ایک دہائی قبل سائنس دانوں نے یہ پیشین گوئی کی تھی کہ دنیا کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہاہے، اور عالمی حدت میں اس اضافے کی وجہ سے پہاڑوں پر موجود برف اور گلیشیر پگھل جائیں گے۔ اس پگھلاو کی وجہ سے بلند ترین پہاڑی علاقے سیلابوں کی زد میں آ کر تباہ وبرباد ہو جائیں گے اور سمندروں کی سطح میں اضافے سے ساحلی علاقے غرقاب ہونے کے امکانات بھی ہیں۔ چند برس قبل کی یہ پیش گوئی آج حرف بہ حرف صیحح ثابت ہو رہی ہے اور ہرسال دنیا کے مختلف حصوں بالخصوص پسماندہ علاقوں میں موسمی تبدیلیوں کے اثرات قدرتی آفات کی شکل میں سامنے آ رہے ہیں۔ پاکستان کے شمالی خطے بالخصوص چترال اور گلگت بلتستان جو دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں پر محیط ہیں، جن کی چوٹیاں برف اور برفانی تودوں سے ڈھکی رہتی تھیں اب درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے ہمہ وقت تباہیوں کی زد میں ہیں۔ ان پہاڑی خطوں میں ہر سال موسمِ گرما میں غیر یقینی بارشوں اور گلیشیرز کے پگھلنے سے آنے والے تباہ کن سیلابوں کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے یہ سرسبز علاقے منوں مٹی تلے دب کر صفحہ ہستی سے مٹ رہے ہیں۔ 2015 کے دوران چترال اور گلگت بلتستان میں موسمی تغیرات کے تباہ کن اثرات دیکھنے کو ملے۔ غیر متوقع بارشوں اور گلیشیرز کے پھٹنے سے کئی بستیاں ملیامیٹ ہو گئیں۔ سائنسدان مستقبل میں اس قسم کی مزید تباہیوں کا خطرہ بھی ظاہر کر رہے ہیں۔
موسمی تغیرات کی کچھ نہ کچھ وجوہ علاقائی بھی ہیں لیکن ابھی تک ان کا مطالعہ کرنے اور ان علاقائی مسائل کا تدارک کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
موسمی تغیرات کا یہ رحجان پوری دنیا میں دیکھنے میں آ رہا ہے اور ترقی یافتہ ممالک اس ضمن میں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اقدامات کر رہے ہیں۔ لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں موسمی تغیرات، دنیا کے اوسط درجہ حرارت میں اضافے اورغیر متوقع موسمی تبدیلیوں کاسارا الزام ترقی یافتہ ممالک پر ڈال کر خود کو بری الزمہ ٹھہرانے کی روش سے کام لیا جا رہا ہے۔ صنعتوں اور گاڑیوں سے خارج ہونے والی مضر گیسیں ہی عالمی حدت میں اضافے کی اصل وجہ ہیں اور ان گیسوں کے اخراج میں امریکہ، چین اور بھارت سرِفہرست ہیں۔ لیکن موسمی تغیرات کی کچھ نہ کچھ وجوہ علاقائی بھی ہیں لیکن ابھی تک ان کا مطالعہ کرنے اور ان علاقائی مسائل کا تدارک کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
پاکستان میں بڑے پیمانے پر سیلابوں اور شہری علاقوں میں شدید گرمی کی ایک اہم وجہ علاقائی سطح پر ہونے والی ضرررساں ماحولیاتی سرگرمیاں ہیں۔ چترال سمیت پاکستان کے تمام پہاڑی علاقے کئی برس سے بے ہنگم بارشوں، سیلابوں اور زلزلوں کی زد میں ہیں۔ اگر ان قدرتی آفات کا تدارک نہ کیاگیا تو شائد آنے والے برسوں میں ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل اس قدر سنگین شکل اختیار کر لیں گے کہ ہمارے لیے ان کا مقابلہ کرنا ناممکن ہو جائے گا۔
: جنگلات کی بے ہنگم کٹائی
