حکومت پنجاب نے صوبہ کی 12 سرکاری جامعات میں نئی میرٹ پالیسی کے تحت داخلوں کے لئے مخصوص کوٹہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مخصوص نشستوں پر داخلوں کا نظام ختم کرنے سے 700مزید نشستوں پر میرٹ پر داخلے کئے جائیں گے۔ نئی میرٹ پالیسی کے تحت جامعات کے وائس چانسلرز کی صوابدید پر داخلوں کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا۔حکومت نے یہ فیصلہ مخصوص نشستوں پر داخلوں میں بے قاعدگی کی شکایات سامنے آنے کے بعد کیا ہے۔
اس برس ایچیسن کالج میں داخلوں کے دوران امراء اور مشہورشخصیات کے بچوں کو حاصل غیر رسمی کوٹہ ختم کرنے کے بعد حکومت نے پنجاب کی دیگر جامعات میں موجود مخصوص نشستوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے
وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے احکامات پر نئے تعلیمی سال 2014-15 کے داخلوں کے دوران مختلف مخصوص نشستوں پر داخلوں کی بجائے میرٹ پرداخلے دیے جائیں گے۔ حکومت کے اس اقدام کا مقصد وائس چانسلرز اور مختلف تعلیمی اداروں کے سربراہان کی جانب سے داخلوں کے عمل پر اثرانداز ہونے کو روکنا ہے۔ذرائع ابلاغ کوموصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس برس ایچیسن کالج میں داخلوں کے دوران امراء اور مشہورشخصیات کے بچوں کو حاصل غیر رسمی کوٹہ ختم کرنے کے بعد حکومت نے پنجاب کی دیگر جامعات میں موجود مخصوص نشستوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ،تاہم ابھی تک نئی میرٹ پالیسی اور ختم کی گئی مخصوص نشستوں کی تفصیلات عوام کے سامنے نہیں لائی گئیں۔
طلبہ کی جانب سے حکومت کے اس فیصلہ کو سراہا گیا ہے تاہم جسمانی یا ذہنی معذوری کا شکار طلبہ نے اس فیصلہ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ لالٹین سے بات کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے ایک نابینا طالب علم نے حکومت سے صورت حال واضح کرنے کا مطالبہ کیا،”پہلے معذور طلبہ کو وائس چانسلر کی منظوری سے داخلہ مل سکتا تھا، اب معلوم نہیں کہ حکومت ہمارے حقوق کے تحفظ کے لئے کیا اقدامات کرے گی۔حکومت کو نئی میرٹ پالیسی میں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔” کھیلوں اور ہم نصابی سرگرمیوں کی بنیاد پر داخلہ لینے کے امیدواروں کی ایک بڑی تعداد بھی اس فیصلہ سے خوش نہیں۔ مختلف تقریری اور نعتیہ مقابلوں میں انعام حاصل کرنے والی حریم النساء نے حکومتی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کوٹہ ختم کرنے کی بجائے وائس چانسلرز کے صوابدید ی اختیارات ختم کرنے کی تجویز دی،”اگر داخلوں میں بد عنوانی کی شکایات تھیں تو حکومت کو چاہئے تھا کہ مخصوص نشستوں پر داخلہ کے لئے وائس چانسلرز کے اختیارات ختم کر دیتی اور علیحدہ میرٹ پالیسی بنا دیتی، کوٹہ ختم کرنے سے ہم نصابی سرگرمیوں میں شریک طلبہ کی حوصلہ شکنی ہو گی۔”
پنجاب کی جامعات میں اساتذہ، عملہ، شہداء فوجی افسران کے بچوں سمیت ہم نصابی سرگرمیوں اور کھیلوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلبہ اور معذور افراد کے لئے نشستیں مخصوص کی گئی تھیں جن میں سے بعض پر داخلوں کا فیصلہ وائس چانسلرز کی صوابدید پر تھا۔
طلبہ کی جانب سے حکومت کے اس فیصلہ کو سراہا گیا ہے تاہم جسمانی یا ذہنی معذوری کا شکار طلبہ نے اس فیصلہ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ لالٹین سے بات کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے ایک نابینا طالب علم نے حکومت سے صورت حال واضح کرنے کا مطالبہ کیا،”پہلے معذور طلبہ کو وائس چانسلر کی منظوری سے داخلہ مل سکتا تھا، اب معلوم نہیں کہ حکومت ہمارے حقوق کے تحفظ کے لئے کیا اقدامات کرے گی۔حکومت کو نئی میرٹ پالیسی میں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔” کھیلوں اور ہم نصابی سرگرمیوں کی بنیاد پر داخلہ لینے کے امیدواروں کی ایک بڑی تعداد بھی اس فیصلہ سے خوش نہیں۔ مختلف تقریری اور نعتیہ مقابلوں میں انعام حاصل کرنے والی حریم النساء نے حکومتی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کوٹہ ختم کرنے کی بجائے وائس چانسلرز کے صوابدید ی اختیارات ختم کرنے کی تجویز دی،”اگر داخلوں میں بد عنوانی کی شکایات تھیں تو حکومت کو چاہئے تھا کہ مخصوص نشستوں پر داخلہ کے لئے وائس چانسلرز کے اختیارات ختم کر دیتی اور علیحدہ میرٹ پالیسی بنا دیتی، کوٹہ ختم کرنے سے ہم نصابی سرگرمیوں میں شریک طلبہ کی حوصلہ شکنی ہو گی۔”
پنجاب کی جامعات میں اساتذہ، عملہ، شہداء فوجی افسران کے بچوں سمیت ہم نصابی سرگرمیوں اور کھیلوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلبہ اور معذور افراد کے لئے نشستیں مخصوص کی گئی تھیں جن میں سے بعض پر داخلوں کا فیصلہ وائس چانسلرز کی صوابدید پر تھا۔
کوٹہ ختم کردینے سے ابتدائی طور پر تو عوام خوش ہوتے ہیں لیکن اس کے دور روس نتائج بڑے خطرناک ثابت ہوتے ہیں!
لیکن کوٹہ کا استعمال صرف اور صرف ان طبقات اور افراد کی امداد اور داد رسی کے لیئے ہونا چاہیئے جو کسی نا کسی وجہ کی بنأ پر مراعت یافتہ طبقہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور اسی دوری کو پاٹنے کے لیئے کوٹہ کا استعمال ہوتا ہے!
یہ بات تو سمجھ سے باہر ہے کہ چہدریوں، وڈیروں کی اولادوں کو کس خوشی میں کوٹہ ملے یہ تو ویسے ہی مراعت یافتہ ہیں جائیں جا کر LUMS میں پڑہیں!
البتہ ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے اور جسمانی طور معزور طلبہ کا حق نہیں مارنا چاہیئے تھا!