گلگت بلتستان کا شمار پاکستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہو تاہے۔ یہ پسماندگی شعور اور آگہی کی پسماندگی نہیں بلکہ پاکستان کی دیگر اکائیوں کے مقابلے میں معاشی، سیاسی اور آئینی حقوق اور وسائل کی دستیابی کی بنیاد پر ہے۔ گلگت بلتستان کے نوجوان گلگت بلتستان میں تعلیمی اداروں کی قلت اور پاکستان کے باقی علاقوں کے تعلیمی اداروں تک محدود رسائی کے باوجود اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔ 2005-6 کے دوران ہونے والے سروے یہ بتاتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں خواندگی کی شرح پاکستان کے باقی تمام صوبوں سے زیادہ ہےاور یہاں کے تعلیمی نظام میں صنفی تفریق بھی باقی تمام علاقوں سے کم ہے۔ یہ تمام اشاریےایک منظم اور ترقی پسند معاشرے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔گلگت بلتستان میں سیاسی شعور بھی باقی علاقوں کی نسبت زیادہ ہے،یہاں ووٹرز ٹرن آوٹ پاکستان کے دیگر علاقوں سے زیادہ ہوتا ہے جو اس علاقے کی سیاسی شعور کی طرف واضح اشارہ ہے۔اس سب کے باوجود اس علاقے کی معاشی حالت اور سیاسی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑا اورگلگت بلتستان بدستورپاکستان کے سب سے محروم اور پسماندہ علاقوں میں شامل ہے۔ گویا علاقہ پاکستان کے لیے اپنی وسائل اور جغرافیائی ومحل وقوع کے باعث ہمیشہ اہم رہا ہے اور عموماً یہاں کے لوگوں نے پاکستان کاساتھ دیا ہے لیکن اس کے صلے میں اس علاقے کو ہمیشہ محرومیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں دکھیلا گیا ہے۔ پاکستان کی باقی چاروں اکائیوں نے پاکستان میں ہونے والی ترقی سے فائدہ اٹھایا ہے مگر گلگت بلتستان کو ہمیشہ ان سے محروم رکھا گیا۔ ہر دور حکومت میں خواہ وہ سیاسی ہو یا فوجی گلگت بلتستان کی تاریخ محرومیوں سے عبارت رہی ہے۔
اور آج بھی گلگت بلتستان کے لوگوں کو کشمیری، قبائلی یا پٹھان سمجھا جاتا ہےجبکہ در حقیقت قبائلی علاقوں، کشمیر اور خیبر پختونخواہ سے گلگت بلتستان کا کوئی براہ راست ثقافتی وسیاسی تعلق کبھی نہیں رہا۔
گلگت بلتستان کی سیاسی محرومی کی تاریخ نئی نہیں اور ہر مرتبہ یہاں کے لوگوں کو نعروں اور وعدوں سے بہلایا گیا ہے۔ جون میں ہونے والے انتخابات میں اب کی بار نئے گلگت بلتستان کے نعرے سے عوام کو بہلایا جارہا ہے۔نئے گلگت بلتستان کا نعرہ لگا کر پاکستان تحریک انصاف نے گلگت بلتستان کی سیاست میں قدم جمانے شروع کیے ہیں۔ گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی آمد کو پاکستان کے دیگر صوبوں میں اس جماعت کی کارکردگی اور سیاست سے ہٹ کر دیکھنا ضروری ہے، یہ اس لیے ضروری ہے کہ گلگت بلتستان دوسرے صوبوں کی مانند بااختیار نہیں اور یہاں کے عوام میں شدید محرومی اور احساسِ کمتری کا شکار ہیں۔ گلگت بلتستان کی مخصوص آئینی حیثیت اور سیاسی محرومی کی تاریخ کے تناظر میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ مقامی لوگ پی ٹی آئی سے کیا توقعات رکھ سکتے ہیں اور کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
گلگت بلتستان کے حوالے سے سب سے پہلے تو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پی ٹی آئی کم از کم گلگت بلتستان کی نمائندہ جماعت نہیں ہے بلکہ مقامی آبادی کے لیے یہ روایتی سیاسی جماعتوں کی ہی ایک نئی شکل ہے جنہیں گلگت بلتستان کے عوام پچھلے پچاس سال سے دیکھتے اور سہتے آئے ہیں۔پچھلے پچاس سال سے گلگت بلتستان کے عوام اپنی حقیقی شناخت نہیں حاصل نہیں کر سکے اور آج بھی گلگت بلتستان کے لوگوں کو کشمیری، قبائلی یا پٹھان سمجھا جاتا ہےجبکہ در حقیقت قبائلی علاقوں، کشمیر اور خیبر پختونخواہ سے گلگت بلتستان کا کوئی براہ راست ثقافتی وسیاسی تعلق کبھی نہیں رہا۔ قبائلی علاقوں سے گلگت بلتستان کا کوئی زمینی رابطہ نہیں اور کشمیر کے ساتھ بھی گلگت بلتستان کا کوئی ثقافتی اور تاریخی تعلق کبھی نہیں رہا مگر پاکستان اور ہندوستان دونوں ممالک نے مل کر اس علاقے کا مستقبل کشمیر کے ساتھ وابستہ کر دیاہے اور دونوں ملکوں کے عوام اس بات پر مصر ہیں کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے۔
گلگت بلتستان پر مقامی لوگوں کی نمائندہ حکومت کبھی نہیں رہی ، آج تک پاکستان کی سیاسی جماعتیں ہی مقامی”خوشامدیوں” کے ساتھ مل کر یہاں حکومت کرتی رہی ہیں اس لیے یہ جماعتیں اپنے آقاوں کے سامنے گلگت بلتستان کی اصل تاریخ اور ثقافت اجاگر کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ پاکستان کی تمام جماعتیں اور خود ریاست کی بھی یہی پالیسی ہے کہ گلگت بلتستان کوکشمیر کا حصہ سمجھا جائے اور کشمیر کے بغیر گلگت بلتستان کو پاکستان میں شامل کر نے سے گریز کیا جائے کیوں کہ ان کے خیال میں اس اقدام سے کشمیر پر پاکستانی موقف کو نقصان پہنچے گا۔ ماضی کی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی بھی یہی پالیسی ہے۔ پی ٹی آئی بھی مرکزیت پسند سیاست کررہی ہے جس میں صوبائی اور لسانی سیاسی شناخت کی جگہ نہیں ، گلگت بلتستان پر تحریک انصاف کا موقف بھی عسکری و سیاسی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق ہے۔
گلگت بلتستان کے حوالے سے سب سے پہلے تو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پی ٹی آئی کم از کم گلگت بلتستان کی نمائندہ جماعت نہیں ہے بلکہ مقامی آبادی کے لیے یہ روایتی سیاسی جماعتوں کی ہی ایک نئی شکل ہے جنہیں گلگت بلتستان کے عوام پچھلے پچاس سال سے دیکھتے اور سہتے آئے ہیں۔پچھلے پچاس سال سے گلگت بلتستان کے عوام اپنی حقیقی شناخت نہیں حاصل نہیں کر سکے اور آج بھی گلگت بلتستان کے لوگوں کو کشمیری، قبائلی یا پٹھان سمجھا جاتا ہےجبکہ در حقیقت قبائلی علاقوں، کشمیر اور خیبر پختونخواہ سے گلگت بلتستان کا کوئی براہ راست ثقافتی وسیاسی تعلق کبھی نہیں رہا۔ قبائلی علاقوں سے گلگت بلتستان کا کوئی زمینی رابطہ نہیں اور کشمیر کے ساتھ بھی گلگت بلتستان کا کوئی ثقافتی اور تاریخی تعلق کبھی نہیں رہا مگر پاکستان اور ہندوستان دونوں ممالک نے مل کر اس علاقے کا مستقبل کشمیر کے ساتھ وابستہ کر دیاہے اور دونوں ملکوں کے عوام اس بات پر مصر ہیں کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے۔
گلگت بلتستان پر مقامی لوگوں کی نمائندہ حکومت کبھی نہیں رہی ، آج تک پاکستان کی سیاسی جماعتیں ہی مقامی”خوشامدیوں” کے ساتھ مل کر یہاں حکومت کرتی رہی ہیں اس لیے یہ جماعتیں اپنے آقاوں کے سامنے گلگت بلتستان کی اصل تاریخ اور ثقافت اجاگر کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ پاکستان کی تمام جماعتیں اور خود ریاست کی بھی یہی پالیسی ہے کہ گلگت بلتستان کوکشمیر کا حصہ سمجھا جائے اور کشمیر کے بغیر گلگت بلتستان کو پاکستان میں شامل کر نے سے گریز کیا جائے کیوں کہ ان کے خیال میں اس اقدام سے کشمیر پر پاکستانی موقف کو نقصان پہنچے گا۔ ماضی کی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی بھی یہی پالیسی ہے۔ پی ٹی آئی بھی مرکزیت پسند سیاست کررہی ہے جس میں صوبائی اور لسانی سیاسی شناخت کی جگہ نہیں ، گلگت بلتستان پر تحریک انصاف کا موقف بھی عسکری و سیاسی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق ہے۔
اس خطے کے عوام کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ پاکستان، پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ اس سر زمین کو اپنی’شہ رگ‘ قرار دینے کے باوجود گزشتہ 65 سالوں سے یہاں کے لاکھوں لوگوں کو اپنا شہری تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
