سکول میں پڑھائی جانےوالی کتب میں سے ایک مطالعہ پاکستان ہے جس میں پاکستان کے بانی اور پہلے گورنر جنرل محمدعلی جناح کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی قوم کو کام کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ ان کا یہ مقولہ تو ہر عام و خاص کی زبان پر ہے "کام ، کام اور بس کام” لیکن شاید ان کے اس مقولے پر صحیح اور درست انداز میں عمل کرنے کے لیے کام سے چھٹی ملنا بے حد ضروری ہے۔ اقبال جہد مسلسل اور ہمہ دم متحرک رہنے پر زور دیتے رہے مگر شاید اس تلقین کو سن سن کر ہی تھک جانے والی قوم کے لیے یوم اقبال کی چھٹی لازمی ہے۔ کام کرنے کے پر اتنے اصرار کا مطلب تو یہ ہے کہ بابائے قوم اور مفکر پاکستان غیر ضروری ‘چٹھی’ کے حق میں نہیں تھے۔ گو انسانی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے چھٹی کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن ہر ایرے غیرے کے جنم دن یا برسی کو تعطیل قرار دینا کسی بھی ترقی یافتہ قوم کی نشانی نہیں۔
دوسرے صاحب بولے "یہ حکومت ہندوستان کے ہمدردوں کی ہے، یہ کبھی بھی نظریہ پاکستان اور مفکر پاکستان کی قدر نہیں کریں گے”(گویا حب الوطنی کا تقاضا زیادہ سے زیادہ تعطیلات دینا ہے)۔
گذشتہ روز گاؤں جاتے ہوئے راولپنڈی سے گاڑی میں بیٹھا تو راستے کے دوران ہر نشست پر ایک ہی موضوع زیر بحث تھا اور وہ تھا "9 نومبر” کی چھٹی۔ پاکستانی قوم کو شاید کبھی بھی کسی بھی چیز کے لیے اتنا نہیں ترسایا گیا ہوگا جتنا وفاقی وزارت داخلہ نے اس چھٹی کے لیے ترسایا۔ کبھی ہاں تو کبھی ناں کے پروانے ایک ہفتے سے جاری کیے جارہے تھے بالآخر 9 نومبر کو تعطیل نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور حکومت کے اس فیصلے پر سرکاری مزدوری (نوکری) کرنے والے ہر گلی، ہر گاڑی اور ہر بس اڈے پر حکومت کو گالیاں دیتے نظر آئے۔
گاڑی میں بیٹھا تو ایک صاحب بول پڑے "بھائی جناح نے تو صرف پگڑی پہنائی تھی باقی پاکستان تو اصل میں علامہ اقبال نے بنایا تھا کیونکہ سب سے پہلے اپنے الگ وطن کا خواب سر علامہ محمداقبال نے دیکھا تھا”۔ دوسرے صاحب بولے "یہ حکومت ہندوستان کے ہمدردوں کی ہے، یہ کبھی بھی نظریہ پاکستان اور مفکر پاکستان کی قدر نہیں کریں گے”( گویا حب الوطنی کا تقاضا زیادہ سے زیادہ تعطیلات دینا ہے)۔ ٹی وی چینلز نے خوب شہ سرخیاں چلائیں، مفکر پاکستان کی یوم پیدائش 9 نومبر پر ‘نو’ چھٹی۔ غرض یہ کہ پوری قوم کو یہ خبر کھائے جا رہی تھی کہ سر علامہ محمداقبال کے جنم دن کے موقع پر پاکستانی قوم کو خوشیاں منانے کا موقع ملنا چاہیے تھا خواہ اس سے چند روز پہلے پہلے ہفتہ وار چٹھی ہی کیوں نہ گزری ہو۔
اگر تعطیلات دینے کی یہ روش بڑھتی گئی تو ہر قوم، قبیلے، مسلک اور عقیدے کے لوگ اپنے اپنے مشاہیر اور مفکرین کے دن منانے کے لیے تعطیل کا مطالبہ شروع کر دیں گے۔ یہ سلسلہ عام ہوا تو پوری قوم سارا سال چھٹی پر رہے گی۔
حکومت نے تو چھٹی نہ دے کر (عوام کی نظر میں) روحِ اقبال کو تڑپایا، ان کی اشعار، فکر و نظریہ کی بے قدری کی لیکن ہمارے محترم چیرمین پاکستان تحریک انصاف جناب عمران خان صاحب نے اقبالیات کی قدر کرتے ہوئے پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو حکم دیا کہ یوم اقبال کوئی منائے یا نہ منائے پختونخوا کے لوگ ضرور منائیں گے۔ یوں "9نومبر 2015ء” کو پورے ملک کے سرکاری و غیرسرکاری ادارے کھلے رہے اور پختونخوا کو شاید کام کی نہیں بلکہ چھٹیوں کی زیادہ ضرورت ہے تو تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ تمام سرکاری و غیرسرکاری ادارے بھی بند رہے۔
یہ سوچنا ضروری ہے کہ کیا ہر مفکر کے یوم پیدائش اور برسی کو عام تعطیم بنانا مناسب ہے یا نہیں۔ معلوم نہیں اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھتے ہوئے یہ سپنا بھی دیکھا تھا یا نہیں کہ ان کے یوم پیدائش کو عام تعطیل کا درجہ دیا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ جناح صاحب نے پاکستان بنایا ہی اس لیے ہو کہ ان کے پیدا ہونے کی خوشی اور وفات کا سوگ منانے کے لیے دنیا میں کہیں تو تعطیل ہو۔
ایک اور بحث طلب مسئلہ یہ ہے کہ کن مفکرین، شخصیات اور دانشور خواتین و حضرات کے ایام پیدائش و ممات کو تعطیل کا درجہ دیا جائے۔ اگر اقبال کے یوم پیدائش پر تعطیل ہے تو رومی یا خوشحال خان خٹک جو اقبال کو متاثر کرنے والے شعراء ہیں کے جشن اور ایام پر بھی تعطیل کا اعلان کر دیجیے۔ اور پاکستان بننے کے بعد سامنے آنے والے نامور شعرا کی یاد منانے کے لیے بھی تعطیل دی جائے۔ پختونخوا کے وزیراعلیٰ صاحب اپنے ہی قبیلے اور قوم کے سپہ سالار، عظیم شاعر اور دانشور خوشحال خان خٹک جس سے علامہ اقبال نے شاہین اور مردمومن کی تشبہیات مستعار لیں کے لیے بھی ایسا ہی کوئی اعلان کر دیں تو بہتر ہے۔ اگر تعطیلات دینے کی یہ روش بڑھتی گئی تو ہر قوم، قبیلے، مسلک اور عقیدے کے لوگ اپنے اپنے مشاہیر اور مفکرین کے دن منانے کے لیے تعطیل کا مطالبہ شروع کر دیں گے۔ یہ سلسلہ عام ہوا تو پوری قوم سارا سال چھٹی پر رہے گی۔ چھٹیوں کی ضرورت اس قوم کو ہوتی ہے جو اپنے پاؤں پر کھڑی ہو ہمیں تو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم کب تک اس ملک میں چھٹیوں کے لیے بہانے تلاش کرتے رہیں گے؟ حکومتی سطح پر ایسے چند اور فیصلوں کی ضرورت ہے تاکہ یہ قوم کچھ کام کرنے کی عادت اپنائے اور حقیقت میں دنیا سے مقابلہ کرنے کی طاقت پیدا کرسکے ورنہ تاقیامت ہم چھٹیاں منانے والی قوم ہی رہیں گے۔
Leave a Reply