ملک محمد حاکم بیساکھی پر قصبے کی دکانوں کا پھیرا لگا کر شبیر کے ہوٹل پہنچا۔ اس کی مختصر گٹھڑی میں سے پتی کی پڑیاں اور چاول نظر آرہے تھے۔ اس نے بینچ پر گٹھڑی پھینکی ، دائیں پیر کے فوجی بوٹ کا تسمہ کھولا اور نڈھال ہو کر گر گیا ۔ٹھنڈے پانی کا گلاس پی کر اس کی طبیعت کچھ بحال ہوئی تو اسے یاد آیا کہ سگریٹ پیے ہوئے اسے دیر ہو گئی ۔ اس نے جیب سے ایمبسی فلٹر کا ٹوٹا نکال کر سلگایا۔
اس کا پہلاکش لیتے ہی وہ حساب کے دقیق مسئلے میں الجھ گیا ۔ اس نے ان دوکانوں کو شمار کیا ،وہ جن کا پھیرالگا کر آرہا تھا ۔ اس نے بازار کی تمام دکانوں میں سے ان کو منفی کیا ، جہاں سے اسے خالی لوٹا یا گیا تھا۔ پھر اس نے چیزوں کی گنتی شروع کی اوران کی مقدارکا اندازہ لگانے لگا ۔ سب کی سب چیزیں معمولی نوعیت کی تھیں اور انکی مقدار اتنی کم تھی کہ وہ گڑ بڑا گیا۔چیزوں کی عمومیت بڑھنے اور ان کی مقدار کے گھٹنے کے عمل کی رفتار کچھ دنوں سے تیز ہو گئی تھی ۔ اس نے بے چارگی سے گٹھڑی کی طرف دیکھا اور اسے ٹٹولا مگر بات سلجھ نہیں سکی ۔ وہ ہوٹل میں گٹھڑی کھول کر خود کو مذاق بنانا نہیں چاہتا تھا ۔اس لئے وہ ٹھنڈا سانس بھر کے رہ گیا۔
جنگ تو ہونے والی ہے ۔ اس واسطے نہیں کہ سرحد پر کشیدگی ہے یا اخبار شور مچارہے ہیں۔ اس واسطے کہ آوارہ، سرپھری ہوا بتارہی ہے ،آسمان اشارے کر رہا ہے ۔ تم نے سورج کے غصے کو محسوس نہیں کیا؟ چاند ستاروں کی ناراضی نہیں دیکھی؟
یہ تمام درد سری وہ اپنی بہن کی خاطرمول لیتا تھا جس کی طبیعت پچھلے کچھ عرصے سے لا ابالی ہوگئی تھی ۔ وہ ندیدی اور حریص ہو گئی تھی۔ وہ دن بھرویران گھر میں اس کے انتظار کے ساتھ گٹھڑی کا انتظار بھی کرتی رہتی ، اس کے گھر پہنچتے ہی وہ اس پر جھپٹ پڑتی۔ چیزیں ایسے میں زمین پر گر جاتیں،تھیلیاں اور پڑیاں پھٹ جاتیں۔ کل نمک کی تھیلی اور چینی کے لفافے کے مٹی میں ملنے کا واقعہ اسے یاد تھا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ آج اسے خود سے دور ہی رکھوں گا اور ہرگزگٹھڑی نہیں چھونے دوں گا گٹھڑی کوبغل میں دبا کر اسے چیزوں کے بارے میں ایسے چٹپٹے اور لچھے دار انداز سے بتاوں گا کہ وہ اپنی دھند لائی آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگ جائے۔
ملک محمد حاکم نے گالی دے کر ہوٹل کے مالک موٹے شبیر کو بلایا ۔ جواباً شبیرنے بھی موٹی گالی دی ۔ملک نے قہقہہ لگا کر اس کی گالی کو سراہا اور اس کی خاموش ہنسی کو نظر انداز کرتے ہوئے آج اس کے ہوٹل پر پکنے والے سالن کے متعلق استفسار کیا۔
اس کا استفسار سن کر شبیر کے موٹے پیٹ میں گدگدی ہونے لگی۔’بھوتنی کے ، ایسے پوچھ رہا ہے کہ باپ کا ہوٹل ہو‘‘ اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے اس نے اپنے ملازم سے دال ماش لانے کو کہا اور ملک کے سامنے بینچ پر بیٹھ گیا ۔’’اور ملک جنگ کی کیا خبر ہے؟ ‘‘ اس نے ملک سے چھیڑ چھاڑ کی۔’’ جنگ میں تیری ٹانگ چلی گئی ۔ تو پھر بھی چاہتا ہے کہ جنگ کی نحوست آئے ۔ ابے اچھی خاصی امن سے گزر رہی ہے ۔ سوچ لے اب کے جنگ ہوئی نا ، تو پھر تونہیں بچے گا‘‘۔ وہ پھر خاموش ہنسی میں لوٹنے لگا۔