عمران خان پاکستان کے سارے جماعتوں کوروایتی جماعتیں قرار دیتے ہیں اورتبدیلی کا نعرہ لگا تے ہیں لیکن گلگت بلتستان کے معاملے پر وہ بھی باقی سیاسی جماعتوں کی طرح روایتی سیاست کا نمائندہ بن چکے ہیں۔گلگت بلتستان پر ان کی روایتی حیثیت کا اندازہ ان کے بیانات سے لگایا جا سکتا ہے۔۲۰۱۳ کے انتخابات سے قبل جب عمران خان سکردہ اور خپلو آئے تو خپلو فورٹ میں اپنے پارٹی عہدیداران سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھاکہ مجھے گلگت بلتستان کے معاملے کاپورا علم نہیں اور نہ کوئی پارٹی پالیسی موجود ہےجب پارٹی پالیسی بنے گی تو گلگت بلتستان کے عوام کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔ آج تین سال بیت گئے ہیں اور عمران خان اور نہ پی ٹی آئی نے گلگت بلتستان پر اپنی پالیسی کا اعلان نہیں کیا ۔
گلگت بلتستان کی یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستانی سیاسی جماعتیں اس علاقے کے علیحدہ تشخص اور تاریخ کو سمجھے بغیر انتخابات جیت کر حکومت کرنا چاہتی ہیں، پی ٹی آئی نے بھی یہ بات سمجھ لی ہے کہ گلگت بلتستان پر حکومت توکی جاسکتی ہے مگر اسے الگ شناخت نہیں دی جاسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان تحریک انصاف نےجب پاکستان بھر میں پارٹی الیکشن کروائے تو پارٹی پالیسی اور جمہوریت کے برعکس گلگت بلتستان کو نظر انداز کردیا۔اس خطے کے عوام کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ پاکستان، پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ اس سر زمین کو اپنی’شہ رگ‘ قرار دینے کے باوجود گزشتہ 65 سالوں سے یہاں کے لاکھوں لوگوں کو اپنا شہری تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان کو یہاں کے لوگوں اورعوام سے نہیں بلکہ اس علاقے کی دولت، جغرافیائی حیثیت اور وسائل سے مطلب ہے۔ اس استحصالی ایجنڈے کو سر انجام دینے کے لیے یہاں کی سیا سی جماعتیں بھی وہی کردار ادا کرتی ہیں جو اسٹیبلشمنٹ ان کے لیے متعین کرتی ہےاور پی ٹی آئی ایسی سیاسی جماعتوں میں محض ایک اور اضافہ ہے۔
گلگت بلتستان کی یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستانی سیاسی جماعتیں اس علاقے کے علیحدہ تشخص اور تاریخ کو سمجھے بغیر انتخابات جیت کر حکومت کرنا چاہتی ہیں، پی ٹی آئی نے بھی یہ بات سمجھ لی ہے کہ گلگت بلتستان پر حکومت توکی جاسکتی ہے مگر اسے الگ شناخت نہیں دی جاسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان تحریک انصاف نےجب پاکستان بھر میں پارٹی الیکشن کروائے تو پارٹی پالیسی اور جمہوریت کے برعکس گلگت بلتستان کو نظر انداز کردیا۔اس خطے کے عوام کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ پاکستان، پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ اس سر زمین کو اپنی’شہ رگ‘ قرار دینے کے باوجود گزشتہ 65 سالوں سے یہاں کے لاکھوں لوگوں کو اپنا شہری تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان کو یہاں کے لوگوں اورعوام سے نہیں بلکہ اس علاقے کی دولت، جغرافیائی حیثیت اور وسائل سے مطلب ہے۔ اس استحصالی ایجنڈے کو سر انجام دینے کے لیے یہاں کی سیا سی جماعتیں بھی وہی کردار ادا کرتی ہیں جو اسٹیبلشمنٹ ان کے لیے متعین کرتی ہےاور پی ٹی آئی ایسی سیاسی جماعتوں میں محض ایک اور اضافہ ہے۔
سیاسی شناخت اور دیگر وفاقی اکائیوں کے برابر آئینی حیثیت کے حصول تک کوئی بھی نعرہ گلگت بلتستان کا مستقبل نہیں سنوار سکتا۔
