پاکستان میں کوئی بھی محکمہ ہو سخت اور ناپسندیدہ کام سرانجام دینے والے زیادہ ترملازمین نچلی سطح کے ہوتے ہیں ،افسر طبقہ عام طور میٹنگز کے نام پر تفریحی دورے کرتے ہیں اور آرام و آسائش کی زندگی کو اپنا مقدر سمجھتے ہیں، اس ضمن میں سب سے بُری صورتحال پنجاب پولیس کی ہے۔ پنجاب پولیس کے ایک لاکھ اسی ہزار ملازمین اعلیٰ افسران اور سیاسی قیادت کے دباو پر جعلی پولیس مقابلے بھی کرتے ہیں ،چور بن کر عوام کو لوٹتے بھی ہیں، ناکہ لگا کر چندہ بھی اکٹھا کرتے ہیں ، بیس روپے کی سیگریٹ کی ڈبی پر بھی مان جاتے ہیں ، تھانے میں آنے والے مدعی اور ملزم دونوں سے رشوت بھی وصول کرتے ہیں، سفر کریں تو کرایہ بھی نہیں دیتے ، کہیں سے کھانا کھائیں تو پیسے بھی نہیں دیتے،بے جا پوچھ گچھ کر کے عوام کا وقت بھی ضائع کرتے ہیں ،یہ سب باتیں پُرانی ہیں بیشتر عوام اس کے عادی بھی ہو چکے ہیں لیکن اب کی بار پنجاب پولیس نے ایک انوکھا کام کر دکھایا ہے۔ ماڈل ٹاون میں نہتے عوام پر گولی چلانا کسی بھی طرح سے پنجاب پولیس کا عمومی طرز عمل قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
تما م تر مشکلات کے باوجود گزشتہ ایک دہائی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جتنے دھماکہ ہوئے ان میں سے بے شمار میں پولیس اہلکاروں نے خودکش حملہ آور کو روکا یا روکنے کی کوشش کی اور اپنی جان بچانے کی بجائے عوام کی جان بچانے کے لیےجانیں قربان کرچکے ہیں، قربانیاں دینے والوں کی طویل فہرست ہے لیکن ہم نے ان کی پذیرائی کرنے کی بجائے انہیں مزید بدنام کیا ہے ۔
سانحہ ماڈل ٹاون کی کوئی بھی توجیہہ کی جائے،عوام مشتعل تھے یا پُر امن لیکن تھے بے گناہ اور وہ عوام جن پر دن دیہاڑے گولیوں کی بارش ہوئی وہ ان چند پاکستانیوں میں سے تھے جو علم حاصل کرنے منہاج القرآن آئے تھے۔ اس واقعہ میں سو کے قریب افراد کو گولیاں لگیں، چودہ مارے گئےاور درجنوں زخمی ہوئے۔ یہ وہ پولیس ہے جو عوام کی ملازم ہے ،عوام کے ٹیکس کے پیسے سے ان کی تنخواہیں پچھلے دورِحکومت میں دُ گنی کر دی گئیں جس کا مقصد ان کی کارکردگی بہتر بنانا تھا۔ پولیس کی خراب کارکردگی کی بڑی وجہ سیاسی مداخلت ہے ، سیاسی مخالفین کو زیر کرنے اور پرانے جھگڑے چکانے کے لئے پولیس کے استعمال اور سیاسی بھرتیوں نے پولیس کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔پاکستان ہائی وے پولیس، ٹریفک وارڈنز ، موٹروے پولیس اور کچھ دوسرے محکمے سیاسی دباو سے آزاد ہونے کے باعث نسبتاً احسن طریقے سے کام کر رہے ہیں حالانکہ ان محکموں میں بھی پاکستان کے عام شہری کام کرتے ہیں ان کی تنخواہیں بھی لگ بھگ اُتنی ہی ہیں۔جو محکمے اپنے کام درست طریقے سے سر انجام دے رہے ہیں ان کا نظام کافی بہتر ہے ان کےسربراہان ہر حکومت اپنی مرضی سے تبدیل کر تی رہتی ہے لیکن محکمے تا حال کام بہتر طریقے سے کر رہے ہیں ان محکموں میں ملازمین کو سہولتیں بھی میسر ہیں ڈیوٹی کے اوقات بھی کم ہیں ان پربدعنوانی کے الزامات بھی کم ہیں۔
پنجاب پولیس کی ناقص کارکردگی کی ایک اور اہم وجہ ناکافی فنڈز اور تربیت ہے۔ فنڈز کی کمی کی وجہ سے اسلحہ ، مواصلات اور انتظامی امور کا قدیم بندوبست ابھی تک چل رہا ہے۔پولیس کے زیر استعمال بندوقیں اس قدر پرانی ہیں کہ ضرورت پڑنے پر چلتی ہی نہیں اور اگر چل جائیں تو ان سے حساب لیا جاتا ہے۔پولیس والوں کی غیر ضروری اور اضافی ڈیوٹیاں بھی پولیس کی کارکردگی کو متاثر کر رہی ہیں۔تھانوں میں ابھی تک ہاتھ سے لکھنے اور ریکارڈ رکھنے کا نظام رائج ہے ،کمپوٹر نہیں ہیں انٹرنیٹ نہیں ہے مرکز سے رابطے کا کوئی خاص انتظام نہیں ہے ، ڈیوٹی کے اوقات بھی غیر معمولی ہیں جو پولیس سپاہی کا مورال کم کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔تما م تر مشکلات کے باوجود گزشتہ ایک دہائی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جتنے دھماکے ہوئے ان میں سے بے شمار میں پولیس اہلکاروں نے خودکش حملہ آور کو روکا یا روکنے کی کوشش کی اور کئی اپنی جان بچانے کی بجائے عوام کی جان بچانے کے لیےجانیں قربان کرچکے ہیں،قربانیاں دینے والوں کی طویل فہرست ہے لیکن ہم نے ان کی پذیرائی کرنے کی بجائے انہیں مزید بدنام کیا ہے ۔
حکومت کو اس محکمہ کی کارکردگی کی بہتری کے لئے پولیس نظام میں بنیادی تبدیلیاں کرنی ہوں گی، مواصلات کا جدید نظام، بہتر اسلحہ اور تربیت، موزوں تنخواہیں اور سیاسی مداخلت سے پاک ماحول فراہم کرنا ہوگا۔ پولیس کو سیاسی دباو سے آزاد اپنے فرائض کی انجام دہی کا موقع ملے تو عوام کے جان و مال کے تحفظ کا بنیادی ریاستی فرض ادا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

Leave a Reply