ملک کے لیے جنگ کی بات نازک حیثیت رکھتی تھی۔ اس نے دال ماش فرائی کی وجہ سے شبیر کی جانب سے چھیڑے جانے والے موضوع کی نازکی کونظرانداز کیااور اپنے مخصوص انداز میں اسے صرف گالی دینے پر ہی اکتفا کیا۔’’سورتوڈی ماؤنا جتھا‘‘(سورتیری ماں کی ایسی کی تیسی)۔
ملک کے مخصوص چکوالی لب و لہجے میں ٹھیٹھ گالی سن کر شبیرکے پیٹ میں بل پڑ گئے اور ہنسی سے آنکھیں اندر دھنس گئیں ۔ لیکن اب ملک محمد حاکم سنجیدہ ہو چکا تھا ۔’’جنگ تو ہونے والی ہے ۔ اس واسطے نہیں کہ سرحد پر کشیدگی ہے یا اخبار شور مچارہے ہیں۔ اس واسطے کہ آوارہ، سرپھری ہوا بتارہی ہے ،آسمان اشارے کر رہا ہے ۔ تم نے سورج کے غصے کو محسوس نہیں کیا؟ چاند ستاروں کی ناراضی نہیں دیکھی؟‘‘ بلند لہجے میں بات کرتے ہوئے اس کا سفیدہ چہرہ سرخ پڑ گیاااور اس کی آنکھیں دہکنے لگیں۔اس کی یہ کیفیت دیکھ کرشبیر کی ہنسی رک گئی ۔ وہ اسے گھوتے ہوئے بولا ’’تو پھر اونگی بونگی ہانکنے لگا۔ ابے چر چوت(احمق)، سورج چاند ستارے کیا تجھی سے بات کرتے ہیں ؟‘‘
ملازم دال ماش فرائی اور گرم روٹیاں رکھ کے چلا گیا ، ملک نے نوالہ توڑا اور سالن میں گھما کر منہ میں رکھ لیا۔ہوٹل کا مالک بڑبڑاتا ہوا اٹھ گیا۔وہاں پولیس کے دو سپاہی اور ایک اسکول ٹیچر بھی کھانا کھا رہے تھے ۔ وہ ملک پر فقرے اچھالنے لگے۔ملک اکثر ان کے فقرے سن کر چراغ پا ہو جایا کرتا تھا مگرآج ملک طیش میں نہیں آیا کیوں کہ قبضے کے بڑے سیٹھ کرم دین نے اسے چائے پلوائی تھی اوراس سے جنگ کے بارے میں سوالات پوچھتا رہا تھا۔ اس لیے ملک ان بے حیثیت لوگوں سے الجھنا نہیں چاہتا تھا۔
وہ سوچنے لگا، ہڈیاں سیم زدہ مٹی میں گل سڑچکیں ،سارے کتبے شور زدہ زمین کے اندر دھنس گئے ،یہ تمام ڈھیریاں تو برائے نام رہ گئی ہیں ، اب یہاں نئے مردے آباد ہونے چاہئیں ۔ اس نے جنگ کے بعد کے دنوں کا تصور باندھا ۔
ملک شکم سیر ہونے کے بعدہوٹل سے نکلااور قبرستان والی گلی میں چلنے لگا۔ طویل گلی میں دونون طرف واقع مکانوں کے دروازے بند تھے اور دیواروں کے سائے میں مویشی بندھے تھے ۔ گرم ہوا کے جھلسادینے والے جھونکے گلی میں ہر طرف سر ٹکراتے پھرتے تھے۔ لوکی تیز حدّت سے گھبرا کر اس نے گٹھڑی والے انگوچھے (کندھے پر رکھنے والا رومال)کو اپنے سر پر اوڑھ لیا۔
وہ سورچ رہا تھا؛کچھ عرصہ پہلے تک اسے ہرہفتے ایک پھیرے سے اتنا مل جاتا تھا کہ اسے دس دن بازار کا رخ نہیں کرناپڑتا تھا۔وہ لو کی حدت کو نظرانداز کر کے گلی کے بیچوں بیچ کھڑا ہو گیا اور سفیدآسمان کو دیکھنے لگا۔ اس نے سانس کھینچ کر لو کے تپتے ہوئے جھونکوں کو اپنے پھیپھڑوں میں بھرا۔ کوئی شے سونگھنے کے لیے اپنے نتھنوں کو پھڑکایا اور پھر کھٹ سے اپنی بیساکھی زمین پر مار کر پلکیں جھپکائے بغیروہ سورج کی طرف دیکھنے لگا ۔سورج کو گھورتے ہوئے اچانک وہ مسکریا، پھر بڑبڑاتا چل دیا’’اصلی ویلاکول آگیا ، تھوڑے دھیاڑے باقی رہ گئے ہن‘‘(اصلی وقت قریب آ پہنچا، تھوڑ ے دن باقی رہ گئے ہیں)۔
مجھے اپنی فوجی ملازمت کے دوران تین میڈل ملے تھے ، ان میں سے ایک حکومت نے مجھے میری بہادری کے صلے میں عطا کیا تھا۔غربت بڑی ظالم شے ہےپاپی پیٹ کی بھوک مٹانے کے لئے میں وہ تینوں میڈل بیچ کر کھا گیا۔
ملک چلتے چلتے پھیلے ہوئے بے دیوار قبرستان میں داخل ہوا توایک آوارہ کتا زبان باہر نکالے اس کی طرف لپکا ، اس نے بیساکھی اس کے جسم پر ٹکائی تووہ کچی پکی قبریں پھلانگتا ہوابھاگ گیا۔
ملک نے خفقانی ہنسی ہنستے ہوئے زمین سے اٹھتی گرم لہروں کو دیکھا۔ اسے لگا کہ مردوں کی روحیں آسمان کی طرف بھاگ رہی ہیں ۔ وہ سوچنے لگا، ہڈیاں سیم زدہ مٹی میں گل سڑچکیں ،سارے کتبے شور زدہ زمین کے اندر دھنس گئے ،یہ تمام ڈھیریاں تو برائے نام رہ گئی ہیں ، اب یہاں نئے مردے آباد ہونے چاہئیں ۔ اس نے جنگ کے بعد کے دنوں کا تصور باندھا ۔ اسے دور ریلوے کے پھاٹک تک قبریں نظر آئیں ۔ جن پر پھول نہیں تھے ۔ اگر بتیوں اور لوبان کا دھواں ان کے درمیان پھیلا ہوا نہیں تھا۔ اسے دکانداروں کی نخوت یاد آئی ۔ وہ مسکرایا کہ اس جنگ کے بعد کوئی نہیں بچے گا ، تمام کاروبار پر اس کا اجارہ ہوگا۔ لوگ اس کی تعظیم کریں گے ۔
لوکا گرم جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا تو وہ چونکا۔ملک اس عجیب و غریب کیفیت سے نکلا تو اسے لو کی تپش محسوس ہونے لگی۔ وہ مٹھل شاہ کے مزار کی جانب چل دیا۔اس نے دو پہر مٹھل شاہ کے مقبرے کے پاس ٹھنڈی چھاوں والے گھنے نیم کے پیڑ کے نیچے گزاری۔
شام گرمی کی حدت کچھ کم ہوئی تو وہ ریلوے اسٹیشن والے پل پر جا بیٹھا۔
پلیٹ فارم کے نزدیک میدان میں لڑکے کھیل رہے تھے ۔ ذرا فاصلے پر واقع اکھاڑے سے پہلوانوں کے نعرے بلند ہو رہے تھے ۔
ملک، راشد کا منتظر تھا۔ راشد کالج میں طالب علم تھا اور اس سے جنگ کی کہانیاں سنتا تھا ۔ راشدکو آتا ہوادیکھ کر وہ مسکرایا ، پھر ہنسے لگا ۔ اس نےپل کی سیڑھی پر ذرا سا کھسک کر اسے بیٹھنے کیلئے جگہ دی ۔وہ ملک کی بڑھی ہوئی شیو اور میلا کر تا دیکھ کر اس کی سرزنش کرنے لگا بعد میں اس نے اپنی جیب سے کچھ ٹافیاں نکال کر اس کی طرف بڑھائیں۔
ملک نے ایک ٹافی کھول کر منہ میں رکھ لی اور پھر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔وہ ہر طرح کی گفتگومیں جنگ کو گھسیٹ لاتا تھا۔اس کی دہرائی ہوئی باتیں راشد غور سے سنتا تھا۔
ملک خوشی میں بولتا جا رہا تھا ’’ جب ٹانگ پر گولیاں لگیں تو مجھے درد نہیں ہوا۔ اس حرامی کے سینے پر میں نے برسٹ مارا اور پیدل مورچے تک گیا ۔ بہت خون نکلا ۔ دو کنستر بھر جاتے ۔ خون بہنے سے میں بے ہوش ہو گیا ۔ ہسپتال والوں نے بتایا کہ مجھے تین دن تک ہوش نہیں آیا ۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں بالکل ننگا تھا ۔ الف ننگا !اوردو نرسیں میرے پاس کھڑی تھیں ۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ جنگ میں فتح کی خبر مجھے انہوں نے ہی سنائی تھی ۔ میں وہاں جتنے دن رہا ۔ میری شیو وہی بناتی رہیں، وہی مجھے نہلاتیتی دھلاتی رہیں اور مجھے کپڑے تبدیل کرواتی رہیں۔ انہوں نے تو مجھے نامرد سمجھ لیا تھاجبکہ میں نا مرد نہیں تھا، صرف ایک ٹانگ سے محروم ہوا تھا۔‘‘