آب وہوا کی تبدیلی اور روزبروز بڑھتی ہوئی گرمی کی سب سے نمایاں وجہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور دھواں چھوڑنے والی صنعتوں اورگاڑیوں میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔ محقیقین کا خیال ہے کہ فطری ماحول میں تبدیلی اور آب وہوا میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں اس وقت سامنے آئیں جب یورپ میں صنعتی انقلاب کی نیو رکھی گئی۔ صنعتوں میں اس ہوش ربا اضافے سے اگرچہ انسان کا معیار زندگی تبدیل ہوا لیکن ان صنعتوں میں کوئلے اور تیل کے بطور ایندھن استعمال سے خطرناک گیسوں کا غیر معمولی اخراج ہمارے ماحولیاتی توازن کے لیے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ صنعت کاری کے اس عمل کو مزید آگے بڑھانے کے لیے جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی گئی اور ہرے بھرے سرسبزوشاداب کھیتوں اور کھلیانوں کو بلندوبالا عمارتوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ ان کارخانوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسیں فضاء میں شامل ہو کر ماحول کو آلودہ کر رہی ہیں۔ جنگلات اور درخت ہر قسم کی مضر گیسوں کو جذب کرتے ہیں یوں دنیا میں ماحولیاتی توازن قائم ہوتا ہے۔ البتہ جنگلات کی کٹائی نے اس فطری توازن کا خاتمہ کیا جس سے آب وہوا میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی۔ ایک اندازے کے مطابق انیس سوستر کی دہائی میں چترال کا تقریباً ستر سے اَسی فیصد حصہ جنگلات سے ڈھکا ہوا تھا جبکہ اس وقت یہ تناسب پانچ فیصد سے بھی کم رہ گیا ہے۔ جنگلات کی اس بے ہنگم کٹائی میں مقامی ٹمبر مافیا اور محکمہ جنگلات ملوث ہے۔ سیاسی سرپرستی کے باعث ان لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکی۔
چترال کی زمین کی ساخت ان بارشوں کو برداشت نہیں کر سکتی جس کی بنا پر بارشوں کا پانی پہاڑی ڈھلوانوں پر موجود مٹی کو کاٹ کر اپنے ساتھ بہا کر نشیب میں لے جاتا ہے۔ یہی پانی سیلاب کا باعث بنتا ہے۔
تاریخی لحاظ سے چترال کی آب وہوا خشک اور ٹھنڈی تھی۔ مون سون کی ہوائیں کبھی بھی ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں کو عبور کر کے چترال میں داخل نہیں ہوتی تھیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے نہ صرف بیرونی فضاء کا درجہ حرارت بڑھ گیا بلکہ چترال کی علاقے میں بھی درجہ حرات میں اضافہ ہوا ہے۔ انہی عوامل کی وجہ سے موسم گرمامیں مون سون کی ہوائیں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کو عبور کرتے ہوئے چترال میں داخل ہونے لگی ہیں۔ چونکہ چترال کی زمین کی ساخت ان بارشوں کو برداشت نہیں کرتی جس کی بناپر بارشوں کاپانی پہاڑی ڈھلوانوں پر موجود مٹی کو کاٹ کر اپنے ساتھ بہا کر نشیب میں لے جاتا ہے۔ یہی پانی سیلاب کا باعث بنتا ہے۔ ان سیلابوں کو Flash Floodکہا جاتا ہے۔
:مویشیوں کی تعداد میں اضافہ
غیر معمولی سیلابوں کی ایک اور وجہ گرمائی چراگاہوں پر مویشیوں کا بے تحاشہ بوجھ ہے۔ خصوصاً موسم گرما میں اونچی پہاڑیوں میں بکریوں کے بہت بڑے ریوڑ چرائے جاتے ہیں۔ ان ریوڑوں کی نقل و حرکت کی وجہ سے زمین بھربھری ہو جاتی ہے۔ جونہی بارشیں شروع ہوتی ہیں تو بارشوں کا پانی اس مٹی کو اپنے ساتھ بہا کے سیلاب کی صورت میں نیچے لے آتا ہے۔ جس کی وجہ سے گاﺅں کے گاﺅں تباہ ہو رہے ہیں۔ اس کی مثال درہ لوٹکوہ میں شغور کے مقام پر آنے والا سیلاب تھا جس نے سو سے زائد گھرانوں پر محیط آوی نامی گاﺅں کو مکمل طورپر ملیامیٹ کر دیا۔ اس خطے سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر ارضیات نے بتایا ”اس گاﺅں سے تعلق رکھنے والے ایک بااثر شخص جن کا تعلق چترال کے سابق حکمران خاندان سے ہے نے گاﺅں کے اوپر پہاڑی چراگاہ میں تقریباً چھ سے آٹھ ہزار کے قریب بکریاں پال رکھی تھیں جس کی وجہ سے پوری پہاڑی گرد وغبار میں تبدیل ہو گئی تھی۔ جونہی مون سون کے موسم میں بارشیں شروع ہوئی تو پہاڑی نالے میں سیلاب آیا اور پورے گاﺅں کوختم کر دیا“۔
