Laaltain

چار اطراف

20 ستمبر، 2016

[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]

چار اطراف

[/vc_column_text][vc_column_text]

شاعر: فرخ یار

 

مرا چار سو دیکھتے دیکھتے
موسموں کے کٹاؤ بہاؤ میں
تبدیل ہوتا چلا جا رہا ہے
کہیں کوئی گڑبڑ ہے جس کو سمجھنے سے عاری
دکھانے سے قاصر نہیں ہوں
مگر میرے بازار ، گلیاں ، مکاں
شور سے بھر چکے
اک مسلسل تماشے رودھالی کی لے
اور بدھائی کی تکرار سے کچھ سنائی نہیں دے رہا
ریڑھ کے آخری تین مہروں کی یکجائی میں فاصلے
بڑھ گئے ہیں
رگ و ریشے میں دوڑنے والا
برقی بہاؤ ضرورت سے کم ہے
بصارت کے آب مصفا پہ
اتری ہوئی داستانوں کے کردار
پچھلے برس سے دکھائی نہیں دے رہے
آج کی شب ذرا تم ٹھہر جاؤ تو
دل بہل جائے گا
نارسائی سے لپٹے ہوئے حبس کو توڑ کر
بادوباراں کی صورت نکل آئے گی
جنگلوں، دلدلوں، دھوپ میں بھاگتے
اسپ کو پنکھ لگ جائیں گے
زندگی کی تگ و تاز کے ہم نشاں
دائم آباد گلیوں سے نکلتے ہوئے قافلے
آ ملیں گے
یقیں سے ورا
بدگماں ساعتوں سے پرے
اپنی وحشت کی زنجیر کو توڑ کر
غم سے وابستہ دن کے تلے
کتنے نوری زمانوں سے ہوتے ہوئے
ان زمانوں سے جن میں مجھے
جل کے بجھنا ہے
بجھ کے بکھر جانا ہے
اور بکھرتے بکھرتے کہیں سرمئی دھند
نقطوں بھری گرد میں دیکھنا ہے تمہیں
خامشی اور دھماکے کی سرحد پہ
اطراف کو تھام کر

 

‍‍‍‍‍‍ ‍‍
تم نے دیکھا نہیں
انہی اطراف میں
روشنائی کے سیال جادو کی تہہ میں کہیں
دل دھڑکنے کے اسباب میں
انہی اطراف میں
خود سے آگے نکل جانے کی آرزو
جس نے اک عمر خلقت کو بے چین رکھا
مرے آئینوں پہ چمکنے لگی ہے
ستارے مرے رابطے میں ہیں لیکن
وہ قالین جس پر میں اڑتا رہا ہوں
ادھڑتا چلا جا رہا ہے
کہیں کوئی گڑبڑ ہے تم
آج کی شب ٹھہر جاؤ تو
دل بہل جائے گا

 

لالٹین پر یہ سلسلہ ‘نظم نماء’ کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے۔
نظم نماء اردو شاعری کے فروغ کے لیے کوشاں ایک آن لائن فورم ہے۔

Image: Igor Morski
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]

[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *