
کروڑوں لوگوں سے زندگی کا امکان چھیننے والے اعلی انتظام کو سنبھالے ہوئے چند نازک کندھوں اور اس سے بھی نحیف دماغوں سے سوال ہے کہ تحفظ کے نام پر تراشی گئی تمہاری پالیسی آج ہمیں کس مقام پرلے آئی ہے۔ ان کنفیوز لوگوں کے پیٹ چیر کر دیکھو جنہوں نے عقل کی جنت پر عقیدت کی دھند پھیلا کر ہمیں خرد سے بیگانہ کر دیا تو دیکھو گے کہ وہاں وہ سارے سرچشمے موجود ہیں جو ہماری سماجی عفونت سے جڑے ہیں۔ ان بزعم خود دانشوران و کاسہ لیسان شاہ سے پوچھیے کہ قومیت تراشنے کے نام نہاد مفروضے پر کلچر، زبان اور فنون کی قربانی کا جو نسخہ کیمیا لائے تھے اس کا اثر بلاخیز کیا ہوا، کہ آج ہماری زبان بانجھ ہو کر اعلی تخلیقات کو جنم دینے سے معذرت کر رہی ہے۔کلچر کے نام پر ہمارے پاس منافقت کے کھوٹے سکے کے سوا کچھ نہیں کہ لطف تو ہمیں بالی ووڈ کی جھنکار دیتی ہے مگر زبان پاکستانی کلچر کی مدح سرائی میں محو ہے اور فنون کی اقلیم پر قحط سالی کا تو ذکر ہی کیا کہ فنون کا بدن زخم زخم ہے۔
دنیاسے،جدیدیت سے ، ترقی سے،پڑوسیوں سے نفرت کرنے کا صلہ کیا ملا کہ ہم دشمن تہذیب کی ایجاد موبائل فون پر دوست مشرقی تہذیب کے گن ہی نہیں گاتے آیات مقدسہ کی نشر و اشاعت سے تبلیغ دین کا فریضہ ملی بھی نبھا رہے ہیں۔دنیا سے نفرت سکھاتے ہوئے تم یہ کیوں بھول گئے کہ ہر عمل، ردعمل بھی رکھتا ہے جو شدت میں مساوی اور جہت میں برعکس ہوتا ہے۔ پڑوسیوں سے عداوت پڑھاتے جن کی عمریں گزریں وہ یہ سوچ کر آج پچھتاتے تو ہوں گے کہ بھارت اور افغانستان کے سلسلے میں ہماری حکمران اشرافیہ اپنا طرز عمل بدل بیٹھی ہے۔جدیدیت کی ہر آسائش سے لطف اندوز ہوتے خطیبان شعلہ بیاں سے سوال تو بنتا ہے کہ بجلی ، سپیکر، موبائل، ٹی وی ، پرنٹنگ مشین تم سے چھین لیں تو کتنوں کو اپنی بات پہنچا سکو گے۔ ثقافت دیرینہ سے کاٹ کر نئی قومیت کی بنیادیں جنہوں نے ہوا میں اٹھائیں انہیں خدا را بتاؤ کہ ہر محب وطن قوم کے لیے زرمبادلہ کمانے کے لیے امریکہ و یورپ میں مزدوری کرنے کا خواہش مند ہے۔ معاشی انقلاب تو افراد کی پیداواری صلاحیتوں سے پھوٹتے ہیں، تم نے تو افرادی قوت کے امکان کو مانع حمل گولیاں کھلا کر نمود سے پہلے نابود کر دیا۔سماجی فضا میں امن وآشتی کی ہوائیں چلانے کی خواہش رکھنے والی ہماری حکومت اپنے ہی ریکارڈ کو کھنگال کے دیکھے تو جان لے گی اسلام آباد کے پر تعیش ہوٹلوں کے اندر خمار انگیز ماحول میں خفی و جلی ایجنسیوں نے مل کر جو مومن فورس تیار کی تھی، اس نے سپر طاقتوں کا غرور ہی خاک میں نہیں ملایا ہماری تہذیب پر تشدد کی کالک بھی تھوپ دی۔تعلیم کو ترقی کا زینہ اول کہنے والے ہمارے وزیر ان ومشیران تعلیم یہ تو بتائیں کہ تعلیم وہ کہتے کسے ہیں، جھوٹ پڑھا کر ، تاریخ کو ملفوف کرکے (حوالے کے لیے کے کے عزیز کا شاہکار مرڈر آف ہسٹری دیکھ لیں)تدبیر کو تقدیر کے تابع کرکے اور عقل پر عقیدت کی اوڑھنی چڑھا کر کب تعلیم ذریعہ ارتقا بنی۔ معاشرے اور افراد ایک دوسرے کے تکمیلی عنصر تھے مگر ہمارے ہاں کیا ہواکہ معاشرے کی شریانوں اور وریدوں میں خون کو رواں رکھنے کے لیے افراد کی شہ رگیں کاٹ دی گئیں۔ آج فرد ڈھونڈے نہیں ملتا کہ سماج کی فیکٹری صرف روبوٹ نما انسان بنا رہی۔ سماج کہتا ہے کہ نظریہ پاکستان ہمارے وجود کا جواز ہے ،ہر فرد بغیر اس موضوعی چٹکی کی خلش محسوس کیے طوطے کی طرح نظریہ پاکستان کا حوالہ دے رہا ہے بغیر اس تصور کی تعریف متعین کیے ہوئے۔۔۔ سماج نے کہا کہ تمہارا عقیدہ یہ ہے، عقیدتیں یہ ہیں، کلچر یہ ہے ہر فرد مانے جارہا ہے ، گواہی دیے جا رہا ہے بغیر عقل کی کسوٹی کو عیار بنائے۔ سماج کو مصنوعی انداز میں تشکیل دینے والوں نے کہا کہ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی اور حجاز مقدس کی زمین اطہر ہمارا مرکز و محور ہے ، ہر فرد یہی راگ الاپے جا رہا ہے۔ مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اس حجاز مقدس میں ہم اہلیان مملکت خداداد کو زباندان ، گونگے کہہ کر حقارت سے دیکھتے ہیں۔ عمریں گل جاتی ہیں، نسلیں فنا ہو جاتی ہیں مگر وہاں کی شہریتیں نہیں ملتیں، مسلمان اخوت کے دھاگے میں بندھے ہیں مگر عرب لڑکی سے شادی کوئی غیر عرب نہیں کر سکتا، بتان رنگ وبو نہ ٹوٹ سکے۔ پھر کہتے ہو کہ تنقید کیوں ؟ او عاقلان شہر ،بیماری کی تشخیص نہ ہو تو علاج کیسے ہوگا؟ کبھی کسی ڈاکٹر کو اس بات پر قتل کیا گیا کہ اس نے کہا تمہیں کینسر ہے؟اس کے تو ہاتھ چومتے ہو کہ وقت پر آگاہ کر دیا اور تم نے علاج کی فکر کر لی۔اور پھر مغربی مشین پر خون کے نمونے کی آزمائش سے ہیپا ٹائٹس کے وائرس کو تسلیم کر لینے والو ڈی این اے سے والدین کی شناخت بھی اسی مشینری سے ہوتی ہے۔ان کی نیو کلیر ٹیکنالوجی کو امت مسلمہ کی سب سے بڑی فتح کے شادیانوں کے شور میں آخر یہ حقیقت کیوں دب جاتی ہے کہ ان کے علوم،ان کی تہذیب، ان کے کلچر نے اختراع وایجاد کے در میں سوراخ ہی نہیں دروازہ ہی توڑ دیا ہے۔ اعلی ظرفی کہتی ہے کہ دشمن کی بھی خوبی کو تسلیم کروتو کیوں کم ظرفی کا اظہار کیا جائے آخر۔۔۔ اس معاشرے پر تنقید کرنے والوں کو مارنے کی روش ترک کر و بلکہ اپنی تہذیب اور کلچر کو امن و خوشحالی کا نمونہ بنا کر ان کا منہ بند کر دو۔ مغرب کی حکومتیں ہماری دشمن ہیں، رہنے دو۔ مغرب کی سیاست مشرق کی دشمن ہے ، ہونے دو،مگر اس سماج اور تہذیب کی کامیابیوں کو اپناؤ۔تمہاری سائنس، فلسفہ مر رہا ہے کہاں سے آب حیات لاؤ گے، سرسید کہاں سے لائے تھے وہ آب حیات۔۔۔۔انسان سے نفرت کا رویہ ترک کرو، مغربیوں سے بھی پیار کرو کہ انسانیت نے آپ کو ایک لڑی میں پرویا ہے، سب کی خیر سوچو، آگے بڑھ ، ترقی کرو پھر ہو گے تم امت خیر۔۔۔ جاہل، نحیف دماغوں کے پھیلائے جال کو توڑو کہ اس کو توڑے بنا آگے بڑھا نہیں جا سکتا۔
(نوجوان صحافی صفدر سحر کا تعلق قومی اخبار روزنامہ جنگ سے ہے)
Leave a Reply