آہ بھرتے ہوئے اس نے اپنے کرتے کی جیب سے نسوار کی ڈبیا نکالی، اسے کھول کر اس نے نسوار کی ایک چٹکی ہونٹوں کے پیچھے دبائی اور اپنی بات مکمل کی’’بہت حسین تھیں وہ دونوں ہائے‘‘۔
راشد میدان میں کھیلتے بچوں کی طرف دیکھنے لگا جبکہ ملک گم صم بیٹھا رہا۔
کچھ دیر بعد ملک فخروانبساط سے گویا ہوا۔’’مجھے اپنی فوجی ملازمت کے دوران تین میڈل ملے تھے ، ان میں سے ایک حکومت نے مجھے میری بہادری کے صلے میں عطا کیا تھا۔غربت بڑی ظالم شے ہےپاپی پیٹ کی بھوک مٹانے کے لئے میں وہ تینوں میڈل بیچ کر کھا گیا۔‘‘
سورج قصبے کی اونچی نیچی عمارتوں کے پیچھے ڈوب گیا۔ مسجدوں میں مغرب کی اذان ہو نے لگی تو راشد نے جانے کے لئے اجازت مانگی۔
ملک نے بیساکھی پر چلتے ہوئے ریلوے لائن عبور کی اور گٹھڑی سنبھالتا ہوا اپنے گھر کوچل دیا۔
صبح کی لائی ہوئی بد نصیبی اور قصبے میں حاصل امتیاز کے ملیا میٹ ہونے کے سانحے سے بے خبر ملک محمد حاکم کبھی زمین اور کبھی آسمان دیکھ رہا تھا۔ اس کے ماتھے پر شکنیں تھیں اور آنکھوں میں نیند کا خمار۔ذرا سے فاصلے پر اس کی بیساکھی پڑی تھی۔ اس کے کرتے پر مردہ مچھروں کے کے خون کے دھبے نظر آرہے تھے۔
صبح کو گلی سے سنائی دینے والی زندگی سے معمور آوازوں نے اس کی امید کو ختم کر دیا ۔اس نے جماہی لی اوراپنی گردن کھجانے لگا۔ اس نے چولہے کے پاس بیٹھی اپنی ضعیف و نژادبہن کو ایک نظر دیکھا۔ لگتا تھا وہ خود کو چولہے میں جھونک رہی ہے ۔اس نے جلتی ہوئی لکڑیوں کی تڑتڑاہٹ سنی اور آس پاس پھیلے ہوئے دھویں کی بو کو سونگھا۔ اس نے صحن کا جائزہ لیا ۔ نیم کے پتے ،کاغذو ں کے ٹکڑے اور نجانے کیا کیا وہاں بکھرا پڑاتھا۔
اس نے بلغم کے لچھے زمین پر پھینکے اور اس کے بعد اس نے اپنی جیب سے نسوار کی ڈبیا نکالی،ڈبیا سے نسوار کی ایک چٹکی نکال کرہونٹوں کے پیچھے دبائی تو اس کی نیند کا خمار اترنے لگا۔ اس نے انگڑائی لیتے ہوئے کمر کے پٹاخے نکالے ۔ پھر خفگی سے چار پائی کو دیکھا۔ جس کے جھول نے اس کے جسم کی درگت بنادی تھی۔اس نے ایک ہاتھ سے زمین پر جھک کر اپنی بیساکھی اٹھائی اور اس پر وہ اٹھ کھڑاہوا۔اس نے گھڑ ونچی سے پانی نکال کر اپنے چہرے پر مٹکے کے ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے ۔پیاس محسوس کرتے ہوئے اسے غصہ آیا ۔ اس نے انگلی سے نسوار کو نکال پھینکا، کلی کرنے کے بعد وہ پانی پینے لگا۔
بیساکھی نیچے رکھ کروہ چولہے کے نزدیک پیڑھی پر بیٹھ گیا ۔ اس کی بہن نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔ اس نے دوپٹے کی مدد سے چولہے پر رکھی دیگچی اتاری اور چائے کو چھانے بغیر پیالوں میں انڈیلنے لگی۔
چائے کا سڑپالگا کر بڑھیا نے بھائی سے نسوار مانگی ۔
ملک نے رعونت سے اسے دیکھا۔’’بڈھی ہو گئی ۔ عادت نہیں بدلی‘‘ وہ بہن کو پڑیا تھماتے ہوئے بولا۔
چائے کے تین پیالے پینے کے بعد وہ اپنی بیساکھی کے سہارے اٹھا اور بہن سے خدا حافظ کہتا آج کی مہم پر روانہ ہوگیا۔
وہ اپنے برسوں پرانے معمول کو دوہراتے ہوئے پلیٹ فارم پر واقع چائے کے اسٹال پرپہنچا۔کوئی ٹرین آنے والی تھی۔ لوگ پلیٹ فارم پر جمع ہورہے تھے۔
چائے کے اسٹال کا مالک افیم کی جھونجھ میں تھا۔ پیالوں کی صفائی کا اسے کوئی خیال نہیں تھا۔ بار بار چولہے پر رکھے برتن سے چائے ابل ابل کر گرتی تھی۔
وہ دو مرتبہ ملک محمد حاکم کے نزدیک سے گزرا۔اس نے ایک آدھاجملہ بھی کسا۔ اس کے ہاتھ میں پیالی دیکھ کر ملک حریصوں کی طرح اسے تکنے لگتا تھا۔
کچھ دیر بعد ٹرین کے جانے کے بعد پلیٹ فارم سے ہجوم چھٹ گیا۔
چائے کے اسٹال والے کو فرصت ملی تو وہ اپنے لئے چرس کا سگریٹ بنانے لگا۔ملک اس کی ہتھیلی پر بکھرا ہوا تمباکو دیکھ کر ناراضی سے بولا۔ ’’ایک نشہ کیا کر، نہیں تو مر جائے گا ‘‘
چائے کے اسٹال والے نے قہقہہ لگاتے ہوئے چرس کا سگریٹ سلگایا۔
ملک کو اپنی سبکی محسوس ہوئی مگر وہ ڈھیٹ بن کر بیٹھا رہا ۔ پرانی عادت کو چھوڑنا اتنا آسان نہیں تھا۔ وہ دوسرے لوگوں کو چائے پیتے اور بسکٹ کھاتے ہوئے دیکھ چکا تھا ۔ اپنی بے کار سی طلب پوری کرنے کے لئے ڈھیٹ بن کر اس نے چائے کی فرمائش کردی۔
چائے کے اسٹال والے نے اس کی زندگی میں پہلی بار اسے گھور کر دیکھا اور بر بڑاتے ہوئے چائے کی پیالی اسے تھمائی۔ملک نے مسرور اندازسے چائے کی پیالی تھامی۔ چائے کے اسٹال والے کی مجبوری و بے بسی اسے اچھی لگی۔
چائے پی کر وہ اٹھا اور بازار کی طرف چل پڑا ۔ وہ حیران تھا کہ افیمی کو کیا ہوا۔ وہ بڑی خوش دلی سے ملتا تھا اور ہمیشہ اسے مانگے بغیر چائے دیا کرتا تھا لیکن آج؟
کشیدگی شہروں تک بڑھ جائے گی، قصبوں ، دیہاتوں تک پھیل جائے گی۔ میں بھی اس جنگ میں شامل ہو جاؤں گا۔ پھر مجھے تمام لوگ اہمیت دیں گے۔ میرا مجسمہ ریلوے اسٹیشن کی عمارت کے باہر نصب کیا جائے گا۔
اسٹیشن روڈ پر حجامت کی دکانوں کے نزدیک سے گزرتے ہوئے اس نے اپنی بڑھی ہوئی شیوکی چبھن محسوس کی۔ پچھلی شیو کو دس دن گزرنے کی وجہ سے اس کے چہرے پر بہت سے سفید بال اگ آئے تھے۔وہ گردن اکڑائے ہوئے قادو حجام کی دکان میں داخل ہوا اور لکڑی کی بنی ہوئی نشستوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔قادو حجام نے اسے نشست پر بیٹھے ہوئے دیکھ کر اسے نظر انداز کردیا۔ ملک کو حیرت ہوئی۔ آج قادو حجام نے پر تپاک لہجے میں اسے سلام نہیں کیا۔ملک نے اپنا سر جھکا لیا۔ اس نے قادو کی آنکھوں میں نہیں جھانکا ۔ وہ جانتا تھا کہ پہلے سے بیٹھے ہوئے گاہکوں کے بعد اس کا نمبر آئے گا ۔وہ اخبار اٹھا کر سرخیاں دیکھنے لگا۔
سرحد پر کشیدگی کی خبر پڑھ کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔اس نے اپنے خون میں عجیب سی سرسراہٹ محسوس کی ۔ اس کی آنکھوں سے اداسی کے جالے چھٹ گئے۔ چمک دار تیز دھوپ اسے اچھی لگنے لگی۔
اس نے اخبار رکھ دیا اور سڑک سے گزرتے ہوئے لوگوں کو دیکھنے لگا ۔ اس نے اپنی کٹی ہوئی ٹانگ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خود کو مکمل آدمی محسوس کیا۔ وہ سوچنے لگا۔ ’’کشید گی شہروں تک بڑھ جائے گی، قصبوں ، دیہاتوں تک پھیل جائے گی۔ میں بھی اس جنگ میں شامل ہو جاؤں گا۔ پھر مجھے تمام لوگ اہمیت دیں گے۔ میرا مجسمہ ریلوے اسٹیشن کی عمارت کے باہر نصب کیا جائے گا‘‘۔
