گزشتہ ایک ماہ سے وزیر اعظم پاکستان ، وزیر اعلیٰ پنجاب ، عمران خان ، وزیر اعلیٰ سندھ ، بلاول بھٹو زمیت تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دوروں پر ہیں لیکن ان دوروں کا مقصد سمجھ نہیں آیا ۔ ان دوروں سے جو فائدہ دورہ کرنے والوں کو سیاسی حمایت اور میڈیا کوریج کی صورت میں حاصل ہوتا ہے اس کےسوا متاثرین کی بحالی اور امداد میں کیا بہتری آتی ہے یہ کبھی سمجھ نہیں آ سکا۔ وزیر اعظم نواز شریف سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ وزراء اور سرکاری افسران کی ایک فوج کے ہمراہ ہیلی کاپٹر پر کرتے ہیں۔ وہ اور ان کے بھائی خادم اعلیٰ جہاں بھی جاتے ہیں وہاں ان کے اعزاز میں شامیانے لگائے جاتے ہیں، سٹیج تیار کیا جاتا ہے ، کیمپ اباد ہو جاتے ہیں، دوائیں ملنے لگتی ہیں اور راشن تقسیم ہوتا ہے مگر ان کے رخصت ہوتے ہی ویرانی لوٹ آتی ہے، راشن اور دوائیاں دکانوں اور گوداموں میں منتقل کر دی جاتی ہیں اور سرکاری عملہ اگلے سیاست دان کے آنے کے انتظامات میں جت جاتا ہے۔پانی میں ڈوبی بستیوں کے بیچ حکام کے لئے سٹیج سجائے جاتے ہیں اور پھر متعدد کیمروں کے جلو میں وزیرا عظم یا وزیر اعلی نمودار ہوتے ہیں، تصاویر کھچتی ہیں ، ویڈیو بنائی جاتی ہے یہاں تک کہ لائیو کوریج کا بھی انتظام کیا جاتا ہے مگر پانی میں گھرے لوگوں کے مصائب میں کوئی کمی نہیں آتی۔گزشتہ کئی دہائیوں سے سیلاب آنے، بند ٹوٹنے، فصلیں اجڑنے اور مویشی بہنے ہی کی طرح تقاریر ،وعدوں اور دعووں کا موسم بھی ہر سیلاب کے ساتھ لو ٹ آتا ہے۔
دکھ تو یہ ہےکہ ٹی وی کیمروں اور اخبارکے صفحات کے لئے امداد اور بحالی کے کاموں میں عارضی سرگرمی اور دلچسپی کے مظاہرہ کے بعد جب سیلاب اور سیاست رخصت ہو جاتے ہیں تو دریا اور متاثرین اکیلے رہ جاتے ہیں ۔
اس برس کے سیلاب کے بعد کا امدادی کام بھی سیاسی شعبدہ بازی کی نظر ہو گیا ہے۔اس بار حکم ران جہاں گئے دھرنے والوں کو ملکی ترقی کی راہ میں روکاوٹ قرار دیتے رہے اور خان صاحب کھلے آسمان تلے بیٹھوں کو وزیر اعظم کے استعفی کی نوید سنا کر لوٹ آئے۔شریف برادران عمران خان اور طاہر القادری پر سیلاب متاثرین کی امداد کی بجائے حکومت کو کمزورکرنے کا الزام لگاتے رہے جبکہ خان صاحب دھاندلی اور حلقوں کی تکرار میں مصروف رہے۔ دورہ پر آنے والی شخصیات کے فوٹو سیشن ، ٹویٹس اور اور پبلسٹی سے نہ تو پانی اترا نہ گھر بسے،نہ کشتیاں پہنچیں نہ امداد ہاں سیاسی دکانداری خوب چمکی۔ متاثرین کے سامنے جس امداد کا وزیر اعظم اعلان کرتے ہیں وہ بھی چھ ماہ تک دفتروں کے چکر کاٹنے کے بعدچیکوں کی صورت میں کہیں دس دس ہزار کر کے ملتی ہے ۔ سیلاب متاثرتین کی امداد کے لئے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ جعلی کیمپ لگا نے والے حکام کو ہی فوری اقدامات کا حکم دیتے ہیں جو امدادی سامان اور رقوم کی متاثرین میں تقسیم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، ایسے میں عمر بھر کی کمائی گنوانے والے کے ہاتھ چند سیاسی جلسوں اور دوروں کے سوا کیا آسکتا ہے؟
امداد کی ہر سال کسی نہ کسی قدرتی آفت کے نام پر تقسیم میں بدعنونی کا کاروبار اس قدر منافع بخش ہے کہ حکام میں سے کوئی بھی قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کو تیار نہیں۔ مسلم لیگ نواز اور دیگر سیاسی جماعتیں قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے میں سنجیدہ نہیں بلکہ ایسے منصوبے بنانے میں مصروف ہیں جن کی بناء پر انہیں ووٹ حاصل ہو سکیں۔ دکھ تو یہ ہےکہ ٹی وی کیمروں اور اخبارکے صفحات کے لئے امداد اور بحالی کے کاموں میں عارضی سرگرمی اور دلچسپی کے مظاہرہ کے بعد جب سیلاب اور سیاست رخصت ہو جاتے ہیں تو دریا اور متاثرین اکیلے رہ جاتے ہیں ۔ زندگی معمول کے مطابق گزرنے لگتی ہے،دریا کے کنارے بستیاں پھر تعمیر کی جاتی ہیں اور دریا ایک برس کے لئے اپنے کناروں میں سمٹ جاتا ہے۔
امداد کی ہر سال کسی نہ کسی قدرتی آفت کے نام پر تقسیم میں بدعنونی کا کاروبار اس قدر منافع بخش ہے کہ حکام میں سے کوئی بھی قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کو تیار نہیں۔ مسلم لیگ نواز اور دیگر سیاسی جماعتیں قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے میں سنجیدہ نہیں بلکہ ایسے منصوبے بنانے میں مصروف ہیں جن کی بناء پر انہیں ووٹ حاصل ہو سکیں۔ دکھ تو یہ ہےکہ ٹی وی کیمروں اور اخبارکے صفحات کے لئے امداد اور بحالی کے کاموں میں عارضی سرگرمی اور دلچسپی کے مظاہرہ کے بعد جب سیلاب اور سیاست رخصت ہو جاتے ہیں تو دریا اور متاثرین اکیلے رہ جاتے ہیں ۔ زندگی معمول کے مطابق گزرنے لگتی ہے،دریا کے کنارے بستیاں پھر تعمیر کی جاتی ہیں اور دریا ایک برس کے لئے اپنے کناروں میں سمٹ جاتا ہے۔
حقیقی منظر کشی۔ اس بات کا اضافہ ضرور کرنا چاہوں گی کہ ہمارے ہاں ہر سال یہی منظر نامہ اس تواتر سے دہرایا جاتا ہے کہ یہ کہنا ہی مشکل ہے کہ پہلے سیلاب آیا یا پہلے سیاست۔ میری ناقص رائے میں پہلے سیاست آتی ہے جو تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود مسئلے کے حتمی حل کی جانب کوئی پیشرفت نہیں ہونے دیتی، اور پھر اس سیاست کے نتیجے میں سیلاب آتا ہے۔ اگر حل پہلے ہی ڈھونڈ لیا جاتا تو یہ سیلاب ہی نا آتا۔