائندہ موجود نہ ہو تو خود انتخابی عمل میں حصہ لینا ہوگا ، سگنل پر رکنا ہوگااوردوسروں کو بھی قانون کی پابندی کا درس دینا ہوگا۔ اگر گلی میں خاکروب کسی روز نہ آئے تو اس پر چار حرف بھیج کر چپ ہو جانے کی بجائے متعلقہ ادارے میں جاکر شکایت درج کرانا ہوگی بلکہ خود اس کوڑے کرکٹ اور گندگی کو ٹھکانے لگانا ہوگا جو پورے محلے کے لیئے باعثِ زحمت ہو۔ سماجی ارتقاء محض غیر متحرک سماجی موجودگی کا نام نہیں بلکہ فعال سماجی سرگرمی کا نام ہے۔
اگر اقتصادیات میں انقلاب بپا کرنا ہے تو، کاروبار کا مرکز، منافع سے ہٹا کر ملازمین اور کرہ ارض پر مرکوز کرنا ہوگا۔ ایسا نفع جو افرادا ور سماج کے نقصان اور استحصال سے کمایا جائے، منافع نہیں خسارہ ہے۔ منافع بڑھانے کے لئے ملازمین کو چھٹی نہ دینا، زیادہ کام لے کرکم اجرت دینا، کسی مشکل میں گھِر جانے پر امداد نہ دینا ایک منفی و مفلوج سوچ کا شاخسانہ ہے، ایک پریشان، بیمار اور لاغر ملازم پورے ادارے کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتا ہے، اوراطمینان کار نہ ہونے کے باعث بددل ہو جاتا ہے۔ ماحول ،آب و ہوا اور قدرتی وسائل کو نقصان پہنچا نے والی اقتصادی سرگرمیوں مثلاً توانائی اور ایندھن کا ضیاع اور ماحول دشمن فضلہ کا اخراج سے گریز بھی ضروری ہے۔
ارتقاء کی سب سے زیادہ ضرورت ذرائع ابلاغ کو ہے،آج وہ خبر اہم نہیں جو عوام کو حالات سے آگاہ کرے بلکہ وہ خبر اہم ہے جس سے عوام میں کھلبلی مچ جائے۔ صحافتی اقدار مجروح ہو چکی ہیں، ذاتی تعلقات کی بنیاد پر صحافتی اخلاقیات سے بے بہرہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو چینلز میں بھرتی کرلیا گیا ہے۔ دانستہ و غیر دانستہ زرد صحافت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ معاملہ صرف یہیں تک نہیں ، دوسروں کو آئینہ دکھانے والے یہ چینلز اپنے ملازمین کے حقوق بری طرح مجروح کرتے رہتے ہیں۔ المیہ دیکھیے ٹی وی چینلز کا کیمرہ تو بیمہ شدہ ہوتا ہو، لیکن اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے والے کیمرہ مین اور رپورٹر ہر قسم کے سماجی تحفظ اور بیمہ سے محروم رکھے جاتے ہیں۔ میڈیا کوبہتری اور ترقی کے لئے تدریسی نشستوں کا انعقاد کرنا ہوگا، عمرانیات، صحافت ، ابلاغِ عامہ یا تعلقاتِ عامہ کی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانون کو اس شعبہ میں سامنے لانا ہوگا اورسنسنی خیزی سے گریز کرنا ہوگا۔
انقلاب کی داعی تمام سیاسی جماعتوں سے عرض ہے کہ انقلاب اب موزوں سیاسی حل نہیں رہا۔انقلاب خون مانگتا ہےاور میں نہیں سمجھتا کہ چند منچلوں کی فرمائش پر قوم کے سپوتوں کوقوم ہی سے لڑا دیا جائے۔ انقلاب کے دلدادہ یہ من چلے اور جنونی اگر منرل واٹر نہ پئیں تو انہیں جلاب لگ جاتے ہیں، یہ ڈنڈے کیسے کھائیں گے؟ آنسو گیس پھینکی جائے گی ان پر، لاٹھیاں برسیں گی، گولیاں چلیں گی،قید و بند کی صعوبتیں کیوں کر سہیں گے؟سوال یہ بھی ہے کہ آخرانقلاب برپا کس کے خلاف کیا جا رہا ہے؛تاجِ برطانیہ کے خلاف یا کمپنی راج کے خلاف؟ ایک اور انقلاب لانے والے آخر کس آمر اور غاصب کے خلاف نکلیں گے؟ یہ تو سلطانیِ جمہورکا دور ہےایک مہر اور ووٹ کی ایک پرچی قوم کی قسمت کا فیصلہ کرڈالتی ہے۔ چی گویرا کی ٹی-شرٹ پہننے سے بندہ انقلابی نہیں بن جاتا ، انقلاب لانے سے قبل انقلاب فرانس اوربالشویک انقلاب کی تاریخ پڑھنا بھی ضروری ہے۔موجودہ سیاسی صورت حال کسی انقلاب کی متحمل نہیں ہو سکتی، بلکہ ترقی اور ارتقاء کے انسانی فلسفہ اور عدم تشدد پر مبنی سیاسی تحریکوں کی بنیاد پر ہی حقیقی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