بیٹھے ہوئے گاہک حجامت سے فارغ ہو چکے تو وہ حجامت والی کر سی پر بیٹھ گیا اورقادو حجام سے مخاطب ہوا۔ ’’قادو میری شیو بنادے اور قلمیں بھی چھوٹی کر دے۔‘‘
قادو استرے کا بلیڈ نکالتے ہوئے غصے میں کانپنے لگا۔ ’’توکرسی پر کیوں بیٹھ گیا چریا ملک ! پیسے ہیں تیرے پاس؟‘‘
’’ تو میرا کام مفت کر دیتا ہے تو میں اپنے پاس پیسے کیوں رکھوں‘‘۔وہ اپنی حیرت چھپاتا ہواآہستگی سے بولا۔
’’اب تم میرے لئے خاص گاہک نہیں رہے ، اب تم بھی عام گاہک ہو ۔ پیسے دو گے توکام کروں گا‘‘ اس نے دوٹوک لہجے میں کہا۔
’’کیوں؟‘‘
’’ تم نے ہم سے جھوٹی عزت بہت کروالی۔ ہمیں پتہ چل گیا ہے ۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’تم جنگ ہار کر آئے تھے ۔ تم نے وطن کا نام ڈبویا اور علاقہ بھی گنوایا۔‘‘ اس نے اپنے دل میں چھپی ہوئی بات کہہ دی ۔
ملک یہ سن کر ششدررہ گیا۔’’ ہماری فتح اس ملک کی تاریخ کی تمام کتابوں میں سنہری حرفوں سے لکھی ہے۔ ‘‘
’’ اب جھوٹ نہیں چلے گا۔ تو یہاں سے چلتا بن۔‘‘ حجام نے نئے آنے والے گاہک کو کرسی پیش کی اور کام میں مصروف ہوگیا۔
’’تجھے شیو نہیں کرنی تومت کرو۔ میں تیری یہ بکواس نہیں سنوں گا۔‘‘وہ دکان سے نکلتے ہوئے بولا۔
ملک سوچنے لگا۔ قادو لالچی ہوگیا ہے ۔ رات اس نے گزشتہ تمام برسوں کی حجامتوں کا شمار کیا ہوگا۔ نقصان کے دکھ پر اس کا دل کینے سے بھرگیا ۔ منافع خور کمینہ حجام۔
وہ افسردگی کے عالم میں اسٹیشن روڈ پر چلتا رہا۔ اس کے دھیان میں نہیں تھا کہ کتنے ہوٹل اور دکانیں پیچھے رہ گئے۔
بھکاریوں کی ایک ٹولی اس کے قریب سے گزری تو دو بچے اس کی دھوتی سے لپٹ گئے۔ اسکی دھوتی کھلتے کھلتے رہ گئی ۔ ملک تاؤ میں آگیا اور اس نے بیساکھی اور گالیوں کی مدد سے بھکاریوں کی ٹولی کومار بھگایا۔
وہ خانہ بدوش باگڑی تھے ۔ ملک محمدحاکم کے مقام اور مرتبے کوپہنچانتے نہیں تھے ، اسی لئے بھکارنیں اسے کوسنے لگیں ۔ اس نے عورتوں کے منہ نہ لگنے کے خیال سے جوابی کاروائی نہیں کی اور آگے بڑھ گیا۔ گر چہ ملک محمد حاکم اور ان میں بہت فرق تھا ، اس کے باوجودوہ ان سے اپنا موازنہ کرنے لگا: یہ قصبوں ، گوٹھوں کی خاک چھانتے ہیں ۔ لوگ انہیں گالیاں دیتے ہیں ۔ ان کی عورتوں سے فحش مذاق کرتے ہیں ۔ لیکن وہ پرواہ نہیں کرتے ۔ میں تو مدت سے یہاں رہتا ہوں ۔ لوگ عزت کرتے ہیں ۔ وہ بھیک نہیں دیتے ۔ معذور سپاہی کی مدد کرتے ہیں ۔ وہ میری قربانی کے احسان مند ہیں۔ ان سب کا وجود میرا احسان مند ہے۔
دشمن کا حاتمہ کر چکنے کے بعدوہ دوڑتا ہوا اسٹیشن روڈ پرپہنچا تو اپنی جان بچانے کے لئے گلیوں میں چھپے ہوئے لوگ باہر نکل آئے اور ملک محمد حاکم کے آگے سجدہ ریز ہوگئے ۔
ملک نے اپنے اندر ابلتے ہوئے غصے کو قادو حجام کو گالی دے کر نکالا۔
وہ اپنے پاس اپنی فوجی زندگی کی واحد یادگار، اپنے ایک پاؤں کا جوتا، پالش کروانے قصبے کے جھنڈا چوک پر سچل موچی کے پاس چلاگیا۔
سچل اسے دیکھنے کے باوجود جوتے کی سلائی میں مصروف رہا ۔ ملک نے خاموشی سے تسمہ کھولا اور بوٹ اس کے آگے رکھ دیا۔ سچل نے اپنا کام روک دیا اور غصے سے ملک کے جوتے پر ہتھوڑا برسانے لگا۔
