غمزدہ قوم کا اُن ننھے شہیدوں کو سلام
جن شہیدوں نے رہِ علم سجانے کےلیے
راہ کے سارے چراغوں میں لہو بھر ڈالا
اپنے شفاف دلوں، لالہ بے داغ کا خوں
جو حقیقت میں تھا سارے چمن و باغ کا خوں
کتنی کلیوں کا تبسم کئی غنچوں کا لہو
کتنے رُخساروں کا غازہ کئی سینوں کا لہو
کوہِ خاران کا، پنجاب کے کھیتوں کا لہو
یہ لہو خیبر و مہران کے پیکر کا لہو
“تُجھ کو کتنوں کا لہو چاہیئے اے ارضِ وطن”
اب تو حاضر ہے ہر اک اکبر واصغر کا لہو
اے فلک دیکھ مرا حوصلہ رشکِ خلیل
دیکھ اس قوم کا نذرانہ یک ذبحِ عظیم
میرے بچوں میں بھی وہ اُسوہ مردانہ ہے،
وقت کی آنکھ نے جو کرب و بلا میں دیکھا
ظُلم کے ہاتھ میں سہ شاخہ سناں دیکھ کے جو
اتنا بے باک تبسم دمِ آخر دکھلائے
میرے بچوں نے وہی عزم دکھایا جس سے،
نامِ ہر شمر و یزید آن میں گالی بن جائے
عِلم کا، حق کا عَلم تھامے یہ کمسن جانباز،
تاابد مُلکِ خُداداد کا لشکر ٹھہرے
لے کے اندھیرے یہاں آئے جو گُرگِ ظالم،
میرے بچے بھی اُجالے کے پیمبر ٹھہرے
عہدِ رفتہ سے جو اک علم کی شمع لے کر
عہدِ حاضر کے ابو جُہل سے ٹکرائے ہیں
سامنے عالمِ تہذیب کے ان بچوں نے
خونچکاں ہاتھ سے پلٹا ہے منافق کا نقاب
اُس کی ناپاک شقی شکل کو اب دیکھ کے ہم،
آدمیت کے عدوُ کی ابھی پہچان کریں
قرض ہے ہم پہ خروج اپنے شہیدوں کا ابھی
آو ہر کوچہ و بازار میں اعلان کریں
آو ہر گام پہ اک حشر بپا کرڈالیں
جس سے ہر دُشمنِ انسان کو محشور کریں
اشکِ غم موجہ سیلاب بنالیں ہم لوگ
آہ کو سیلیء گردابِ بلا کرڈالیں
جس میں ہم دُشمنِِ ہر نوع کو فنا کرڈالیں
خوں بہا اپنے شہیدوں کا ذرا لیں ہم لوگ
آو تاریکی کی پیشانی پہ اک وار کریں
مشعلِ علم لیے بڑھ کے بنامِ شُہَدا
آشیاں پھُونکیں غُلامانِ جہالت کا ابھی
ظُلم کو اپنے ہی پاوں پہ نگُوں سار کریں
اے فلک! ہم تری آنکھوں کو دکھائیں گے وہ دن
خونِ ناحق سے کہ جب حق کی منادی ہو گی
ہم جہاں بھر میں محبت کے امیں ٹھہریں گے
امنِ عالم، ہُنرو علم، وقارِ انساں
یہ صدی ہم سے ہی پائے گی یہ سارے جوہر
فلکِ پیر، مری قوم کے کمسن غازی
دیکھ لینا ابدیت کے امیں ٹھہریں گے
جن شہیدوں نے رہِ علم سجانے کےلیے
راہ کے سارے چراغوں میں لہو بھر ڈالا
اپنے شفاف دلوں، لالہ بے داغ کا خوں
جو حقیقت میں تھا سارے چمن و باغ کا خوں
کتنی کلیوں کا تبسم کئی غنچوں کا لہو
کتنے رُخساروں کا غازہ کئی سینوں کا لہو
کوہِ خاران کا، پنجاب کے کھیتوں کا لہو
یہ لہو خیبر و مہران کے پیکر کا لہو
“تُجھ کو کتنوں کا لہو چاہیئے اے ارضِ وطن”
اب تو حاضر ہے ہر اک اکبر واصغر کا لہو
اے فلک دیکھ مرا حوصلہ رشکِ خلیل
دیکھ اس قوم کا نذرانہ یک ذبحِ عظیم
میرے بچوں میں بھی وہ اُسوہ مردانہ ہے،
وقت کی آنکھ نے جو کرب و بلا میں دیکھا
ظُلم کے ہاتھ میں سہ شاخہ سناں دیکھ کے جو
اتنا بے باک تبسم دمِ آخر دکھلائے
میرے بچوں نے وہی عزم دکھایا جس سے،
نامِ ہر شمر و یزید آن میں گالی بن جائے
عِلم کا، حق کا عَلم تھامے یہ کمسن جانباز،
تاابد مُلکِ خُداداد کا لشکر ٹھہرے
لے کے اندھیرے یہاں آئے جو گُرگِ ظالم،
میرے بچے بھی اُجالے کے پیمبر ٹھہرے
عہدِ رفتہ سے جو اک علم کی شمع لے کر
عہدِ حاضر کے ابو جُہل سے ٹکرائے ہیں
سامنے عالمِ تہذیب کے ان بچوں نے
خونچکاں ہاتھ سے پلٹا ہے منافق کا نقاب
اُس کی ناپاک شقی شکل کو اب دیکھ کے ہم،
آدمیت کے عدوُ کی ابھی پہچان کریں
قرض ہے ہم پہ خروج اپنے شہیدوں کا ابھی
آو ہر کوچہ و بازار میں اعلان کریں
آو ہر گام پہ اک حشر بپا کرڈالیں
جس سے ہر دُشمنِ انسان کو محشور کریں
اشکِ غم موجہ سیلاب بنالیں ہم لوگ
آہ کو سیلیء گردابِ بلا کرڈالیں
جس میں ہم دُشمنِِ ہر نوع کو فنا کرڈالیں
خوں بہا اپنے شہیدوں کا ذرا لیں ہم لوگ
آو تاریکی کی پیشانی پہ اک وار کریں
مشعلِ علم لیے بڑھ کے بنامِ شُہَدا
آشیاں پھُونکیں غُلامانِ جہالت کا ابھی
ظُلم کو اپنے ہی پاوں پہ نگُوں سار کریں
اے فلک! ہم تری آنکھوں کو دکھائیں گے وہ دن
خونِ ناحق سے کہ جب حق کی منادی ہو گی
ہم جہاں بھر میں محبت کے امیں ٹھہریں گے
امنِ عالم، ہُنرو علم، وقارِ انساں
یہ صدی ہم سے ہی پائے گی یہ سارے جوہر
فلکِ پیر، مری قوم کے کمسن غازی
دیکھ لینا ابدیت کے امیں ٹھہریں گے