پریس ریلیز+مانیٹرنگ

پنجاب یونیورسٹی کی ایتھلیٹ طالبات نے یونیورسٹی انتظامیہ پر کھیلوں میں بہتر کارکردگی دکھانے کے لئے سٹیرائیڈز استعمال کرانے کا الزام عائد کیا ہے۔7 جولائی 2014کو ایک پریس کانفرنس کے دوران ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے عائشہ قاضی، بشری بٹ، اقصیٰ رشید، اقصی نواز، مریم مولا اور زیبا منصور نے سابق سپورٹس ڈائریکٹر پنجاب یونیورسٹی منصور سرور اور ڈائریکٹرسپورٹس شمسہ ہاشمی سے پر ایتھلیٹس کو سٹیرائیڈز کے استعمال پر مجبور کرنے اور انکار کی صورت میں انتقامی کاروائی کا الزام لگایا،”مجھے اس بار سٹرائڈز استعمال کرنے سے انکار کی وجہ سے مڈٹرم امتحانات میں شریک ہونے سے روک دیا گیا ہے۔”پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کی طالبہ بشریٰ بٹ نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا۔
” مجھے اور باقی طالبات کو گزشتہ برس سٹیرائیڈز کے استعمال سے مختلف طبی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا ، گزشتہ دو برس کے دوران میڈل جیتنے والے اکثر طلبہ کو سٹیرائیڈز استعمال کرائے گئے، جس کے نقصان دہ اثرات بھی مرتب ہوئے۔”
پریس کانفرنس کرنے والی طالبات نے سٹیرائیڈز کے استعمال سے ہونے والی طبی پیچیدگیوں کا انکشاف بھی کیا،” مجھے اور باقی طالبات کو گزشتہ برس سٹیرائیڈز کے استعمال سے مختلف طبی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا ، گزشتہ دو برس کے دوران میڈل جیتنے والے اکثر طلبہ کو سٹیرائیڈز استعمال کرائے گئے، جس کے نقصان دہ اثرات بھی مرتب ہوئے۔” بشریٰ بٹ نے ذرائع ابلاغ کو آگاہ کیا۔ بی ایس )آنرز( سپورٹس سائنسز کی طالبہ اقصی نواز نے اپنے ہاسٹل کے کمرے میں لگنے والی آگ کا ذکر کرتے ہوئے ادویات کے استعمال سے انکار پر اس واقعہ میں بھی انتظامیہ کے ملوث ہونے کا شک ظاہر کیا ہے۔ پریس کانفرنس کرنے والی طالبات نے پنجاب یونیورسٹی حکام کے خلاف وزیر اعلیٰ اور دیگر اعلیٰ حکام سے تحفظ اور تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
ڈائریکٹر سپورٹس پنجاب یونیورسٹی شمسہ ہاشمی اور ترجمان پنجاب یونیورسٹی نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں لاء کالج کی پروفیسر خجستہ ریحان کی جانب سے یونیورسٹی انتظامیہ پر دباو ڈالنے کی کوشش قرار دیا ہے۔شمسہ ہاشمی کے مطابق پنجاب یونیورسٹی کے پاس ایسے باصلاحیت ایتھلیٹ اور تربیتی پروگرام موجود ہیں جن کے باعث یونیورسٹی کو کھیلوں کے مقابلوں میں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں،” ان طالبات نے لاء کالج کی پروفیسر جن کے خلاف انظباطی کاروائی جاری ہے کہ اکسانے پر یہ الزامات لگائے ہیں، نہ تو کسی طالب علم کو ایسی ادوایات استعمال کرائی گئی ہیں، نہ ہی کسی طالب علم کو ہسپتال جانے کی ضرورت پیش آئی ہے ۔پنجاب یونیورسٹی اپنے ایتھلیٹ طلبہ کو وظائف، رہائش، تربیت ، آمدورفت اور علاج معالجہ جیسی سہولیات دے رہی ہے، ہمارے ایتھلیٹس کو نامور کوچ 6 سے 8 ماہ کی کوچنگ فراہم کر رہے ہیں، اسی وجہ سے پنجاب یونیورسٹی کی کارکردگی کھیلوں میں بہتر ہوئی ہے۔”یونیورسٹی انتظامیہ نے کھلاڑیوں کے ڈوپ ٹیسٹ اور تحقیقات میں تعاون کا عندیہ بھی دیا ہے۔
پاکستان میں قوت بخش ادویات کے استعمال کا چلن عام ہے، تن ساز، ایتھلیٹس اور کھلاڑی اپنی کارکردگی میں اضافہ کے لئے سٹیرائیڈاستعمال کرتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایتھلیٹس نے تعلیمی اداروں کے کھلاڑیوں کے لئے ڈوپنگ ٹیسٹ لازمی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

Leave a Reply