’’تیرا دماغ تو نہیں پھر گیا۔ میں نے اپنا جوتا سلائی کے لئے تیرے سامنے رکھا ہے۔ تجھے لیا ہوا ہے۔‘‘ ملک نے استفسارکیا۔
’’ میری ماں مرگئی ‘‘
’’بکواس نہ کر۔ وہ اب نہیں دس سال پہلے مر گئی تھی۔‘‘
’’ میں نے بھی دس سال پہلے تیری طرح جھوٹ بولا تھا۔ آج اصل میں مر گئی ‘‘
’’میں نے کونساجھوٹ بولا؟‘‘
’’یہی کہ توجنگ جیت کر آیا تھا۔‘‘ وہ تنک کر بولا۔
’’تویہ بات نہ کر۔ قادو بھی یہی کہہ رہا تھا ‘‘ اس نے شکایت کی ۔
’’اب سارے ایسی ہی باتیں کریں گے ‘‘ اس نے ملک کا بوسیدہ جوتا ایک طرف پھینک دیا۔
’’کیوں؟‘‘ اس نے بے چارگی سے پوچھا۔
’’لوگ بھکاری کو پیسہ دے سکتے ہیں ۔ عزت نہیں ۔ چریا ملک ، ہم تجھ پر فخر کرتے تھے ، مگر تو بد بخت نکلا۔‘‘
سچل موچی کی بدتمیزی پر ملک سے خاموش نہ رہا گیااور وہ اسے حلق پھاڑ پھاڑ کر گالیاں دینے لگے۔جھنڈا چوک پرلوگ جمع ہوگئے اور ان کی شہ پا کر سچل ملک پر ٹوٹ پڑا۔اس نے اس کی بیساکھی توڑنے کی کوشش کی اور اس کی فوجی زندگی کی اکلوتی یادگار ، اس کاجوتا گندے پانی کی نالی میں پھینک دیا۔
چند لوگوں نے کوشش کر کے ہجوم کورفع دفع کیا ۔ کوئی اس کی بیساکھی اور کوئی غلاظت میں سنا ہوا جوتا اٹھالایا۔ملک کا چہرہ اوراس کے کپڑے مٹی سے اٹ گئے تھے ۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا او اس کی ر آنکھیں کسی بھی جذبے سے خالی تھیں۔
ملک ریلوے اسٹیشن والے پل کی سیڑھیوں پر بیٹھا تھا۔ قصبے کے مکانوں کی اوٹ میں غروب ہوتے سورج کی سرخی غیر معمولی تھی ۔ آسمان پر شفق کا رنگ بھی گہرا تھا۔ سارا زمینی منظر آگ سے دہکتا ہوا لگ رہا تھا۔ مشرق میں چاند کی سفیدی پر بھی سرخ چھینٹے پڑ گئے تھے ۔
پلیٹ فارم کے ساتھ والا میدان خالی تھا۔ پہلوانوں کے اکھاڑے میں آج خاموشی تھی۔ ریلوے اسٹیشن پر کوئی مسافر نہیں تھا۔ ٹی اسٹال والے افیمی نے دوپہر کے سانحے کو قیامت جان کر جیب میں رکھی ساری افیم کھالی تھی اور بیٹھا جھوم رہا تھا۔
مکانوں کی چھتیں اور گلیاں اچانک انسانی شورو غل سے بھرنے لگیں۔ لوگ اپنے نقصانات کا تخمینہ لگا نے لگے ۔ کسی کے گھر کی دیوار گر گئی یا بر آمدے کی چھت غائب ہوگئی اناج منڈی کی طرف بھی شور برپا تھا ۔ دکانوں کے آگے اناج کی دھیریاں گڈ مڈہوگئی تھیں ۔ اپنے اناج کو شناخت کرتے ہوئے اناج منڈی کے تمام آڑھتی آپس میں الجھ پڑے تھے۔
مسجدوں میں گمشدگی اور ہلاکت کے اعلانات ہو رہے تھے ۔
ملک محمد حاکم کی آنکھوں میں چمک تھی اور ہونٹو ں پر مسکراہٹ ، وہ آسمان اور زمین کو اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے آسمان کی سب بلندیاں اور زمیں کی سب گہرائیاں اس کی دسترس میں ہوں اور اس کے اشارے پر زیر زبر ہو جائیں گی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس سال موسم سرما میں خوفناک بارش بے سبب نہیں تھی اور کچھ روز پہلے کی شدید گرمی اور لو بھی خوامخواہ نہیں تھی ۔
وہ خوشی سے کھنکھارا۔ پھرسیڑھیوں سے بلغم کا لچھا پھینک کر اس کی پرواز دیکھتا رہا ۔ دھوتی سے منہ صاف کرتے ہوئے وہ بڑ بڑایا۔ ’’ایسی آندھی کبھی نہیں آئی اور ایسی شام کبھی نہیں ہوئی۔‘‘
آئندہ صبح کے بارے میں سوچ کر اس نے قہقہہ لگایا۔ اس نے پوپھٹے آسمان کو خون کی طرح لال دیکھا اور قصبے کی جگہ صحرا کی وحشت کو محسوس کیا۔ اس نے متعفن ہواؤں کو سونگھااور انسانی جسموں سے لبالب کھائیوں کو ناپا۔
اس کے جی میں آیا کہ رقص کرتا گلیوں میں نکل جائے ۔
سورج نکلنے سے پہلے کی دھیمی روشی صحن میں پھیلی ہوئی تھی۔ کھاٹ پر گہری نیند سویا ہوا ملک محمد حاکم مسکرارہا تھا۔
وہ خواب میں قصبے کو بارود اور دھوئیں میں اٹا ہوا دیکھ رہا تھا۔ وہ ریلوے اسٹیشن کے پل پر مورچہ بندتھا اور پلیٹ فارم پر موجود دشمن کے سپاہیوں پر گولیاں برسارہا تھا۔ اس کی ٹانگ پوری طرح صحیح سلامت تھی۔ وہ دشمن کا صفایا کرنے میں مصروف تھا ۔ دشمن کا حاتمہ کر چکنے کے بعدوہ دوڑتا ہوا اسٹیشن روڈ پرپہنچا تو اپنی جان بچانے کے لئے گلیوں میں چھپے ہوئے لوگ باہر نکل آئے اور ملک محمد حاکم کے آگے سجدہ ریز ہوگئے ۔
گہری نیند سویا ہوا ملک اپنے چہرے پرمکھیوں کی یورش سے اٹھ بیٹھا۔یہ صبح بھی گزری ہوئی صبحوں جیسی تھی۔ آسمان کا رنگ ویسا ہی نیلا تھا اور زمین کا ویسا ہی مٹیالا۔ آس پاس کے گھروں سے بھی ویسی ہی زندگی سے معمورآوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ اس کی بوڑھی بہن چولہے پر جھکی بیٹھی تھی۔
وہ بہت دیر تک اپنا سرہاتھوں میں لیے زمین پر پڑی اپنی بیساکھی کو دیکھتا رہا۔ پھراپنی بہن کو نسوار کو پڑیا تھماتے ہوئے اس نے تاکید کی کہ وہ ایک چپٹی سے زیادہ نسوار نہ لے۔
بڑھیا نسوار آلود تھوک پھینکتے ہوئے بولی’’ تمہارے کپڑے گندے ہوگئے ہیں اور تین دن سے تم نہائے بھی نہیں ‘‘۔وہ کچھ نہ بولا۔ چائے پیتے ہوئے زمین پر کوئلے سے آڑی ترچھی لکیریں بنا تارہا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ میں خانہ بدوش باگڑی نہیں ہوں کہ قصبے کے مجھے لوگ گالیاں دیں اورٹھوکریں ماریں ۔ ’’ساریاں نی ماؤنا جتھا‘‘ (سب کی ماوں کی ایسی کی تیسی )۔ اس نے غصے میں چیخ کرقصبے والوں کو گالی دی۔اس کی بہن اس کی گالی سن کر شرمائی اوراس نے اپنا چہرہ چادر میں چھپا لیا۔
ملک بہت دیر تک ریلوے اسٹیشن پر واقع پل پر بیٹھا اپنے نوجوان پرستار کا انتظار کرتا رہا۔جب راشد آیا توشام ڈھل رہی تھی۔آج اس نے ملک کو سلام نہیں کیا۔ چپ چاپ وہ اس کے قریب سیڑھی پر بیٹھ گیا۔
ملک اسے قصبے والوں کے تبدیل ہونے والےرویے کے متعلق بتانا چاہتا تھا مگر خاموش رہا۔
راشد پلیٹ فارم پر نیم کے درخت کو دیکھتے ہوئے اداسی سے گویا ہوا۔’’میں نے کل تاریخ کی کتاب پڑھی ۔اس میں کسی جنگ کا ذکر تک نہیں تھا۔تمہاری باتیں جھوٹی باتیں تھیں۔ چریاملک۔وہ سب جھوٹی کہانیاں تھی۔اب میں بڑا ہوگیا ہوں۔ جھوٹ اور سچائی کا فرق سمجھنے لگا ہوں۔ آج کے بعد میں تم سے کبھی نہیں ملوں گا ‘‘۔ وہ بات مکمل کر کے اس کی طرف دیکھے بغیر اٹھا اور سیڑھیوں سے نیچے اترنے لگا۔
چریا ملک بت بنا بیٹھا رہا حتیٰ کہ رات کے اندھیرے نے اس کے وجود کو سب کی نظروں سے اوجھل کر دیا۔

Leave a Reply