گزشتہ سال ہونے والی بارشوں سے مستوج کا ایک اور تاریخی گاﺅں ریشن کا بڑا حصہ بھی سیلاب برد ہو گیا۔ ریشن سے تعلق رکھنے والے سابق ناظم او ر نامور سماجی وسیاسی کارکن امیر اللہ کا موقف کچھ یوں ہے عمومی خیال یہ ہے کہ ”ریشن میں آنے والا سیلاب گلیشیرز کی وجہ سے تھا لیکن اس میں صداقت نہیں کیونکہ ریشن گول میں موجود چراگاہ میں تقریباً چار سے پانچ ہزار بکریاں موجود تھیں جن کی وجہ سے سیلابی ریلے کے ساتھ مٹی کی بہت بڑی مقدار بھی نیچے آئی اورآدھاریشن برباد ہو گیا“۔
گلیشئرز کا پگھلاو:
گزشتہ کئی برسوں سے چترال میں نومبر، دسمبر اور جنوری کے مہینے میں برف باری نہیں ہو رہی البتہ فروری اور مارچ کے مہینوں میں برف باری ہوتی ہے
درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے قطبین پر موجود برف کے پگھلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ چترال کے پہاڑ بھی بڑے بڑے گلیشیرز سے ڈھکے ہوئے تھے۔ ماہر ارضیات سید دیدار علی شاہ کا کہنا ہے کہ ”چند دہائیاں قبل شمالی خطوں بالخصوص چترال میں نومبر اور دسمبر کے مہینے میں برف باری ہوتی تھی چونکہ سردی کے موسم میں انتہائی خشکی ہوتی ہے لہٰذا اس خشک برف باری سے پہاڑوں پر دس سے پندرہ فٹ برف پڑتی تھی جو بعد میں سردی اور دباو کے باعث گلیشیرز میں تبدیل ہو جاتی تھی۔ موسمِ گرما میں یہ گلیشیر اپنے سخت پن کی وجہ سے بالکل نہیں پگھلتے تھے یا ان کے پگھلنے کی شرح بہت کم ہوتی تھی لیکن گزشتہ کئی برسوں سے چترال میں نومبر، دسمبر اور جنوری کے مہینے میں برف باری نہیں ہو رہی البتہ فروری اور مارچ کے مہینوں میں برف باری ہوتی ہے چونکہ ان مہینوں میں موسم گرم اور فضاء میں نمی موجود ہوتی ہے جس کی وجہ سے زمین پرپڑنے والے برف کی زیادہ مقدار اسی وقت پگھل جاتی ہے۔ یعنی برف باری کی مقدار ان کے پگھلنے کی مقدار سے کم رہتی ہے یوں گلیشیر بنتے کا عمل نہ صرف رک چکا ہے بلکہ اب گلیشیرز موسمِ بہار ہی میں پگھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ موسمِ گرما تک پہنچتے پہنچتے یہی گلیشیرز پگھل کر سیلابی شکل اختیار کرتے ہیں جو اپنے راستے میں آنے والی ہر بستی کو خس وخاشاک کی طرح بہاکے لے جاتے ہیں“۔
عمارتوں میں دھاتی چادروں کا استعمال:
چترال میں چونکہ برف باری کی مقدار زیادہ ہوتی تھی یہی وجہ ہے کہ یہاں عمارتوں کی چھتوں میں جست کی چادروں کا استعمال عام ہے۔ دھاتیں موصل ہوتی ہیں اور دھوپ میں بہت جلد گرم ہونا شروع کر دیتی ہیں۔ ان دھاتی چادروں کے استعمال کی وجہ سے چترال کے اوسط درجہ حرارت پر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بعض ماہرین ماحولیات کا خیال ہے کہ عمارتوں کی چھتوں میں استعمال ہونے والی ان دھاتی چادروں نے چترال کے اوسط درجہءحرارت میں اضافہ کر دیا ہے۔
گرین ہاﺅس اثر اور مون سون کی بارشیں:
جب تک چترال کا قدرتی ماحولیاتی توازن برقرار تھا تو یہاں کی سرد اور خشک ہواﺅں کی وجہ سے مون سون کی ہوائیں چترال کی فضاء میں داخل نہیں ہوتی تھیں۔