پی ٹی آئی اگر گلگت بلتستان کی حقیقی نمائندگی کی خواہشمند ہو تی تو یہاں کے عوام کی امنگوں کا ضرور خیال رکھتی اوربیس لاکھ لوگوں کے مستقبل کو اہمیت دیتی مگر وہ ایسا کرنے کو تیار نہیں۔ پی ٹی آئی نے جون میں ہونے والے گلگت بلتستان انتخابات میں نئے گلگت بلتستان کا نعرہ لگا کر یہاں کے عوام کے ساتھ ایک نیا مذاق شروع کر دیا ہے۔ گلگت بلتستان کی جداگانہ حیثیت تسلیم کیے بغیر سابق سیاسی لوٹوں کے ذریعے حکومت بنا کر نیا گلگت بلتستان کیسے وجود میں آسکتا ہے؟ عمران خان مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ کسی بھی جگہ جب تک کوئی نظام عوام کو اس کے بنیادی حقوق نہیں مہیا کرتا وہ استحصالی نظام ہو تا ہے،وہ ریاستی تسلط اور جبر کا نظام ہو تا ہےاوریہی کا نظام ہے گلگت بلتستان کا مقدر بن چکا ہے۔ اس ظالمانہ نظام کو گلگت بلتستان میں نا فذ کر نے کے لیے پاکستان کی تمام سیا سی جما عتیں ایک ہیں ۔ یہ جماعتیں گلگت بلتستان کے عوام کو خوبصورت نعروں میں الجھا کر ووٹ لیتے ہیں حکومت کر تے ہیں اور اس ظالمانہ نظام کو پوری قوت کے ساتھ اس علاقے میں نافذ کر تے ہیں۔ پی ٹی آئی بھی اس نظام کے اندر رہ کر اپنے سیاسی لوٹوں کی مدد سے اسے مضبوط اور مستحکم عطا کرنا چاہتی ہے جو یقیناً نئے گلگت بلتستان کا راستہ نہیں۔
گلگت بلتستان کے نوجوان پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں اور وہاں پی ٹی آئی سے متاثر ہوئے ہیں لیکن نوجوانو ں کو یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ گلگت بلتستان کا مسئلہ ملک کے باقی صوبوں کے مسائل سے مختلف ہے۔ گلگت بلتستان کا اصل مسئلہ یہا ں کے بیس لاکھ عوام کی علیحدہ سیاسی شناخت کاہے جسے تسلیم کیے جانے کے بعد ہی حقوق کی بات درست انداز میں کی جاسکتی ہے۔ ہمیں نئے گلگت بلتستان میں وہی پرانااور بنیادی مسئلہ نہیں چاہیئے ۔ لہذاعلیحدہ سیاسی شناخت اور دیگر وفاقی اکائیوں کے برابر آئینی حیثیت کے حصول تک کوئی بھی نعرہ گلگت بلتستان کا مستقبل نہیں سنوار سکتا۔ موجودہ استحصالی نظام میں گلگت بلتستان کی ترقی ممکن نہیں۔ اس کے لیے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل جمود کا شکار یہ نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ان سیاست دانوں اور سیاسی قو توں کی جگہ ایسے سیاسی قا ئدین اور جما عتوں کو مو قع دینا ہو گا جو مقامی آبادی کے حقوق کے لیے کھڑے ہوں، اس کے بغیر کوئی بھی سیاسی نظام اور کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت گلگت بلتستان کی سیاسی اور قومی شناخت کو منوانے کی حیثیت میں نہیں۔
گلگت بلتستان کے نوجوان پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں اور وہاں پی ٹی آئی سے متاثر ہوئے ہیں لیکن نوجوانو ں کو یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ گلگت بلتستان کا مسئلہ ملک کے باقی صوبوں کے مسائل سے مختلف ہے۔ گلگت بلتستان کا اصل مسئلہ یہا ں کے بیس لاکھ عوام کی علیحدہ سیاسی شناخت کاہے جسے تسلیم کیے جانے کے بعد ہی حقوق کی بات درست انداز میں کی جاسکتی ہے۔ ہمیں نئے گلگت بلتستان میں وہی پرانااور بنیادی مسئلہ نہیں چاہیئے ۔ لہذاعلیحدہ سیاسی شناخت اور دیگر وفاقی اکائیوں کے برابر آئینی حیثیت کے حصول تک کوئی بھی نعرہ گلگت بلتستان کا مستقبل نہیں سنوار سکتا۔ موجودہ استحصالی نظام میں گلگت بلتستان کی ترقی ممکن نہیں۔ اس کے لیے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل جمود کا شکار یہ نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ان سیاست دانوں اور سیاسی قو توں کی جگہ ایسے سیاسی قا ئدین اور جما عتوں کو مو قع دینا ہو گا جو مقامی آبادی کے حقوق کے لیے کھڑے ہوں، اس کے بغیر کوئی بھی سیاسی نظام اور کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت گلگت بلتستان کی سیاسی اور قومی شناخت کو منوانے کی حیثیت میں نہیں۔