Laaltain

پی ٹی آئی”ڈی چوک” سے”ڈی سیٹ” تک

10 اگست، 2015
چودہ اگست 2014 سے سولہ دسمبر 2014 تک عمران خان احتجاج، جلسوں اور دھرنے کی سیاست کرتے رہے۔ اس دوران تحریک انصاف کے پانچ ارکان ایسے تھے جنہوں نے کھل کر اپنی قیادت کے فیصلے سے اختلاف کیا اورقومی اسمبلی کے تمام اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے۔ پانچ میں سےتین ارکان کو جماعت سے نکال دیا گیا لیکن وہ اپنے اس موقف پر قائم رہے کہ “عوام نے ہمیں اسمبلیوں میں جاکر عوامی مسائل حل کرنے کےلیے منتخب کیا ہے، دھرنوں کی سیاست کےلیے نہیں”۔ اسلام آباد کے 126 دن کے دھرنےمیں ہر روز الزام تراشی کی گئی، کبھی سول نافرمانی پر اکسایا گیا، دھرنے میں شریک کارکنان نے پارلیمنٹ ہاوس کا دروازہ توڑ دیا کچھ کارکنان نے پی ٹی وی پر حملہ کرڈالا، میڈیا کے ساتھ اور خاص کر خاتون صحافیوں کے ساتھ بدتمیزی کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا۔دھرنے کے دوران ہی تحریک انصاف کے اراکین نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا۔ سیاسی مخالفین کے لیے گیلی شلواریں ،بزدل اور چور جیسے نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے۔ یہ سیاہ باب جمہوری تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔عمران خان انقلاب کی تاریخیں دیتے رہے لیکن 126 روز گزر گئے انقلاب نہیں آیا۔آتا بھی کیسے، انقلاب عوام لاتے ہیں امپائر نہیں۔ دھرنے اور اس کے بعد انکوائری کمیشن کی کارروائی کے دوران عمران خان اور ان کی جماعت کے رہنماء مسلسل مسلم لیگ (ن) پی پی پی، جے یو آئی (ف)، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔
عمران خان انقلاب کی تاریخیں دیتے رہے لیکن 126 روز گزر گئے انقلاب نہیں آیا۔آتا بھی کیسے، انقلاب عوام لاتے ہیں امپائر نہیں
پندرہ ستمبر 2014ءکو کنٹینر پر کھڑے ہوکردھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے فرمایا، “ایاز صادق سن لو! تم ہمارے استعفے منظور نہ کر کے آئین اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کررہے ہو۔ ہم استعفے دے چکے ہیں اور اس جعلی قومی اسمبلی کومسترد کرچکے ہیں۔ تم کسی صورت اب ہمارے انقلاب کا راستہ نہیں روک سکتے۔ ہمارا اس جعلی مینڈیٹ والی قومی اسمبلی سے اب کوئی تعلق نہیں رہا۔ جعلی الیکشن کمیشن اور دو نمبر پارلیمنٹ کی کوئی حیثیت نہیں”۔عمران خان جو ان اسمبلیوں کوجعلی مینڈیٹ والی اسمبلی کہہ کر مسترد کرچکےتھے نےحسب دستور یوٹرن لےکر اسمبلی میں واپسی کا اعلان کیا۔ پانچ اپریل 2015ء کوتحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان فرمارہے تھے کہ “کل سے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کریں گے، جوڈیشل کمیشن (کےقیام) کا فیصلہ ہو گیا، اب دھاندلی کے خلاف کمیشن میں، سڑکوں پر اور اسمبلی میں بھی آواز بلند کریں گے”۔ استعفوں کے باوجود اسی اسمبلی میں آ کر بیٹھ گئے جسے وہ عوام کی نمائندہ تصور نہیں کرتے تھے۔
ایک اور تماشہ یہ ہوا کہ اسپیکر ایاز صادق نے تحریک انصاف کے ارکان کو ان کی غیر حاضری کے دنوں کی تنخواہ بھی دلوا دی۔ جب “غیر حاضر”ارکان نے لاکھوں روپے وصول کر لئے تو سیاسی حلقوں میں تحریک انصاف پر شدید تنقید شروع ہو گئی جس کے بعد عمران خان نے وصول کردہ تمام تنخواہ واپس کرنے کا اعلان کر دیا لیکن تاحال تحریک انصاف کے کسی ایک رکن نے بھی اپنی تنخواہ واپس نہیں کی۔ سیاسی حلقے اور ذرائع ابلاغ تحریک انصاف پر تنقید کررہے تھے۔اے این پی کے زاہد خان عمران خان سے سوال کررہے تھےکہ 126 دن کنٹینر پر کھڑے ہوکر اس اسمبلی کو بوگس اور اس میں بیٹھنے والے اراکین کو بدعنوان کہنے والے عمران خان کا بدعنوانوں کی اس بوگس اسمبلی میں کیا کام؟ زاہد خان کے بقول عمران خان اور اُن کے ساتھی اسمبلی کے رکن نہیں رہے۔ استعفی دینے کے بعد اسپیکر صرف آپ کے دستخط کی تصدیق کرتا ہے وہ یہ نہیں پوچھتا کہ آپ استعفی دینا چاہتے ہیں یا نہیں۔
عمران خان جب پچھلی مرتبہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئے تھے تو وزیر دفاع خواجہ آصف نے انہیں “شرم وحیا” کا ایسا درس دیا تھا جس پر شاید وہ ا بھی تک تلملا رہے ہیں
جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد جس میں تحریک انصاف کے تمام الزامات کو رد کیا گیا ، تحریک انصاف سیاسی طور پر بہت کمزور ہوگئی اورمعذرت خواہانہ طرز عمل اختیار کرنے پر مجبورہو گئی ہے۔ جبکہ متحدہ قومی مومنٹ اور جمعیت علماء اسلام (ف) جن کی سیاسی ساکھ پر پاکستان تحریک انصاف کے لگائے زخم ابھی تک مندمل نہیں ہوئے نے پی ٹی آئی کے ارکان کی ایوان سے مسلسل چالیس روز بغیر اطلاع غیرحاضری کاآئینی قضیہ کھڑا کر دیا۔ ان دونوں جماعتوں نے ڈی چوک سے پلٹنے والی پاکستان تحریک انصاف کو ڈی سیٹ کرنے کےلیے دو تحاریک پیش کر دیں۔ یہ تحاریک پی ٹی آ ئی کے 28ارکان کوقومی اسمبلی سے رخصت کرنے کےلیے تھیں۔ ایم کیو ایم اورجمعیت علما اسلام (ف) نے ایوان سے مسلسل 40روز بغیر اطلاع غیر حاضر رہنے پر پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کے سروں پر “ڈی سیٹ” ہونے کی تلوار لٹکا دی۔ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد عمران خان نے قومی اسمبلی کو بھی تسلیم کرلیا اور اسمبلی کی کارروائی میں شرکت کا بھی اعلان کردیا۔ عمران خان جب پچھلی مرتبہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئے تھے تو وزیر دفاع خواجہ آصف نے انہیں “شرم وحیا” کا ایسا درس دیا تھا جس پر شاید وہ ا بھی تک تلملا رہے ہیں۔ اسپیکر سردار ایاز صادق نے اس معاملے کو آئندہ “پرائیویٹ ممبرز ڈے” تک موخرکر دیا اور کہا کہ اس سلسلے میں جمعیت علماء اسلام اور ایم کیو کی قیادت سے بات چیت کر کے اس معاملہ کا حل تلاش کیا جائے گا۔ بعد میں یہ معاملہ 4 اگست تک ملتوی ہوا۔
وزیر اعظم نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان سے اور اسپیکر ایازصادق نے الطاف حسین سے بات کرکے اس مسئلہ کو حل کیا
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تحریک انصاف کے اراکین کی اسمبلی کی رکنیت منسوخ کرنے سے متعلق قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کی گئی تو حکمران جماعت اس کی مخالفت میں ووٹ دے گی۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کو ملنے والے مینڈیٹ کو تسلیم کرتی ہے اور وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ حزب مخالف کی جماعت پارلیمان میں اپنا کردار ادا کرے۔ وزیرِ اعظم نواز شریف نے بھی متحدہ قومی موومنٹ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنماؤں پر زور دیا تھا کہ وہ تحریک انصاف کے اراکین کی پارلیمانی رکنیت ختم کرنےکی قراردادیں واپس لے لیں لیکن حکومت اتنی ہمت نہیں کرپائی کہ ان قرارداد کو قومی اسمبلی میں مسترد کرتی۔وزیر اعظم نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان سے اور اسپیکر ایازصادق نے الطاف حسین سے بات کرکے اس مسئلہ کو حل کیا۔اسپیکر ایاز صادق کے الطاف حسین سے بات کرنے پر عمران خان غصہ ہورہے تھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ الطاف حسین کی مرضی کے بغیر ایم کیو ایم اپنی قرارداد کبھی بھی واپس نہ لیتی۔
تحریک انصاف کے اراکین نے قومی اسمبلی کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک انہیں ڈی سیٹ کرنے کی تحریکوں پر فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک وہ ایوان میں نہیں آئیں گے۔ ایم کیو ایم اورجمیعت علماء اسلام (ف) کی جانب سے 22 اپریل کو جمع کرائی گئی تحاریک بغیر کسی شرط کے واپس لےلی گئیں اور یوں پی ٹی آئی کے ارکان کا ڈی سیٹ ہونے کا معاملہ ختم ہوگیا ہے۔ اس اسمبلی کی اب تین سال کی معیاد باقی ہے، امید کی جانی چاہیئے کہ پی ٹی آئی آیندہ تین سال ایک بھرپور حزب اختلاف کا کردار ادا کرے گی۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں عمران خان اور تحریک انصا ف کے لیے بھی بہت سے سبق ہیں جو انہیں مستقبل کی سیاست کے حوالے سے مد نظر رکھنا ہوں گے۔ عمران خان کو چاہیئے کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو من وعن تسلیم کریں اور اپنے لب ولہجے میں سختی کم کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *