کل رات کی بات ہے کہ میں اپنے بہنوئی دانش بھائی کے نئے مکان میں بیٹھا بھائی جان اور آپا کی باتوں پر ہنس رہا تھا کہ اچانک بھابی نے خبر سنائی کہ کیک آ رہا ہے، زرناب اور عارج خوشی سے ادھر ادھر کودتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے،میں جو نیم دراز تھا اٹھ بیٹھا اور بھابی ایک تھالی میں کیک سجا کر لے آئیں۔یہ کیک بھیا کی چالیسویں سالگرہ کا کیک تھا، میں جو کہ کیک کا ذرا زیادہ ہی عاشق ہوں اس کے پلاسٹک کے اسٹول پر لگتے ہی اس پر جھک گیا۔ دیکھا تو اوپر ہی دانش بھائی کا نام، جنم دن کی مبارکباد اور40 کا عددلکھا ہوا تھا۔ چالیس کے ہندسے پر نظر پڑتے ہی میں سب کچھ بھول بھال کر ایک دم اس سوچ میں ڈوب گیا کہ بھیا !جن سے میری تقریباً پندہ برس پرانی شناسائی ہے وہ آج چالیس برس کے ہو گئے۔ بظاہر تو اس میں کوئی حیرت کا نکتہ نظر نہیں آتا، مگر میں اس لمحے کافی دیر تک ا س خیال میں ڈوبا رہا کہ ایک انسان جس نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ عجیب و غریب مسائلِ زندگی سے نبرد آزما ہوتے ہوئے گزار دیا آج اس کی عمر کے چالیس برس مکمل ہو گئے ہیں۔
میں نے فوراً بھیا کو آواز دی ان کے سامنے اپنے تحیر زدہ لہجے میں تقریباً تین مرتبہ یہ جملہ دہرایا :
بھیا آج تم چالیس برس کے ہو گئے؟
اس جملے کا انداز سوالیہ تھا کیوں کہ مجھے ایک لمحے میں قطعی یہ یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ و ہی دانش بھائی ہیں جنہیں میں نے 25 برس کی عمر میں پہلی بار دیکھا تھا۔ وقت کے دبے پاوں گزر جانے کا خیال اتنا حیران کن تھا کہ میں اسی سوچ میں ڈوبتا چلا گیا۔
دانش بھائی اور میرا تعلق کیا ہے؟ یہ میں کبھی خود بھی نہیں سمجھ پایا۔ یوں تو رشتے میں وہ میری سگی بڑی بہن کے شوہر ہیں اور دوسری طرف میری ایک دوسری پھوپھی زاد بہن جن سے ہماری رشتہ داری اگر بہت نزدیک کی نہیں تو بہت دور کی بھی نہیں ہے ان کے بڑےبیٹے بھی ہیں۔ میں ان دونوں رشتوں کی وجہ سے ہمیشہ کنفیوز رہا کہ انہیں اپنا جیجا کہوں یا بھانجا۔ دوسری طرف یہ شخص میرا دوست، میرا دشمن، میرا حریف، میرا دردمند، میرا ہم خیال اور میرا متضاد سبھی کچھ ہے۔ لہذا میں نے کبھی دانش بھائی کو صرف اپنی بہن کے شوہر کی شکل میں نہیں دیکھا اور شائد میرے تینوں بھائیوں نے بھی انہیں کبھی صرف اپنا جیجا نہیں سمجھا۔ جیجا یا بہنوئی کا جو عام تصور ہندوستانی گھرانوں میں پایا جاتا ہے بھیا اس طور کے کبھی خود بھی نہیں رہے۔ اب اسے ان کی شخصیت کا خاصہ کہو یا کمزوری کہ انہوں نے ہم سے کبھی سالوں جیسا سلوک نہیں کیا۔ نہ کبھی کسی چیز کے خواہش مند رہے، نہ مصنوعی عزت کے طلب گار، نہ ساس سسر کے چہیتے بننے کی کوشش کی، نہ دکھاوے کی محبت۔بھیا کی شخصیت ہم لوگوں کے لیے کچھ اس قسم کی رہی ہے کہ انہوں نے ہماری زندگی میں صرف ایک دوست کا کردار ادا کیا ہے یا اس سے کچھ مزید آگے بڑھے ہیں تو بھائی بن گئے ہیں۔ اُسی طرح ہم سے لڑے ہیں جس طرح ایک سگا بھائی لڑتا ہے، اُسی طرح ہماری پروا کی ہے جس طرح ایک دوست کرتا ہے، ویسے ہی ہمارے مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے رہے ہیں جیسا کہ ایک رفیق کا فرض ہوتا ہے اور اُسی طرح ہمیں ہمیشہ سے اپنی طرح تصور کیا ہے جس طرح ایک ماں کے پیٹ میں پیر پھیلانے والی تمام اولادیں ایک دوسرے کو کرتی ہیں۔
یہ بات غالباً خود بھیا نے بھی اپنے متعلق کبھی نہ تصور کی ہو لیکن میں نے اسے بار ہا محسوس کیا ہے کہ بھیا نے ہم تمام بھائیوں کے درمیان غیر شعوری طور پراپنے لیے ایک ایسی جگہ تراشی ہے جس سے وہ خلا پر ہوا ہے جس خلا کے پر کرنے کے ہم تمام بھائی بہن ہمیشہ سے خواہش مند تھے۔ میں اکثر اپنی بہن سے بھی یہ بات کہتا ہوں کہ بھیا اس گھرانے کے لیے واحد وہ شخص تھے جس کا گزارہ ہم لوگوں کے ساتھ بہت بہتر انداز میں ہو رہا ہے۔ کیوں کہ جن حالات میں میری بہن کے ساتھ انہوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا تھا اسے کسی عقل پرست شخص کا فیصلہ ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔ ہم پانچوں بھائی، بہن جن کے مزاج کی ایک سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم کبھی رشتوں اور جذباتوں کے معاملات میں عقل کو درمیان میں نہ لا سکے ان کے بیچ ایک ایسا ہی شخص کھپ سکتا تھا جو خود ہمارے دل و دماغ جیسا ہو۔
بھیا نے میری بڑی بہن سے محبت کر کے شادی کی اور ان کی محبت کے خلوص کا معیار اسی روز طے ہو گیا تھا جس روز انہوں نے ایک دس بائے دس کے کمرے میں پلنے والی ایک غریب گھرانے کی خوبصورت لڑکی کو اپنی جیون ساتھی چن لیا تھا۔ ہم تمام گھر والے جانتے ہیں کہ وہ حالات جن میں ان دودلوں کا سنگم ہوا و ہ ہم لوگوں کے لیے کتنے نازک تھے۔شادی بیاہ تودور کی بات وہ زمانہ ایسا تھا کہ ہم نے کبھی خود کوکسی اعتبار سے مکمل کرنے کے متعلق تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ایسے میں آپا کی زندگی میں ایک فعال، سرگرم عمل، کماو، خوب رو چھوٹے قد اور مضبوط جسم والاایک شخص داخل ہوا اور اس نے آپا کی نشیلی آنکھوں اور گوری بانہوں کے سائے تلے اپنی جنت بنانے کا عزم کر لیا۔
بھیا اور آپا کی شادی جس زمانے میں طے ہوئی تھی اس زمانے سے میرے دوسرے بھائیوں کے مقابلے میں میرا اور بھیا کا ایک گہرا رشتہ بننا شروع ہو گیا تھا۔ بھیا اپنی دو بہنوں سمیت دہلی کی مصور زدہ گلیوں کا دیدار کر رہے تھے، میری بہن سے عشق کر رہے تھے اور مجھے اپنے خرچ پر پورا دلی گھما رہے تھے۔ میں کسی انجانی خوشی میں مبتلا یہ سوچے سمجھے بغیر کہ بھیا ہم تمام لوگوں پہ کتنا وقت اور روپیہ اڑا رہے ہیں مستی میں ان کے ساتھ گھومتا پھرا، کبھی اس بات کا نہ مجھے خیال آیا کہ یہ کوئی اوچھی یا بری بات ہے اور نہ کبھی انہوں نے مجھ سے کہا کہ اس ٹیم میں تمہارا کیا کام۔ ان دنوں کے کئی ایک رنگین نقش میری یادوں میں آج بھی محفوظ ہیں کہ کس طرح بھیا نے اپنی سخاوت کا جلوہ دکھا دکھا کر مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔میں نے بھیا کے ان اچھے دنوں کو دیکھ کر ان کے بارے میں جو تصور قائم کیا تھا حیرت ہے کہ وہی تصور ان کے ایسے سخت دنوں میں بھی میرے ذہن میں تازہ رہا جس کا کوئی منطقی جواز میرے پاس نہ تھا۔
دانش مسعود عرف بھیا میری زندگی میں وہ پہلے شخص ہیں جن کے متعلق میں نے اپنے ذہن میں یہ بات اولین دنوں میں بٹھا لی تھی کہ یہ جو چاہیں وہ کسی نہ کسی طرح کر ہی لیں گے۔ اس کا عملی نمونہ میں نے اس روز دیکھا جس دن ان کی شادی ہوئے چند برس گزر چکے تھے، میری بہن کے ساتھ ان کے تعلقات میں ایک نوع کی تلخی پیدا ہونے لگی تھی، وہ روز انہ اپنے ماں، باپ کی خوشنودی اور بیوی کی خواہشوں کی نذر ہو رہے تھے اور ایسے میں انہیں ایک اہم فیصلہ لینا تھا۔ ایک سخت نقل مکانی جس کی جرات عام طور پر لوگ خواب و خیال میں بھی نہیں کرتے۔ بھیا نے دلدلی زمین پر قدم جمانے کا فیصلہ کیا اس پر مضبوطی سے قائم رہے اور اپنی جواں مردی کا ثبوت پیش کر کے میرے خیال کو مزید تقویت عطا کر دی۔
بھیا کو قریب سے جاننے والے ان کے مزاج سے اچھی طرح واقف ہیں کہ انہیں کسی بھی بات پر کبھی بھی غصہ آ سکتا ہے، ان کا جلال جب اپنے نقطہ عروج کو پہنچتا ہے تو وہ اپنے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں، ساری اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر کسی ضدی بچے کی طرح اپنے موقف پر اڑ جاتے ہیں، غصے میں اپنے جملوں کو تیزی سے دہراتے ہوئے ادھر ادھر ٹہلنے لگتے ہیں۔ اپنے چھوٹے قد کے باوجود مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود بزرگوں کا احترام ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ میں نے اپنی گذشتہ تیس برس کی زندگی میں ایسا کوئی شخص نہیں دیکھا جس نے اپنے والدین کا ایسا احترام کیا ہو جیسا دانش بھائی کرتے ہیں۔ ان کے والد جو ایک سرکاری ملازمت میں اپنی تمام عمر گزار کر ایک پختہ مکان کے مالک بنےہیں، جن کے پاس نہ بے انتہا دولت ہے، نہ شہرت، نہ کوئی ایسی وجہ پا بہ زنجیر جس کے لیے دانش بھائی ان کی بے انتہا جھڑپوں کو برداشت کریں، ان کے غصے کو سہتے رہیں، ان کے طعنوں کا جواب نہ دیں اور ان کے آگے سر تسلیم خم کئے رہیں، لیکن اس کے باوجود دانش بھائی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے والدین کے ہر اشارے پر دوڑ پڑتے ہیں ان کا ایک ایک حکم بجا لاتے ہیں اور اپنی خواہشات کو قربان کر کے، اپنے لہو کو جلا کر ان کے ہونٹوں کو مسکراہٹ بخشتے ہیں۔
دانش بھائی مزاجاً ایک محنتی شخص ہیں،لہذا ان کی سرشت میں یہ بات شامل ہے کہ کسی بھی مشکل سے مشکل کام کو صحیح تکنیک کے ذریعے پائے تکمیل تک بآسانی پہنچایا جا سکتا ہے۔ اپنی زندگی کے گزشتہ چالیس برسوں میں وہ ایسی ہی بے شمار انوکھی تکنیکوں کا استعمال کر کے نا سر کردہ مہموں کو جیتے چلے آئے ہیں۔ یوں تو وہ دہلی میں گزشتہ کئی برس سے روز گار کما رہے ہیں،لیکن ان کا ایک پاوں ہمیشہ ہردوئی میں رہا ہے، جس کی وجہ سے انہیں خدا اور وصال صنم دونوں کے اکثر ہاتھ سے جانے کا خدشہ لگا رہتا ہے۔
کچھ لوگ جو زندگی کے نامساعد حالات کا سامنا کرنے کے لیے ہی پیدا کیے جاتے ہیں میں نے دانش بھائی کو انہیں میں سے ایک پایا ہے۔ میں اکثر دیکھتا ہوں کہ ادھر ان کا ایک گاگر بھرتا ہے تو ادھر دوسرا ٹوٹ جاتا ہے، ادھر وہ ایک طرف کی چادر برابر کرتے ہیں تو ادھر دوسرا سرا کھسک جاتا ہے، کسی ایک مسئلے میں سکون کی سانس لیتے ہیں تو دوسرا مسئلہ آنکھیں کھول دیتا ہے۔ ان سب کے باوجود وہ ہاتھوں میں تلوار تھامے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرے، زندگی کی ظالم حقیقتوں سے مسلسل لڑتے چلےجا رہے ہیں۔ ان کی زندہ دلی کا یہ ثبوت ہے کہ گزشتہ پندہ برس میں نہ ان کے قہقہے کی کھنکھناہٹ میں میں نے کوئی کمی محسوس کی ہے نہ پر مزاح انداز میں کوئی کھوٹ۔وہ اپنے مسائل پر مجمعے میں ہنس دیتے ہیں، خواہ ہنستے وقت ان کی آنکھوں کے کنارے کتنے ہی بھیگے ہوئے ہوں۔ جتنا زندگی ان سے امتحان لیتی ہے اتنا ہی مضبوط ارادہ باندھ کر وہ دوبارہ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ان کی اس مردانہ عملی سے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے زندگی کی حقیقتوں سے کھیلنے کا راز جان لیا ہے۔دانش بھائی جو میری نظر میں عوام و خواص کی کامیابی اور ناکامی کی پری بھاشاوں سے کوسوں دور اپنی بستی آباد کیے ہوئے ہیں وہ کبھی کسی مسئلے میں خود کو کمزور نہیں سمجھتے۔ باتوں کی لاعلمی کا اظہار تو کرتے ہیں اورچیزوں کی لا حاصلی کا شکوہ بھی، لیکن اس طور سے کہ سننے والا ان کے تمام منفی جملوں کے اختتام پر ایک مثبت تاثر لے کر ان کی بزم سے رخصت ہو۔
اب جبکہ میں ان کی زندگی کی چالیسویں سالگراہ کا کیک کھا چکا ہوں تو مجھے محسوس ہو تا ہے کہ زندگی کی چالیس رعنائیوں نے دانش بھائی کو ایک مضبوط ارادے والا منظم انسان بنایا ہے،جس کے اندر ایک فن کار بھی سانس لیتا ہے اور ایک مزدور بھی۔ ایک باپ بھی رہتا ہے اور ایک شوہر بھی۔ ایک بیٹا بھی پل رہا ہے اور ایک دوست بھی۔ ایک خوابوں کی دنیا کا مسافر بھی زندہ ہے اور ایک حقیقت پسند انسان بھی۔ان کے چالیس برس کو کوئی پر تصنع انسان خواہ کسی طرح دیکھے پرمیرے نزدیک یہ ہی ان کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل ہےکہ انہوں نے اپنے چالیس برس اسی آبلہ پائی میں گزار دیئے بنا کسی امید کے کہ خوش حالی کا کوئی جھوٹا تصور کسی درخت کی چھاوں میں بیٹھا ان کی راہ تک رہا ہے۔