اگر اقتصادیات میں انقلاب بپا کرنا ہے تو، کاروبار کا مرکز، منافع سے ہٹا کر ملازمین اور کرہ ارض پر مرکوز کرنا ہوگا۔ ایسا نفع جو افرادا ور سماج کے نقصان اور استحصال سے کمایا جائے، منافع نہیں خسارہ ہے۔ منافع بڑھانے کے لئے ملازمین کو چھٹی نہ دینا، زیادہ کام لے کرکم اجرت دینا، کسی مشکل میں گھِر جانے پر امداد نہ دینا ایک منفی و مفلوج سوچ کا شاخسانہ ہے، ایک پریشان، بیمار اور لاغر ملازم پورے ادارے کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتا ہے، اوراطمینان کار نہ ہونے کے باعث بددل ہو جاتا ہے۔ ماحول ،آب و ہوا اور قدرتی وسائل کو نقصان پہنچا نے والی اقتصادی سرگرمیوں مثلاً توانائی اور ایندھن کا ضیاع اور ماحول دشمن فضلہ کا اخراج سے گریز بھی ضروری ہے۔
ارتقاء کی سب سے زیادہ ضرورت ذرائع ابلاغ کو ہے،آج وہ خبر اہم نہیں جو عوام کو حالات سے آگاہ کرے بلکہ وہ خبر اہم ہے جس سے عوام میں کھلبلی مچ جائے۔ صحافتی اقدار مجروح ہو چکی ہیں، ذاتی تعلقات کی بنیاد پر صحافتی اخلاقیات سے بے بہرہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو چینلز میں بھرتی کرلیا گیا ہے۔ دانستہ و غیر دانستہ زرد صحافت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ معاملہ صرف یہیں تک نہیں ، دوسروں کو آئینہ دکھانے والے یہ چینلز اپنے ملازمین کے حقوق بری طرح مجروح کرتے رہتے ہیں۔ المیہ دیکھیے ٹی وی چینلز کا کیمرہ تو بیمہ شدہ ہوتا ہو، لیکن اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے والے کیمرہ مین اور رپورٹر ہر قسم کے سماجی تحفظ اور بیمہ سے محروم رکھے جاتے ہیں۔ میڈیا کوبہتری اور ترقی کے لئے تدریسی نشستوں کا انعقاد کرنا ہوگا، عمرانیات، صحافت ، ابلاغِ عامہ یا تعلقاتِ عامہ کی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانون کو اس شعبہ میں سامنے لانا ہوگا اورسنسنی خیزی سے گریز کرنا ہوگا۔
انقلاب کی داعی تمام سیاسی جماعتوں سے عرض ہے کہ انقلاب اب موزوں سیاسی حل نہیں رہا۔انقلاب خون مانگتا ہےاور میں نہیں سمجھتا کہ چند منچلوں کی فرمائش پر قوم کے سپوتوں کوقوم ہی سے لڑا دیا جائے۔ انقلاب کے دلدادہ یہ من چلے اور جنونی اگر منرل واٹر نہ پئیں تو انہیں جلاب لگ جاتے ہیں، یہ ڈنڈے کیسے کھائیں گے؟ آنسو گیس پھینکی جائے گی ان پر، لاٹھیاں برسیں گی، گولیاں چلیں گی،قید و بند کی صعوبتیں کیوں کر سہیں گے؟سوال یہ بھی ہے کہ آخرانقلاب برپا کس کے خلاف کیا جا رہا ہے؛تاجِ برطانیہ کے خلاف یا کمپنی راج کے خلاف؟ ایک اور انقلاب لانے والے آخر کس آمر اور غاصب کے خلاف نکلیں گے؟ یہ تو سلطانیِ جمہورکا دور ہےایک مہر اور ووٹ کی ایک پرچی قوم کی قسمت کا فیصلہ کرڈالتی ہے۔ چی گویرا کی ٹی-شرٹ پہننے سے بندہ انقلابی نہیں بن جاتا ، انقلاب لانے سے قبل انقلاب فرانس اوربالشویک انقلاب کی تاریخ پڑھنا بھی ضروری ہے۔موجودہ سیاسی صورت حال کسی انقلاب کی متحمل نہیں ہو سکتی، بلکہ ترقی اور ارتقاء کے انسانی فلسفہ اور عدم تشدد پر مبنی سیاسی تحریکوں کی بنیاد پر ہی حقیقی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
کسی حضرت کے نزدیک انقلاب کا مطلب ہے کے فوج ایوان پر قبضہ کرلے اور کسی کے لئے انقلاب ١٤ اگست کو آے گا اور ١٥ اگست کو ملک جنت بن جاتے گا .. آپ نے حق بات کی ہے _