ہمارے رہنما عوامی اجتماعات میں بعض اوقات ایسی ایسی باتیں کر جاتے ہیں جوعملی زندگی میں ممکن نہیں ہوتیں لیکن وہ جوش خطابت میں عوامی پذیرائی کی خاطر بلند و بانگ دعوے کرنے سے بھی نہیں چوکتے اور لگے ہاتھوں عوام کو”نادر”مشورے بھی دے جاتے ہیں۔ستر کی دہائی میں گجرات میں ایک صاحب سرور جوڑا ہوا کرتے تھے ،ان کے حوالے سے مشہور تھا کہ جب وہ تقریر کرتے تو سینما کا شو ٹوٹ جاتا ۔ ان کی تقاریر کے مندرجات ضبط تحریر میں نہیں لائے جاسکتے ۔اسوقت کچھ اس طرح ہی سیاست ہوتی تھی ۔ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے بعد بھٹو کے حامی اور انکے مخالف مجمع گرم کرنے کیلئے کافی کچھ کہہ جاتے تھے۔ذاتیات کی سیاست کا یہ سلسلہ اسی نوے کی دہائی تک جاری رہا ،مشرف کے دورا قتدارتک سیاستدانوں نے ذاتیات کو نشانہ بنانے سے گریز شروع کر دیا تاہم اب بھی کچھ لوگ پرانے دور میں رہ رہے ہیں اورپرانے خیالات سے لوگوں کو نوازتے رہتے ہیں ۔شیخ رشید صاحب پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کی قیادت پر جیسے حملے کرتے ہیں اس طرح پی ٹی آئی کی قیادت خود بھی نہیں کرتی ۔
بات ہو رہی تھی سیاست دانوں کے بیانات اور ان کی طرف سے قوم کی رہنمائی کی ۔چند روز قبل جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن نے سالانہ اجتماع کے دوران ملکی مسائل کا حل جہاد و قتال کو قرار دیا ۔ سید منور حسن کسی زمانے میں ترقی پسندوں کے ساتھ بھی رہے بعد میں جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے ۔ بڑے صاف گو ہیں جوسچ سمجھتے ہیں کہہ دیتے ہیں ، اس سے پہلے قبائلی علاقوں میں لڑنے والے دہشت گردوں کو مجاہد اور فوج کے ہاتھوں مرنے والے دہشت گردوں کو شہید قرار دیتے رہے ہیں ۔ سابق امیر جماعت کے بیان پر میڈیا میں تھوڑی بہت لے دے ہوئی تاہم کسی بھی عالم یا مذہبی لیڈر نے سید منور حسن کی "تجویز”کو مسترد نہیں کیا اورنہ ہی ریاست نے مولانا کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی کی۔ اس سے قبل بھی ایسے اشتعال انگیز” فتوے”جاری ہوتے رہے ہیں،بظاہر ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ان فتووں کے زیر اثرکوئی نہ کوئی مذہبی انتہا پسند متحرک ہو جاتا ہے اور جنت کمانے کیلئے فتویٰ زدگان کو ہلاک کر دیتا ہے ۔بعدازاں مذہبی انتہاپسند ملزم کو غازی قرار دے کر اس کے پیچھے کھڑے ہوجاتے ہیں ،کوئی گواہی دینے پر تیار نہیں ہوتاپھر عدالتوں کو چار و ناچارقانون ہاتھ میں لینے والوں کو بری کرنا پڑتا ہے ۔ جج ، وکلا ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے ارکان بھی اس بھٹی کا ایندھن بن چکے ہیں لیکن انتہا پسندی کی کھلے بندوں ترویج بڑھتی جا رہی ہے ۔ منور حسن صاحب نے جو جہاد و قتال کے حوالے سے بیان جاری فرمایا ہے اسے عملی جامہ پہنانے کا کوئی قابل قبول اور قابل عمل طریقہ نہیں بتایا ۔اب لوگ خود ہی اس کو عملی جامہ پہناتے رہیں گے اور گلی گلی انصاف ہوتا رہے گا ۔
بات ہو رہی تھی سیاست دانوں کے بیانات اور ان کی طرف سے قوم کی رہنمائی کی ۔چند روز قبل جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن نے سالانہ اجتماع کے دوران ملکی مسائل کا حل جہاد و قتال کو قرار دیا ۔ سید منور حسن کسی زمانے میں ترقی پسندوں کے ساتھ بھی رہے بعد میں جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے ۔ بڑے صاف گو ہیں جوسچ سمجھتے ہیں کہہ دیتے ہیں ، اس سے پہلے قبائلی علاقوں میں لڑنے والے دہشت گردوں کو مجاہد اور فوج کے ہاتھوں مرنے والے دہشت گردوں کو شہید قرار دیتے رہے ہیں ۔ سابق امیر جماعت کے بیان پر میڈیا میں تھوڑی بہت لے دے ہوئی تاہم کسی بھی عالم یا مذہبی لیڈر نے سید منور حسن کی "تجویز”کو مسترد نہیں کیا اورنہ ہی ریاست نے مولانا کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی کی۔ اس سے قبل بھی ایسے اشتعال انگیز” فتوے”جاری ہوتے رہے ہیں،بظاہر ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ان فتووں کے زیر اثرکوئی نہ کوئی مذہبی انتہا پسند متحرک ہو جاتا ہے اور جنت کمانے کیلئے فتویٰ زدگان کو ہلاک کر دیتا ہے ۔بعدازاں مذہبی انتہاپسند ملزم کو غازی قرار دے کر اس کے پیچھے کھڑے ہوجاتے ہیں ،کوئی گواہی دینے پر تیار نہیں ہوتاپھر عدالتوں کو چار و ناچارقانون ہاتھ میں لینے والوں کو بری کرنا پڑتا ہے ۔ جج ، وکلا ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے ارکان بھی اس بھٹی کا ایندھن بن چکے ہیں لیکن انتہا پسندی کی کھلے بندوں ترویج بڑھتی جا رہی ہے ۔ منور حسن صاحب نے جو جہاد و قتال کے حوالے سے بیان جاری فرمایا ہے اسے عملی جامہ پہنانے کا کوئی قابل قبول اور قابل عمل طریقہ نہیں بتایا ۔اب لوگ خود ہی اس کو عملی جامہ پہناتے رہیں گے اور گلی گلی انصاف ہوتا رہے گا ۔
اس سے قبل بھی ایسے اشتعال انگیز” فتوے”جاری ہوتے رہے ہیں،بظاہر ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ان فتووں کے زیر اثرکوئی نہ کوئی مذہبی انتہا پسند متحرک ہو جاتا ہے اور جنت کمانے کیلئے فتویٰ زدگان کو ہلاک کر دیتا ہے ۔
پاکستان کا عدالتی نظام کم زور ہونے کے باعث پنچایتی انصاف اور سرعام مشتعل ہجوم کے ہاتھوں سزائیں دینے کا عمل بڑھ رہا ہے۔ رائج عدالتی نظام سست ہے، مجرم کے خلاف مقدمہ کے اندراج سے سزا پر عملدرآمد کے درمیان ایک صبر آزما اور پیچیدہ طریقہ کار حائل ہے۔ مقدمہ درج ہوتا ہے ملزم گرفتار ہوتا ہے ،پھر تفتیش ہوتی ہے ، سماعت ہوتی ہے پھر ملزم کو سزا سنائی جاتی جس کے بعد اپیلوں کا سلسلہ شروع ہوجا تا ہے۔ سزا سنائے جانے کے بعد بھی مجرموں کی سزا پر عملدرآمد میں بہت عرصہ لگ جاتاہے جس دوران مدعی بیچارا بھی ساتھ ساتھ خوار ہوتا ہے ۔ سزا پر عملدرآمد ہونے تک لوگوں کا غصہ ٹھنڈا ہو چکا ہوتا ہے اور بعض دفعہ مجرم بری بھی ہو جاتا ہے ۔
سست رو عدالتی نظام کے ساتھ ساتھ پنچایت ، جرگہ اورمشتعل ہجوم کے ہاتھوں سرعام سزاوں کا چلن بھی عام ہے ۔ پنچایت اور جرگہ کو تو ماضی میں حکومتوں کی سرپرستی بھی حاصل رہی ہے تاہم اس پنچایتی انصاف کو حکومت تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن اپنے غیر موثر نظام انصاف کے ذریعے اس کی حوصلہ افزائی ضرور کررہی ہے ۔ پولیس بھی اس چلن کو پسند کرتی ہے اور عدالت سے باہر ہی مقدمات حل کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔پنچایتی انصاف کے کچھ تو نپے تلے اصول ہیں اور کچھ ہمارے مقامی رہنما،چودھری وغیرہ موقع کی مناسبت سے سزاتجویز کر دیتے ہیں اور پھر عوام اس پر عملدرآمد کر دیتے ہیں ۔ ایسے واقعات سے پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے ، روزانہ کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ دیکھنے کو مل جاتا ہے جہاں مشتعل ہجوم یا جرگے قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے ازخود سزائیں دیتے ہیں۔ جیسے توہین مذہب کے الزام میں اگر کوئی بندہ پکڑا جاتا تو اس کی سزا موت ہے ، یہ الگ بات ہے کہ موت کس طرح دینی ہے ،گولی مار کر، گھسیٹ کر ، چوراہے میں پھندا لگا کر، جلا کر یا تشدد سے ۔ چور ڈاکو کی سزا چھترول ،ڈنڈے سے تشدد ،رسہ پر چڑھانا،بھیڑ کی وجہ سے جو لوگ تشدد میں حصہ نہیں ڈال سکتے وہ گالیوں پر اکتفا کر لیتے ہیں ۔ لڑکیوں کو چھیڑنے پر مارپیٹ سے زیادہ بے عزتی کرنا مقصود وہوتی ہے اس لیے لڑکے کو کان پکڑوا دینے ، لڑکی کو باجی کہلوانے یاتھوڑی بہت چھترول پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ایسے لفنگوں کو بعض اوقات منہ کالا کرنے یا سر اوربھنویں مونڈھنے کے بعد چھوڑ دیا جاتا ہے ۔اس "انصاف ” میں اکثر نا انصافی ہی ہوتی ہے اکثرمعمولی رنجشوں کو بنیاد بنا کر لوگوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی جاتی ہے ۔قانون ہاتھ میں لینے والی پنچایتیں، جرگے اور مشتعل ہجوم اکثر قانون کی گرفت سے آزاد رہتے ہیں۔
سست رو عدالتی نظام کے ساتھ ساتھ پنچایت ، جرگہ اورمشتعل ہجوم کے ہاتھوں سرعام سزاوں کا چلن بھی عام ہے ۔ پنچایت اور جرگہ کو تو ماضی میں حکومتوں کی سرپرستی بھی حاصل رہی ہے تاہم اس پنچایتی انصاف کو حکومت تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن اپنے غیر موثر نظام انصاف کے ذریعے اس کی حوصلہ افزائی ضرور کررہی ہے ۔ پولیس بھی اس چلن کو پسند کرتی ہے اور عدالت سے باہر ہی مقدمات حل کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔پنچایتی انصاف کے کچھ تو نپے تلے اصول ہیں اور کچھ ہمارے مقامی رہنما،چودھری وغیرہ موقع کی مناسبت سے سزاتجویز کر دیتے ہیں اور پھر عوام اس پر عملدرآمد کر دیتے ہیں ۔ ایسے واقعات سے پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے ، روزانہ کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ دیکھنے کو مل جاتا ہے جہاں مشتعل ہجوم یا جرگے قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے ازخود سزائیں دیتے ہیں۔ جیسے توہین مذہب کے الزام میں اگر کوئی بندہ پکڑا جاتا تو اس کی سزا موت ہے ، یہ الگ بات ہے کہ موت کس طرح دینی ہے ،گولی مار کر، گھسیٹ کر ، چوراہے میں پھندا لگا کر، جلا کر یا تشدد سے ۔ چور ڈاکو کی سزا چھترول ،ڈنڈے سے تشدد ،رسہ پر چڑھانا،بھیڑ کی وجہ سے جو لوگ تشدد میں حصہ نہیں ڈال سکتے وہ گالیوں پر اکتفا کر لیتے ہیں ۔ لڑکیوں کو چھیڑنے پر مارپیٹ سے زیادہ بے عزتی کرنا مقصود وہوتی ہے اس لیے لڑکے کو کان پکڑوا دینے ، لڑکی کو باجی کہلوانے یاتھوڑی بہت چھترول پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ایسے لفنگوں کو بعض اوقات منہ کالا کرنے یا سر اوربھنویں مونڈھنے کے بعد چھوڑ دیا جاتا ہے ۔اس "انصاف ” میں اکثر نا انصافی ہی ہوتی ہے اکثرمعمولی رنجشوں کو بنیاد بنا کر لوگوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی جاتی ہے ۔قانون ہاتھ میں لینے والی پنچایتیں، جرگے اور مشتعل ہجوم اکثر قانون کی گرفت سے آزاد رہتے ہیں۔
پنچایتی انصاف کو حکومت تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن اپنے غیر موثر نظام انصاف کے ذریعے اس کی حوصلہ افزائی ضرور کررہی ہے۔
جن مقدمات کا تعلق مذہب سے ہوتا ہے ان میں تو لوگ پولیس یا عدالت کا انتظار نہیں کرتے اور فوری طوپرتصدیق کیے بغیر ہی "انصاف "کر دیتے ہیں اگر کبھی پولیس موقع پر پہنچ بھی جائے تو بپھرے عوام ان کو نزدیک نہیں پھٹکنے دیتے ۔ ابھی حال ہی میں کوٹ رادھاکشن میں ایک مسیح جوڑے کومشتعل ہجوم کے ہاتھوں زندہ جلائے جانے کا واقعہ اس چلن کی بدترین مثال ہے۔کچھ عرصہ قبل مریدکے میں یونین اور فیکٹری مالک کے درمیان تنازعے کے بعد اہل دیہہ فیکٹری پر حملہ آور ہوگئے اور فیکٹری مالک کو آیات کریمہ کی بے حرمتی کے الزام میں ہلاک کر دیا ۔ اس سے قبل گوجرانوالہ میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ایک حافظ قرآن کو توہین قرآن کے الزام میں گلیوں میں گھسیٹا گیا ،پولیس نے تھانے میں بندکیا تو تھانے پر حملہ کر کے اس کو حوالات سے نکالا اور سڑکوں پر گھسیٹ گھسیٹ کر مار ڈالا ، پھر بھی غصہ ٹھنڈا نہ ہواتو اس کی لاش کو آگ لگا دی گئی ۔ اگلے روز جماعت اسلا می کے امیر نے مذکورہ” ملزم”کا جنازہ پڑھایا ۔ ایک واقعہ سیالکوٹ میں بھی ہوا جہاں پولیس کی موجودگی میں دو بھائیوں کو قتل ڈکیتی کے الزام میں بد ترین تشدد کر کے ہلاک کیا گیا پھر انکی لاشوں کو سڑک پر الٹا لٹکایاگیا ، اس کے بعد ٹرالی پر رکھ کر پورے گاوں میں گھمایاگیا ( یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان دونوں بھائیوں کا تعلق بھی جماعت اسلامی سے تھا )۔ اس سارے عمل میں ریاست کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے ، مذہب کے نام پر بہت سی جماعتیں ریاست کے کنٹرول سے باہرہو چکی ہیں ۔قبائلی علاقوں میں مذہب کے نام پر ہی ریاستی رٹ کو چیلنج کیا گیاجس کی وجہ سے کافی جانی نقصان ہوا اورریاست کی رٹ بحال کرنے کیلئے فوج کو ایک بھرپورآپریشن کرنا پڑا ۔
مذہب کے نام پر اشتعال دلانے میں ہمارے علماکرام کسی تردد سے کام نہیں لیتے جس کے بعد معصوم لوگ بھی اسی بھٹی میں جل جاتے ہیں اورریاست بھی انہیں روکنے میں ناکام ہے ۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ برادراسلامی ممالک سعودی عرب ، ایران، امارات وغیرہ میں کوئی عالم اس طرح فتویٰ دیتا ہے؟ اگر کوئی بھول چوک میں کوئی فتوی دیدے جو ریاست کی پالیسی سے متصادم ہوتو اس کو اسی وقت گرفتار کر لیا جاتا ہے لیکن وہاں پرنہ تواس طرح کے ہنگامے ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی تلوار لے کر کسی کاسر تن سے جد ا کرتا ہے ،اگر ایسا نہ کیا جائے تو ریاست کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے ۔ ملک نظام سے چلتے ہیں اگر کوئی نظام نہ ہوتو ملک کمزور ہوتا جائے گا لہٰذا ہمارے رہنماوں کو کچھ کہنے سے قبل سوچنا چاہئے ، لوگ انہیں سنتے ہیں اور ان کے کہے پر عملدرآمد بھی کرتے ہیں ۔ اگر کسی رہنما کے کسی بیان سے کوئی جانی یا مالی نقصان ہوتا ہے تو وہ اس میں برابر کا حصہ دار ہوتا ہے ۔حکومت کو اس حوالے سے کچھ قانون سازی بھی کرنی چاہئے اور اس پر عملدرآمد بھی کرانا چاہئے۔
مذہب کے نام پر اشتعال دلانے میں ہمارے علماکرام کسی تردد سے کام نہیں لیتے جس کے بعد معصوم لوگ بھی اسی بھٹی میں جل جاتے ہیں اورریاست بھی انہیں روکنے میں ناکام ہے ۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ برادراسلامی ممالک سعودی عرب ، ایران، امارات وغیرہ میں کوئی عالم اس طرح فتویٰ دیتا ہے؟ اگر کوئی بھول چوک میں کوئی فتوی دیدے جو ریاست کی پالیسی سے متصادم ہوتو اس کو اسی وقت گرفتار کر لیا جاتا ہے لیکن وہاں پرنہ تواس طرح کے ہنگامے ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی تلوار لے کر کسی کاسر تن سے جد ا کرتا ہے ،اگر ایسا نہ کیا جائے تو ریاست کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے ۔ ملک نظام سے چلتے ہیں اگر کوئی نظام نہ ہوتو ملک کمزور ہوتا جائے گا لہٰذا ہمارے رہنماوں کو کچھ کہنے سے قبل سوچنا چاہئے ، لوگ انہیں سنتے ہیں اور ان کے کہے پر عملدرآمد بھی کرتے ہیں ۔ اگر کسی رہنما کے کسی بیان سے کوئی جانی یا مالی نقصان ہوتا ہے تو وہ اس میں برابر کا حصہ دار ہوتا ہے ۔حکومت کو اس حوالے سے کچھ قانون سازی بھی کرنی چاہئے اور اس پر عملدرآمد بھی کرانا چاہئے۔
Leave a Reply