چترال بلندوبالا پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک اس کی آب ہواخشک اور سرد ہوا کرتی تھی۔ سید دیدار علی شاہ کاموقف ہے ”جنگلات کی بے ہنگم کٹائی، کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج اور فضاء میں موجود گردوغبار کے ذرات (Dust Particles)کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے، یہی ذرات اور گیسیں اوپر فضاء میں جا کر ایک موٹی تہہ بناتے ہیں۔ یہ تہہ سورج کی زیادہ طول موج کی حامل شعاعوں کو زمین سے ٹکرا کر واپس خلا میں جانے سے روک دیتی ہے۔ اوریوں زمین اور فضاء میں موجود اس تہہ کے درمیان گرم شعاعوں کی گردش سے آب وہوا گرم ہو جاتی ہے۔ اس عمل کو ”گرین ہاﺅس اثر“ کہا جاتا ہے۔ جب تک چترال کا قدرتی ماحولیاتی توازن برقرار تھا تو یہاں کی سرد اور خشک ہواﺅں کی وجہ سے مون سون کی ہوائیں چترال کی فضاء میں داخل نہیں ہوتی تھیں۔ لیکن اب چونکہ گرین ہاﺅس اثرات کی وجہ سے چترال کا خشک اور سردموسم اپنی خاصیت کھو بیٹھا ہے جس کی وجہ سے مون سون کی ہوائیں چترال کی فضا میں داخل ہو رہی ہیں“۔ گرین ہاوس اثر کی وجہ سے عالمی حدت میں اضافہ ہو رہا ہے جو زمین پر گلیشیرز کے پگھلاو کا باعث ہے۔
سیلاب کے اقسام اور وجوہ:
چترال سمیت متعدد شمالی پہاڑی خطوں میں دوقسم کے سیلاب آتے ہیں۔
1۔ بارشوں کی وجہ سے آنے والا سیلاب(Flash Flood)
2۔ گلیشئرزکے پگھلنے اور جھیلوں کے پھیلنے سے آنے والا سیلاب (Glacier Lake Outburst Flood/GLOF)
1۔ بارشوں کی وجہ سے آنے والا سیلاب(Flash Flood)
2۔ گلیشئرزکے پگھلنے اور جھیلوں کے پھیلنے سے آنے والا سیلاب (Glacier Lake Outburst Flood/GLOF)
چترال کی زمین مون سون کی بارشوں کے لئے موزوں نہیں ہے اس کے علاوہ پہاڑوں پر موجود جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور بہت زیادہ مال مویشی پالنے کے باعث پہاڑوں کی سطح بارش کے پانی کو روکنے اور اس کے بہاو میں روکاوٹ ڈالنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے۔ یہی وہ عوامل ہیں جو غیر متوقع بارشوں اور سیلابوں کی وجہ بنے ہیں، بارشوں کی وجہ سے آنے والے ان سیلابوں کو ’فلیش فلڈ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ درجہءحرارت میں اضافہ کی وجہ سے برف تیزی سے پگھلتی ہے۔ اس پگھلاو کے باعث گلیشیرز اور ان کے نیچے موجود جھیلیں یہ پانی ذخیرہ نہیں کر پاتیں اور یہ پانی سیلاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس قسم کے سیلابوں سے پاکستان کے شمالی علاقے کافی متاثر ہو چکے ہیں سیلاب کی اس قسم کو گلاف یا گلیشئرز لیک آﺅٹ برسٹ فلڈ یعنی گلیشیر پھٹنے کی وجہ سے آنے والاسیلاب کہاجاتاہے۔ چترال کو گزشتہ برس دونوں قسم کے سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
سال رواں کی صورتحال:
رواں برس بھی ماحولیاتی تغیرات چترال میں قدرتی آفات کی صورت میں نقصانات کا باعث بن رہے ہیں اور بنتے رہیں گے۔ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق اس سال جون کے دوسرے ہفتے میں مون سون کی ہوائیں پاکستان میں پہنچ سکتی ہیں اور جون کے آخر تک یہ ہوائیں چترال کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔ مون سون کی وقت سے پہلے آمد کے باعث ایک مرتبہ پھر چترال پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ابھی تک اس سلسلے میں نہ تو آگاہی مہم شروع کی گئی ہے اور نہ ہی قدرتی آفات کے بعد امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ اس ساری صورتحال سے بے خبر ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کو نظرانداز کرنے کا خمیازہ ہم سب کو بھگتنا پڑے گا، صوبائی اور وفاقی بجٹ میں ماحولیات کے لیے ناکافی رقم اک مختص کیا جانا لمحہ فکریہ ہے۔
Image: asiadespatch.org
Leave a Reply